2
Sunday 21 Mar 2021 21:30

جو وعدہ کیا تھا نبھا گئے

جو وعدہ کیا تھا نبھا گئے
تحریر: سویرا بتول

لکھنے والے ہمیشہ سے ہی مختلف حوادث و واقعات کے بارے میں لکھتے رہتے ہیں، لیکن ہر زمانہ میں ایسے عنوان پر لکھنا کہ جو اِس زمانے کے یزید و شمر اور اِس زمانے کے طاغوت کے مقابلے میں ہو، وہ دشوار ہی رہا ہے۔ آج بھی شرق و غرب کے بارے میں بہت کچھ کہا جاتا ہے، وہاں اس دور کے پیروانِ کربلا اور عزادارانِ حقیقی امام حسینؑ یعنی "مدافعین حرم اہلِ بیت علیہ سلام" کے بارے میں زبانیں بند رہتی ہیں اور صدائیں اپنے مخارج میں دبا دی جاتی ہیں اور اگر کوئی آواز اٹھتی بھی ہے تو وہ اسی ترنم میں ہوتی ہے کہ جو دشمن چاہتا ہے اور جس کی سُر سامراج کو پسند ہے۔ مدافعین حرم جنہیں فلاں پروجیکٹ کے لیے خطرہ اور کبھی سکیورٹی کے لیے تھریٹ کے نام سے جانا جاتا ہے، حقیقت میں وہ پوری دنیا کو وحشی تکفیری داعشیوں کے سکیورٹی تھریٹ سے نجات دلانے والے ہیروز ہیں۔

یاد رہے یہ کوئی عراق و شام کی داعش نہیں ہے بلکہ پاکستان کے تکفیری دہشتگرد گروہ ہیں، جہنوں نے پہلے بھی مکتبِ اہلِ بیت ؑ کے ماننے والوں کا ناحق خون بہایا ہے اور اب یہی تکفیری ناصبی گروہ سیاست کرتے ہوئے اپنا نام تبدیل کرکے اپنے مخالفین بالخصوص محبانِ اہلِ بیتؑ کو دھوکہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ داعش، سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی، طالبان، جماعت الاحرار، جیش العدل اور باقی خوارج دہشتگرد گروہوں کی ایک ملی بھگت سے بنائی گئی تنظیم ہے، جس کا مقصد فقط خون کی ندیاں بہانا ہے اور یہ حقیقت پاکستان کے ہر عاشقِ اہلِ بیتؑ کو سمجھ لینی چاہیئے کہ یہ تمام تکفیری گروہ داعش ہی ہیں۔ اِن کے ناموں سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے، یہ خوارج ہیں، ان کے خلاف جہاد کرنا سنتِ پیغمبرِ اسلامﷺ اور سنتِ امام علئ ہے۔
ہم ملتِ شہادت ہیں
 ہم ملت امام حسین ہیں
 جاؤ جا کر پوچھو تاریخ سے
 ہم سخت حالات سے گزر کر آئے ہیں
 آؤ ہم منتظر ہیں
تمہارے لئے اِس میدان میں 
مرد میدان ہم ہیں


اگر مدافعین حرم نہ ہوتے؟
ایک لمحے کے لیے فرض کیجیے کہ اگر زینبیون و فاطمیون و دیگر مدافعین حرم اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے اپنی جانیں حرمِ عقیلہ بنی ہاشم ؑکی حفاظت کے لیے وقف نہ کرتے تو کیا ہوتا؟ اگر زینبیون اپنی جانیں قربان نہ کرتے تو آج ہم یہ جنگ کراچی اور اسلام آباد کی سڑکوں پہ لڑ رہے ہوتے اور عراق و شام میں داعش و دیگر شدت پسند گروہوں کے مسلط ہونے پر اِن استکباری و سامراجی قوتوں کو اِس خطہ میں اپنی جڑیں نہ صرف مضبوط کرنے کا بہانہ ملتا بلکہ یہ سازش اسرائیل کے وجود کے لیے سب سے خطرناک نیٹ ورک "مقاومتِ اسلامی" کو توڑنے کا بہترین طریقہ ثابت ہوتی۔ مگر سلام ہو اُن مٹھی بھر عُشاق پر جو سربکف اپنی جانوں کی پرواہ کیے بغیر اپنے وعدے نبھا گئے اور ہم "یالیتنا کنا معکم" کہتے رہ گئے۔

اے انصار الحسینؑ! آج زمانے کے حسینؑ کی مدد کا دن ہے۔ "ھل من ناصر ینصرنا" کی صدا آج بھی ہر سو فضا میں گونج رہی ہے۔ اگر آج اِس میدان میں ہمارے قدم لڑکھڑا گئے تو دشمن ہمارے شہداء کی لاشوں پہ قدم رکھے گا اور گھوڑوں کے ساتھ نہیں بلکہ ٹینکوں کے ذریعے ہمارے شہداء کے ٹکڑے ٹکڑے جسموں کو پامال کر دے گا۔ آج صرف ہم ہیں اور ہمارا خدا۔ اگر آج ہم نے ایک لمحے کے لیے بھی غفلت کی تو شہداء کا پاک لہو پامال ہو جائے گا۔ شہادت ہمارا افتخار ہے۔ ہم حسینی ہیں اور ہمارا نظریہ یہ ہے کہ؛
جو حسینی ہے اور موت سے بھی ڈرتا ہے
ہاں وہ توہینِ حسینؑ ابنِ علیؑ کرتا ہے


شہادت کا جذبہ اور اِس کا عشق بہت ہی کم لوگوں کو عطا ہوتا ہے۔ کل یوم عاشورا و کل ارض کربلا کی صدا آج بھی فضا میں قائم ہے۔ جو راہ زینبیون و فاطمیون و دیگر مدافعین حرم نے چنی وہ کس قدر دشوار تھی۔ شہداء ہم سے سوال کر رہے ہیں کہ ہم نے آج کی کربلا میں کیا کردار ادا کیا؟ ہم نے اپنے کتنے امور کو رضائے الہیٰ کے لیے انجام دیا؟ دفاع کا اہم ترین پہلو دشمن شناسی ہے کہ جو ولائی بصیرت سے حاصل ہوتی ہے۔ مدافعینِ حرم اس بات کو اچھی طرح جانتے اور سمجھتے تھے کہ جب وہ تکفیریوں کے مدمقابل ہوتے تو انہیں کامل یقین ہوتا تھا کہ یہ یہود کے آلہ کار اور حقیقی اسلام کے دشمن ہیں اور یہ مجاہدین اِسی نیت سے اِن پر حملہ آور ہوتے اور انہیں شکست دیتے تھے۔ آج ہم خود سے سوال کریں کہ ہم نے دشمن شناسی کے لیے اپنی بصیرت میں کتنا اضافہ کیا؟ کتنے اقدامات حقیقی اسلام کو پہچانے کے لیے کیے؟ اتحاد بین المسلمین کی کاوشوں میں کتنی خدمات انجام دیں؟ شہداء کے افکار و نظریات سے قوم کے کتنے افراد کو آگاہ کیا۔؟
خبر کا کوڈ : 922737
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش