0
Saturday 29 May 2021 21:30

سماج میں بے حسی کی انتہا اور قائدین

سماج میں بے حسی کی انتہا اور قائدین
تحریر: ارشاد حسین ناصر

گذشتہ برس مارچ میں جب کرونا کا آغاز ہوا تو اس کے بارے میں جیسے جیسے معلومات سامنے آتی رہیں، لوگوں میں خوف و ڈر اور سراسیمگی بڑھتی گئی بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا کہ پوری دنیا میں پھیلنے والی اس وبا کے بعد ہر شخص چاہے اس کا تعلق کسی بھی مکتب و مذہب سے تھا، اپنے اندر خوف کی وجہ سے توبہ و استغفار کا ورد کرتا نظر آیا، ہر ایک کو آخرت نظر آنے لگی اور وباء کے پھیلائو اور اموات کے اندازوں نیز مختلف ممالک کی سامنے آنے والی صورتحال اور رپورٹس نے بھی اس حوالے سے لوگوں کو اپنی قبر اور آخرت نظر آنے لگی تھی۔ پاکستان بھی ان ممالک میں ہے، جن کا معاشرہ مجموعی طور پر بھلائی اور فلاح کیلئے ہمیشہ بڑھ چڑھ کے حصہ لیتا ہے، کرونا کی وجہ سے بے روزگاری اور غربت کا ایک سیلاب پوری دنیا میں امڈ آیا تھا، پاکستانی بھی اس سے دنیا بھر کی طرح متاثر ہوا، بالخصوص سفید پوش لوگوں کیلئے دوہری مشکلات درپیش ہوئیں، اس خدا خوفی، فلاح، رفاہ، توبہ و استغفار اور احساس کے زمانے میں ہی ہم نے یہ رویہ بھی دیکھا کہ لوگوں نے اس وبا اور مجبوری کو موقع پرستی بنا لیا اور اس کے بہانے بلا وجہ کی مہنگائی کر دی گئی۔

گویا ہر چیز کو "کرونا" میں تولا جانے لگا، چاہے اس کا تعلق کسی بھی طرح اس سے نہیں بھی بنتا تھا، مگر تاجران نے اسے اس سے ہی جوڑا اور خوب کمائی کی، پھر کیا تھا، کہاں کی آخرت، کہاں کی قبر، کہاں کی توبہ و استغفار، کہاں کی بھلائی، کہاں کا احساس۔ اب ڈیڑھ سال ہونے کو ہے کہ وہ مصنوعی مہنگائی جو کرونا کے بہانے سے کی گئی تھی، اس کا گراف واپس نہیں آیا، چونکہ کرونا ابھی تک براجمان ہے۔ اس دوران ماہ صیام بھی گزرا ہے، پوری مغربی دنیا میں ماہ صیام میں خصوصی اسٹالز لگتے ہیں، بڑے بڑے سٹورز پر رعایتی پیکیج متعارف ہوتے ہیں، مگر پاکستان واحد ملک ہے، جس میں اہل پاکستان نے ماہ صیام کو "جھیلنا" ہوتا ہے۔ جھوٹ، مہنگائی، مکاری، مصنوعی قلت اور لوٹ مار کو جبری طور پہ برداشت کرنا ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں لوٹ مار اور دھوکہ و فراڈ کرنے والے اس طبقہ کو قطعاً غرض نہیں کہ کرونا ہے یا رمضان جیسا مقدس مہینہ، انہیں بس یہ پتہ ہے کہ انہوں نے اس پیریڈ میں کتنا کمانے کا ٹارگٹ پورا کرنا ہے۔

خدا خوفی، قبر، عذاب و جزا، موت کا منظر، اس کیلئے بس کتابی باتیں رہ جاتی ہیں، عملی وہی ہوتا ہے، جو وہ کر رہا ہوتا ہے۔ لہذا ہم دیکھ رہے ہیں کہ کرونا کی وجہ سے ہمارے معاشرے پر کوئی خاص اچھے اثرات نہیں پڑے کہ معاشرے کو بدل کر رکھ دیا ہو، وہی بھانت بھانت کی بولیاں ہیں، جو آپ اور ہم روز رات کو نیوز چینلز پہ دیکھتے اور سنتے آرہے ہیں۔ سیاسی حوالے سے بھی گھٹیا الزامات، ایک دوسرے کو غدار اور ملک دشمن کہنے سے لیکر لوٹ مار اور ڈکیٹ و مافیاز قرار دینے جیسے الزامات کا شور شرابہ ہمارے ایوانوں سے لیکر میڈیا کے میدانوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ معاشرے اور سماج میں اس مہلک وبا کے اثرات کو دیکھیں تو لوگ بھی اسے بہت نارمل لے رہے ہیں۔ اس لئے کہ دل دہلا دینے والے کئی واقعات چند دنوں میں وقوع پذیر ہوئے ہیں، مگر کسی سیاستدان یا مذہبی جماعت نے اس پہ ایک بیان تک دینا مناسب نہیں سمجھا۔

ایک تو جڑانوالہ کے ایک نواحی گائوں میں ایک شخص نے باقاعدہ اپنی مسجد میں اعلان کیا کہ وہ جنت جا رہا ہے، جس نے جانا ہے، اس کے ساتھ ہو لے اور اس نے ایک اہل تشیع کی مسجد کے موذن اور نمازی کو عین تہجد کی نماز ادا کرتے بے دردی سے شہید کر دیا۔ کسی سیاسی جماعت کے کسی لیڈر کا کوئی بیان سامنے نہیں آیا، اس سے ایک رات قبل بہاولنگر میں ایسی ہی ایک واردات ایک اور شیعہ مسجد کے موذن کیساتھ ہوئی، دو دنوں میں تین نمازی مسجدوں میں شہید کر دیئے گئے۔ اسلام کے نام پر یہ کھلم کھلا دہشت گردی کے سانحات ہیں، جس سے ہماری حکمران اشرافیہ اور مقتدر قوتیں اپنی بے حسی و مجرمانہ غفلت کا شکار نظر آتی ہیں۔ کیا اسی ملک میں ایک عرصہ تک ہم ایسے ہی سانحات سے دوچار نہیں رہے کہ ان کو معمولی سمجھ کے نظر انداز کئے بیٹھے ہیں، کیا مذہب کے نام پر یہاں مساجد و عبادت گاہوں کو مقتل نہیں بنایا گیا، جن میں روزانہ خدائے واحد کی عبادت کرنے والوں کو انہی کے خون میں لت پت کیا جاتا تھا۔

اس کے ساتھ ہی ایک اور دل دہلا دینے والا واقعہ ملتان کے نواحی علاقے شجاع آباد میں رپورٹ ہوا ہے، ایک نئی نویلی دلہن کیساتھ ڈاکوئوں نے اجتماعی زیادتی کر ڈالی۔ تفصیلات کے مطابق ڈکیٹس گھر کی دیوار پھلانگ کے داخل ہوئے اور اہل خانہ کو یرغمال بنا لیا، لوٹ مار کے علاوہ نئی نویلی دلہن سے اجتماعی زیادتی بھی کی، جو میڈیکل رپورٹ سے ثابت بھی ہوگئی ہے۔ اب اگر ہم اس کیس کو دیکھیں تو کتنا بڑا ظلم ہے، ہمارے معاشرے اور سماج پر کلنک کا ٹیکہ ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ طرح طرح کی باتیں متاثرہ خاتون کے بارے سامنے آرہی ہیں اور خدا خوفی کا شائبہ تک نہیں لگ رہا۔ یہ ہماری اخلاقی گراوٹ کی انتہاء نہیں تو اور کیا ہے، ہم کس طرح کا سماج اپنی اگلی نسلوں کو دے کر جا رہے ہیں، اس کا احساس کسی کو ہے؟ ہرگز نہیں، کوئی ان ایشوز پہ احتجاج نہیں کرتا، کسی کو توفیق نہیں ہوتی کہ ایسے واقعات کے متاثرین کے گھروں میں جا کر ہمدردی کے بول ہی کہہ دیں۔

نہ سیاسی جماعتوں کے قائدین کو اور نہ ہی مذہب کے نام پر اقتدار کی منزل پانے کے خواہش مندوں کو جو خود کو انبیاء کا وارث بھی قرار دیتے ہیں اور ان کے بقول ان کا ہر عمل آئین، قانون اور اسلام و جمہوریت کے عین مطابق ہوتا ہے۔ اسی ملک میں کم سن بچوں اور بچیوں کیساتھ زیادتیوں کی سیریز نہیں چلی، کتنے ہی معصوم اور کم سن پھول کلیاں وحشی درندوں کی ہوس کا شکار ہو کر منوں مٹی تلے جا سوئیں اور ان کا خون ہم پہ قرض بن گیا۔ اسی ملک میں بھوک اور ننگ کے باعث کتنے والدین اپنے بچوں کو دریا برد کر دیتے ہیں، کئی ایک اپنی اولاد کو نئے کپڑے نہ دلوانے پر مایوس ہو کر خواب آور گولیاں کھلا کر موت کی وادی میں سلا دیتے ہیں، کیا ہم ایسے معاشرے اور سماج میں اپنی اگلی نسلوں کو چھوڑ کر جا رہے ہیں اور اپنے کردار سے مطمئن بھی ہیں۔

ملتان میں ہی ایک باپ نے غربت سے تنگ آکر زہریلی دوائی پلا کر اپنے تین لخت جگر موت کی وادی میں سلا دیئے، پہلے تو اس نے ایک ہومیو ڈاکٹر کی دوائی کا اثر بتایا، بعد ازاں جب پوسٹ مارٹم رپورٹ اور پولیس کی تفتیش آگے بڑھی تو باپ نے خود بھی وہی دوا پی لی اور جاں بحق ہوگیا۔ باپ کی موت کے بعد راز کھلا کہ زہریلی دوا پلائی گئی تھی، یوں ایک ہی گھر میں تین بچے اور ان کا باپ موت کی وادی میں چلے گئے اور وجہ غربت کے باعث ہونے والے لڑائی جھگڑے تھے، کسی بھی فلاحی ریاست میں ایسا ممکن ہے۔؟ ہرگز نہیں، کیا ریاست مدینہ کا فلاحی ماڈل یہی ہے۔؟ معاشرہ سازی سے انقلاب لانے کی خواہش رکھنے والی جماعتیں تو ایسے ایشوز پر اپنا ردعمل تو دیا کریں، سماج کے ان دکھتے مسائل پر فلاح کے نعرے لگانے والی انجمنیں اور این جی اوز آخر کیوں سامنے نہیں آتیں، اس درد کو محسوس کئے بنا ہم اپنے معاشرے کو کبھی بھی سلجھا نہیں سکتے، ہمیں لمبے لمبے اور بڑے بڑے نعرے اور دعووں سے جان چھڑا لینی چاہیئے اور معاشرہ سازی کیلئے بنیادی سطح سے کام کا آغاز کرنا چاہیئے۔
خبر کا کوڈ : 935240
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش