0
Friday 9 Apr 2021 14:29

امریکی سفارتی ناکامیاں اور ویانا مذاکرات

امریکی سفارتی ناکامیاں اور ویانا مذاکرات
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

امریکہ کی خارجہ پالیسیاں اسے خطے میں مسلسل تنہا کر رہی ہیں۔ اس کا ہر قدم اسے خطے کے ممالک میں غیر مقبول بنا رہا ہے۔ دنیا نے دیکھا کہ امریکہ جیسا ملک  پوری دنیا کے سامنے ایک معاہدے کرتا ہے اور پھر پوری دنیا کی مخالفت کے باوجود اس سے نکل جاتا ہے۔ امریکہ ویسے تو ہمیشہ ایسا ہی کرتا رہا ہے مگر اس بار اس کے روایتی اتحادیوں نے امریکہ کا ساتھ نہیں دیا۔ آپ دیکھیں یورپ معاہدے میں نہ صرف موجود رہا بلکہ اسے بچانے کی اپنی سی کوشش بھی کرتا رہا۔ امریکہ کے ساتھ  فقط اسرائیل اور چند اتحادی رہ گئے ہیں۔ ویانا میں امریکہ کے علاوہ دیگر معاہدہ سائن کرنے والوں کے مذاکرات ہو رہے ہیں۔ یہ بذات خود امریکہ کے لیے ہزیمت ہے کہ اتنے اہم بین الاقوامی معاملے پر وہ تیسرے درجے کی حیثیت اختیار کرچکا ہے، حالانکہ وہ خود کو فریق اول سمجھتا ہے اور بین الاقوامی ورلڈ آڈر کو نافذ کرنے والا گردانتا ہے۔

ٹرمپ کی یہ حکمت عملی تھی کہ زیادہ سے زیادہ دباو ڈال کر ایران کو اپنی بات ماننے پر مجبور کیا جائے، ایران نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ اپنی خارجہ پالیسی کو ترتیب دیا ہے۔ امریکی یہ سمجھتے تھے کہ ان کے علاوہ ایران کے پاس کوئی آپشن نہیں ہے، یہ ان کی سب سے بڑی غلط فہمی تھی۔ عین مذاکرات سے ایک ہفتہ پہلے چین کے وزیر خارجہ کا دورہ ایران اور اس میں چار سو ارب ڈالر کی انویسٹمنٹ سمیت  دفاعی شراکت داری کا اعلان کیا گیا۔ ایرانی معیشت پر جو دباو تھا، اس اعلان کے ساتھ ہی اس پر خوشگوار اثرات مرتب ہو رہے ہیں، دنیا کے سرمایہ کار اب ایران میں انویسمنٹ کے طریقے نکالیں گے۔ ایک اہم بات ایران چین مشترکہ بنک کے قیام کا فیصلہ ہے۔ مغربی میڈیا اسے ڈالر کے مقابل ایک بڑی قوت کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ اس سے دنیا میں ڈالر کی حکمرانی کو ایک بڑا چیلنج درپیش ہے۔ اب ایران اور چین مل کر خطے میں امریکی بالادستی کو چیلنج کریں گے۔ ایران کو امریکہ کی طرف سے جس مالی چیلنج کا سامنا رہا، اب ایران و چین مل کر امریکہ کے مالیاتی نظام کو چیلنج کر رہے ہیں۔

ویانا میں مذاکرات ہو رہے ہیں، اس بار یہ مذاکرات چار پلس ون میں ہیں۔ جس ہوٹل میں ایرانی اور یورپی وفود مل رہے ہیں، اس کے سامنے والے ہوٹل میں امریکی ٹیم بھی ٹھہری ہوئی ہے۔ یہ ایک طرح سے بلواسطہ مذاکرات ہو رہے ہیں۔ اب ایران یہ کہہ رہا ہے کہ سب سے پہلے تو ساری پابندیاں اٹھائی جائیں، دوسرے مرحلے میں امریکہ کے اس معاہدے سے نکلنے کی وجہ سے جو نقصان ہوا ہے، اس کا بھی حساب کتاب کیا جائے، کیونکہ ان غیر انسانی پابندیوں سے ایرانی معیشت کو ایک ٹریلین ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ امریکہ کو مذاکرات کی جلدی اس لیے بھی ہے کہ اگر اس نے اب ٹرین مِس کر دی تو اسے ستمبر تک انتظار کرنا پڑے گا، کیونکہ ایران میں انتخابات ہوں گے اور نئی حکومت قائم ہوگی۔ امریکی تجریہ نگار یہ کہہ رہے ہیں کہ ایران میں آئندہ حکومت  زیادہ سخت موقف رکھنے والے لوگوں کی ہوگی، اس لیے اگر ابھی معاہدہ کر لیا جائے تو یہی اس کا بہترین وقت ہے، نہیں تو مسائل بڑھ جائیں گے۔

ایک بہت اہم بات یہ بھی ہے کہ اگر امریکہ ڈیل میں واپس آتا ہے تو اسے نئی لگائی گئی پابندیاں ہٹانا ہوں گی اور دوسرا نیوکلئر پروگرام پر عائد ساری پابندیاں بھی اٹھانا ہوں گی۔ ایسا کرنے کے لیے کانگرس کی اجازت درکار ہوگی اور یہ بائیڈن انتظامیہ کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہوگا۔ خود بائیڈن انتظامیہ میں کچھ ایسے لوگ موجود ہیں، جو کسی بھی طور پر ایران کے ساتھ معاہدے میں واپسی نہیں چاہتے۔ ویسے ابھی تک کی بائیڈن کی پالیسی بھی ٹرمپ والی ہے کہ زیادہ سے زیادہ پریشر کی پالیسی ہی فالو کی۔ جس طرح ٹرمپ کے بہت سے اقدمات کو ایک دن میں ہی لغو کر دیا تھا،  ایسا کچھ بھی ایران کے حوالے سے نہیں کیا گیا۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس معاملے میں ٹرمپ اور بائیڈن ایک ہی پیج پر ہیں۔

امریکہ نے دنیا کے وسائل لوٹنے کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے، جو اس میں رکاوٹ بنتا ہے اس پر چڑھ دوڑتا ہے۔ ٹرمپ نے کہا کہ ہم سیریا کے تمام علاقوں سے فوجیں نکال لیں گے، مگر اس علاقے کو نہیں چھوڑیں گے جہاں سے تیل نکلتا ہے۔ یقیناً عقل و فہم رکھنے والے عام امریکی عوام بھی اپنے صدر کے اس پالیسی بیان پر حیرت میں چلے گئے ہوں گے کہ یہ تو جدید دور کا ڈاکہ ہے۔ ایک طاقتور دوسری قوم کے وسائل کو طاقت کے زور پر لوٹ رہا ہے اور اس پر فخر بھی کر رہا ہے۔ ایک بات امریکی پالیسی سازوں کو سمجھ لینی چاہیئے کہ ہر ملک و قوم کی اپنی شناخت ہے، وہ اپنے طریقہ کے مطابق زندگی گزارنا چاہتی ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ ہر کوئی آپ کی طرح سوچے اور آپ کے بنائے اصولوں پر چلے۔ اس زمین پر امریکہ کے دریافت ہونے سے ہزاروں سال پہلے کی تہذیبیں موجود ہیں۔ ہر تہذیب خون کی طرح یہاں کے باسیوں کی رگوں میں گردش کرتی ہے۔ آپ کو دوسری اقوام کو عزت دینی ہوگی۔ اس وقت دنیا جس مرحلے میں داخل ہوچکی ہے، اس میں آپ کسی بھی ملک کو مجبور نہیں کرسکتے۔ پابندیاں ایک بڑی دھمکی شمار ہوتی تھیں، مگر ان کو اتنا زیادہ ملکوں کے خلاف استعمال کیا گیا کہ اب ان ممالک کا اتحاد معرض وجود میں آگیا، جو ان پابندیوں کا شکار ہیں۔
خبر کا کوڈ : 926199
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش