0
Friday 7 May 2021 00:34

بحرین کو نہ بھولیں

بحرین کو نہ بھولیں
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

مشرق وسطیٰ میں یمنی بہت زیادہ مظلوم ہیں، دنیا ان کی جدوجہد سے کسی حد تک باخبر ہے، لیکن بحرین کی عوامی اور جمہوری جدوجہد دنیا سے پوشیدہ ہے، وہاں تحریک کے قائدین بالخصوص شیخ سلمان اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ جیلوں میں کیا بیت رہی ہے، کسی کو کوئی خبر نہیں۔ کبھی کبھی جلاوطن رہنما شیخ عیسیٰ قاسم کی آواز بحرین کے مجاہدین کے دکھ درد کو بیان کرتی نظر آتی ہے۔ حال ہی میں بحرین میں اصلاحات کے حوالے سے ان کا موقف سامنے آیا ہے۔ بحرین کے قائد اور تحریک اسلامی کے رہنما آیت اللہ عیسیٰ قاسم نے گذشتہ ہفتے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ بحرین کی بقا اور دوام کا دار و مدار بنیادی اور حقیقی اصلاحات پر ہے۔ آیت اللہ عیسیٰ قاسم کے بیان میں کہا گیا ہے کہ بحرین اس وقت شدید قسم کے بحرانوں سے دوچار ہے اور شاہی حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے اس ملک کا وجود خطرے میں پڑ گیا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگرحکومت بحرین نے غلط پالیسیوں کو ترک نہ کیا تو بحرانوں میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی۔

انقلاب بحرین کے قائد کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ صورتحال اسی طرح جاری رہی تو بحرین کی حکومت بہت جلد اندرونی، بیرونی اور عالمی سطح پر تنہا ہو کر رہ جائے گی۔ آیت اللہ شیخ عیسیٰ قاسم نے اپنے بیان کے آخر میں بحرین میں بنیادی اصلاحات کا مطالبہ کرتے ہوئے یہ بات زور دے کر کہی کہ اس ملک کے عوام اپنے حقوق سے پوری طرح واقف ہیں اور گفتگو کے لیے تیار ہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ اگر ملک میں اصلاحات انجام نہ دی گئیں تو صورتحال مزید پیچیدہ اور گمبھیر ہو جائے گی۔
2011ء سے اب تک بحرینی حکومت نے 14 ہزار سیاسی مخالفین کو گرفتار کیا ہے، جن میں سے پانچ ہزار افراد کے ساتھ بدسلوکی کی گئی ہے اور انہیں شدید ٹارچر کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اسی طرح سیاسی قیدیوں میں 1700 بچے بھی شامل ہیں۔ گرفتاریوں کا یہ سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب 2011ء میں بحرین میں اپنے جائز حقوق کیلئے عوام نے احتجاجی مظاہروں کا آغاز کیا تھا۔ احتجاج کرنے والی عوام اپنے بنیادی انسانی حقوق کا مطالبہ کر رہے تھے، لیکن بحرینی حکومت نے ان کے خلاف طاقت کا کھلا استعمال کیا اور وسیع پیمانے پر گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں۔

بین الاقوامی سیاسی تحقیقات کے مرکز کی رپورٹ کے مطابق سیاسی قیدیوں کی تعداد کے لحاظ سے بحرین مشرق وسطیٰ میں پہلے نمبر پر ہے۔ آبادی کے لحاظ سے بھی دیکھا جائے تو بحرین میں سیاسی قیدیوں کی تعداد کل آبادی کا 0.3 فیصد ہے۔ 2011ء سے اب تک بحرین کی سکیورٹی فورسز کی جانب سے مظاہرین کے خلاف طاقت کے بے جا استعمال کے دوران پانچ ہزار سے زائد افراد زخمی ہوگئے ہیں۔ اگرچہ کرونا وائرس کے باعث دنیا بھر میں کووڈ 19 وباء کے پھیلاو کے پیش نظر دنیا کے اکثر ممالک میں قیدیوں کو چھٹی دے دی گئی ہے، لیکن بحرینی حکومت نے ایسا اقدام کرنے سے گریز کیا ہے۔ انجمن انسانی حقوق بحرین کے سربراہ باقر درویش نے کچھ عرصہ پہلے مہر نیوز ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ شاہی حکومت کے سکیورٹی اہلکار سیاسی اور انقلابی قیدیوں کو بے پناہ تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اب تک ایذا رسانی کے ایسے اکیس طریقوں کا انکشاف ہوا، جنہیں بحرین کی شاہی حکومت کے سکیورٹی اہلکار سیاسی اور انقلابی قیدیوں کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ عینی شاہدین اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے ایسی رپورٹس بھی دی ہیں، جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ جیل کی انتظامیہ ایسے قیدیوں کو بھی تشدد اور ٹارچر کا نشانہ بناتی ہے، جن کی آزادی کا حکم جاری ہوچکا ہوتا ہے۔ سکیورٹی فورسز مختلف طریقوں سے قیدیوں کو اذیت پہنچاتی ہیں، جیسے اہلخانہ کے ساتھ رابطہ منقطع کر دینا، قیدیوں سے کپڑے اور دیگر بنیادی ضرورت کی اشیاء ضبط کر لینا اور انہیں مختلف قسم کی نفسیاتی اذیتیں پہنچانا۔ اسی طرح انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے بحرینی عدالتوں کی جانب سے سیاسی قیدیوں کو سنائی گئی سزاوں کی نوعیت پر بھی تنقید کی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ بحرین کی ظالم حکومت آل سعود رژیم کی پشت پناہی کے ذریعے شیعہ سیاسی قیدیوں کو سزائے موت، عمر قید اور شہریت منسوخ کئے جانے جیسی سخت سزائیں سناتی آئی ہے۔ اب تک 40 سے زائد سیاسی قیدیوں کو سزائے موت سنائی گئی ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ بحرین میں جاری عوامی احتجاجی تحریک کو کوریج بھی نہیں دیتے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آل خلیفہ کی ظالم رژیم کو ان کی پس پردہ پشت پناہی حاصل ہے۔ لہذا بحرینی حکومت مغربی ممالک کی شہہ پر شیعہ مسلمانوں کے خلاف ظالمانہ اقدامات جاری رکھے ہوئے ہے اور آئے دن شیعہ شہریوں کی شہریت منسوخ کرکے انہیں ملک بدر کیا جا رہا ہے۔ انسانی حقوق اور جمہوری اقدار کے تحفظ کا دعویٰ کرنے والی مغربی حکومتیں آل خلیفہ رژیم کے ظلم و ستم پر پراسرار اور مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔
 
بہرحال آيت اللہ شیخ عیسی قاسم اس سے پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ ساری جیلوں کو عوام سے بھر دیا جائے تو بھی اس کا کوئی نتیجہ نکلنے والا نہیں اور حکومت اپنے پیش نظر غیر جمہوری اہداف ہرگز آگے نہیں بڑھا سکتی۔ انہوں نے کہا  تھا کہ بحرین کے عوام ہوشیار ہیں اور جانتے ہیں کہ ملک کو درپیش بحران کا واحد حل یہ ہے کہ سیاسی ماحول کو بدلا جائے، حکومت اور قوم کے درمیان نئے اصولوں کے مطابق درست انداز میں رابطہ قائم کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت اپنی تسلط پسندی کی روش اور عوام کی دولت و ثروت کو اپنی آمریت کے پنجوں سے رہا کر دے تو اسے اس قسم کے مہلک مسائل کا سامنا ہی نہیں کرنا پڑے گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا آل خلیفہ کو صرف مشوروں سے راہ راست پر لایا جاسکتا ہے اور کسی بڑی اور مستحکم عوامی تحریک کے بغیر آل خلیفہ کی آمریت کو ختم کیا جاسکتا ہے۔؟
خبر کا کوڈ : 931172
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش