0
Tuesday 2 Mar 2021 17:59

زمیں کھا گئی آسمان کیسے کیسے

زمیں کھا گئی آسمان کیسے کیسے
تحریر: سویرا بتول

شہداء حیرت انگیز جاذبیت رکھتے ہیں۔ انسانوں پر شہداء کا مقناطیسی اثر تصور سے بالاتر ہے۔ پاک اور نورانی دلوں کے امتحان کے لیے اسے ایک پیمانہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ ایسی ہی ایک شخصیت شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی ہے۔ شہید کی شخصیت کے بہت سے پہلو ایسے ہیں جنہیں قلم بند کیا جاسکتا ہے۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی زندگی کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ آپ اپنے جد امام المتقین علیؑ ابنِ ابی طالب کے اس قول پر عمل پیرا نظر آتے ہیں، جس میں آپؑ نے فرمایا:۔ *راہِ خدا میں قتل ہو جانا انتہائی عزت کا باعث ہے۔ اُس ذات کی قسم جس کے قبضے قدرت میں فرزندِ ابو طالبؑ کی جان ہے! تلوار کی ہزار ضربتیں اطاعتِ الہیٰ کے بغیر بستر پر آنے والی موت سے میرے لیے زیادہ آسان ہیں۔*
فان الحیوة فی موتکم قاھرین
والموت فی حیاتکم مقھورین

آیئے سفیرِ انقلاب کی زندگی کے کچھ پہلوؤں کا مشاہدہ کریں اور خدا سے توسل کریں کہ ہمیں بھی اُن لوگوں میں شمار کرے، جن کے لیے شہداء مغفرت طلب کرتے ہیں۔

*باب العلم کے ماننے والوں کا تشخص علم ہونا چاہیئے*
تمام فلاحی منصوبوں میں سفیرِ انقلاب کا ترجیحی منصوبہ تعلیم تھا اور اس کی مسئولیت بھی آپ کے ذمہ تھی۔ ایک روز آپ نے فرمایا کہ میری دلی خواہش ہے کہ ہماری مجالس میں کوئی خطیب منبر پر آئے تو وہ اپنے خطبہ کے بعد یہ کہے کہ مومنو! تعلیم بہت ضروری ہے۔ آپ کا نطریہ تھا کہ تعلیم دینی ہو یا دنیاوی، ہر حال میں ملتِ جعفریہ ایک باعلم قوم ہو۔ آپ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ: باب العلم کے ماننے والوں کا تشخص علم ہونا چاہیئے۔

*نماز کی اہمیت*
طویل سفر میں ڈاکٹر محمد علی نقوی کے پاس سفری بستر ہوا کرتا تھا۔ جہاں موقع ملتا اور ضرورت ہوتی، آپ کبھی ٹرین کے فرش پر اور کبھی پلیٹ فارم پر سکون سے سو جاتے۔ اکثر یہ دیکھا گیا کہ ڈاکٹر صاحب رات گئے تک تنظیمی اجلاس میں مصروف رہتے مگر صبح کی نماز ان سے قضا نہ ہو پاتی۔ یہ نوبت بہت کم ہی آئی کہ کسی دوسرے شخص کو کبھی تھکے ہارے ڈاکٹر صاحب کو نماز سے جگانا پڑا ہو۔

*افراد اپنی قدر کو پہنچائیں*
ڈاکٹر محمد علی نقوی نوجوانوں کی خداداد صلاحیتوں کے معترف تھے۔ باصلاحیت نوجوانوں سے مل کر آپ کو دلی مسرت ہوتی۔ آپ ملازم پیشہ نوجوان سے اکثر کہا کرتے تھے کہ وہ چوبیس گھنٹوں میں آٹھ گھنٹے راہِ خدا میں ضرور استعمال کریں۔ بعض اوقات بعض باصلاحیت نوجوانوں کے بارے میں فرماتے کہ "فلاں جوان ضائع ہوگیا" حالانکہ وہ بظاہر کسی نہ کسی نیک کام میں مصروف ہوتا تھا۔ آپ کا خیال تھا کہ وہ شخص جتنی صلاحیتوں کا مالک ہے اور اِس کی صلاحیتوں سے قوم کو جس قدر فائدہ پہنچ سکتا ہے، نہیں پہنچ رہا۔ ایسے نوجوانوں سے بالمشافہ ملتے تو اقبال کی فکر کو اپنے لبوں پہ لاتے۔؎
خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں


*نظریہ کی پختگی*
شہید کا نظریہ روزِ اول سے بڑا واضح تھا کہ "ہم تعداد میں چاہے کتنے ہی کم ہوں مگر ہمارا ہر قدم اسلام کی راہ میں اٹھنا چاہیئے۔ کمیونزم اور سوشلزم چاہے کسی روپ میں ہوں، اسلام سے متضاد ہیں، لہذا ہمیں چاہیئے کہ ہم اپنے طلباء کو اسلام کے مفاہیم سے آگاہ کریں"
*انس و محبت*
کنونشن کے پروگرام ختم ہوتے تو چاک و چوبند اور کانوں میں لہجے کی مٹھاس گھولنے والے سفیرِ انقلاب برادران کے حلقوں میں آتے۔ ہر ایک کو گلے لگاتے، ان کی تکالیف دریافت کرتے، ان کے تاثرات لکھتے، مشکلات پر اِن سے معذرت چاہتے اور ان کی خدمت کے لیے روانہ ہو جاتے۔

*سادگی*
شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی ایک لباس کو اتنا استعمال میں لاتے کہ وہ آپکا تعارف بن جاتا، بسا اوقات کسی مرکزی پروگرام میں جب نئے تنظیمی برادران کو ڈویژنز کی جانب بھیجا جاتا تو سینیئر برادران ڈاکٹر صاحب کا غائبانہ تعارف کرواتے کہ "دوستوں!  جین کی نیلی پتلون، دھاری دار شرٹ اور سفید و سیاہ رنگ کے بوٹوں والے نحیف شخص کی باتیں غور سے سننا اور اسے قریب سے جانچنے کی کوشش ضرور کرنا، وہ ڈاکٹر محمد علی نقوی ہونگے"

*ڈاکٹر کا نعرہ یاد ہے، امریکہ مردہ باد ہے*
پاکستان میں پہلا یومِ مردہ امریکہ 16 مئی کو شہید قائد عارف حسین الحسینی کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے منایا گیا۔ یہ یومِ مردہ باد امریکہ ریلی شہید قائد ؒکی قیادت میں برآمد ہوئی اور ڈاکٹر صاحب اس کے دستِ راست ٹھہرے۔ اس جلوس کے دوران شہید ڈاکٹر نے اپنے دوستوں کی مدد سے ایک طویل بینر جس پر Down with USA لکھا گیا، جو کہ لاہور کے معروف کاروباری مرکز الفلاح بلڈنگ کے اوپر لگایا گیا۔ یہی وہ وقت تھا، جس کی بناء پر بعد از شہادت نعرہ لگا:
ڈاکٹر کا نعرہ یاد ہے 
امریکہ مردہ باد ہے


*کام صرف خدا کیلئے*
انسانیت کی خدمت کے دوران کئی مریض ڈاکٹر محمد علی نقوی کے کپڑے خراب کرتے بلکہ زنجیروں میں بندھے ہوئے بعض مریض آپ پر تھوکتے، مگر آپ ایک عزم کے ساتھ ان کے معالجہ کیلئے ہر ممکنہ کوشش کرتے۔ ایک مرتبہ کسی شخص نے آپ سے کہا کہ ڈاکٹر صاحب اِن کو علاقہ کی پولیس بھی ٹھیک نہیں کرسکی، آپ نے خواہ مخواہ مصیبت اپنے سر لی ہوئی ہے، اِن لوگوں سے بھلا کیا ملنا؟ آپ نے امام حسینؑ کا فرمان جواب میں سنایا کہ "جو کام خدا کے لیے کیا جائے، اُس کا اجر صرف خدا ہی دیتا ہے۔" اِس قدر اخلاص، فداکاری، جرات و بے باکی اور اہلِ بیت اطہار علیہم السلام سے عشق رکھنے کے باوجود بھی شہید اکثر گریہ کرتے ہوئے کہتے تھے کہ 43 برس گزر گئے، ابھی تک شہادت نصیب نہیں ہوئی، لگتا ہے خدا کو میرا کوئی عمل پسند نہیں آیا۔

شہداء کو دیکھیے جنہوں نے ہر چیز راہِ خدا میں خرچ کر دی۔ اپنے ہر کام کو خدا کی رضا کے لیے انجام دیا۔ حسینی پیغام کو سمجھا اور حسینی پیغام نے انہیں سمجھایا کہ اسلام اہل و عیال سے زیادہ قیمتی ہے۔ جو لوگ اس حساس دور میں، ٹیکنیکل اور تاریخی دور میں اپنے آپ کو وقت ضائع کرنے کا عادی بناتے ہیں۔ اپنی توانائیوں کو لاحاصل گفتگو میں ضائع کرتے ہیں۔ انہیں یہ سوچنا چاہیئے کہ حقیقت میں یہ عمل کا وقت ہے۔ مقاومت، مزاحمت اور کوشش کا وقت ہے۔ شہداء یہ درس دیتے دکھائی دیتے ہیں کہ عاشقانِ خدا عمیق نگاہ رکھتے ہیں۔ خود کو دنیا کی زرق برق میں مبتلا نہیں کرتے۔ دینِ خدا کے لیے دروس پڑھتے ہیں اور جب اِس دین پر خطرہ لاحق ہو تو کتاب بند کرکے دفاع کے لیے نکل پڑتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 919256
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش