0
Saturday 31 Jul 2021 13:30

برسی کا اجتماع اور زندہ قوم

برسی کا اجتماع اور زندہ قوم
تحریر: ارشاد حسین ناصر
irshadhansir@gmail.com

زندہ قومیں اپنے مشاہیر، اپنے محسنین، اپنے رہنمایان، اپنے بزرگان کی خدمات، کارہائے نمایاں، اچیومنٹس اور احسانات کو یاد رکھتے ہوئے ان کے نام و شخصیت کو زندہ رکھتی ہیں۔ اس مقصد کیلئے ایک طرف ان کے نام سے ادارے بنائے جاتے ہیں، ان کے نام سے اسکالر شپس جاری ہوتے ہیں۔ کالجز، یونیورسٹیز، مدارس ان کے ناموں سے قائم کئے جاتے ہیں، جو ان کو خراج تحسین پیش کرنا ہی ہوتا ہے۔ دوسری جانب ان کے ایام ہائے ولادت و شہادت کو تزک و احتشام سے منایا ہے، ان ایام میں ان کے حوالے سے سیمینارز، کانفرنسز، تعزیتی ریفرنسز منعقد کئے جاتے ہیں، جن میں ان کے کارنامے بیان کئے جاتے ہیں۔ ان کی حکمت عملی و تدبیر، ان کی پالیسیز، ان کی فکر و دانش، ان کے خیالات، ان کی جدوجہد و تحرک اور مقصد کے حصول کیلئے ان کی قربانیوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ اس طرح یہ شخصیت تاریخ میں زندہ رہتی ہے، ان کے افکار زندہ رہتے ہیں، ان کا کردار زندہ رہتا ہے، ان کی جدوجہد زندہ رہتی ہے اور اگلی نسل تک وہ مقصد اور پیغام پہنچتا رہتا ہے۔

اس سے مزید آگے بڑھیں تو شخصیت کے افکار، کردار اور جدوجہد کی روشنی میں ان کے مسائل کے حل کیلئے اور پیغام کو عملی کرنے کیلئے اقدامات اور ان مقاصد کے حصول کیلئے جدوجہد جاری رکھنا بھی ایک اہم کام ہوتا ہے بلکہ یہی وہ اصل کام ہوتا ہے جسے انجام پانا چاہیئے۔ شخصیت اگر گزر بھی گئی ہے تو اس کا مقصد و ہدف تو سامنے ہے، اس کے حصول کیلئے عملی جدوجہد ہی اس شخصیت کو زندہ رکھنا ہے۔ کئی دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ افکار تو سامنے ہیں، جو بیان بھی ہوتے ہیں، لوگ ان سے آگاہ بھی ہیں، مگر شخصیت کا مقصد تو عملی اقدامات سے حاصل ہونا ہوتا ہے، جس کیلئے عملی جدوجہد کرنے والے لوگوں کا میدان میں ہونا ضروری ہوتا ہے، جو سیمیناروں میں تقاریر، کانفرنسز میں جوشیلے خطابات، مزاروں پہ جا کر گریہ و ماتم کرنے اور آج کل واٹس ایپ گروپس میں طولانی بحث و تکرار، تبصروں اور من مانی تفاسیر بیان کرنے سے بالکل الگ ہوتے ہیں۔

یہ باتیں میں اس وقت لکھ رہا ہوں، جب آج ایک عظیم عالم دین آغا سید علی الموسوی کی برسی کا دن ہے اور دوسری جانب اگلے دن شہید قائد علامہ سید عارف حسین الحسینی کی 33ویں برسی کا مرکزی پروگرام "قرآن و اہلبیت کانفرنس" کے عنوان سے راولپنڈی کے معروف لیاقت باغ میں منعقد ہونے جا رہا ہے۔ آغا سید علی الموسوی کی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، ان کا قومی کردار اور پاکستان بھر میں بالعموم جبکہ لاہور و بلتستان میں بالخصوص ان کی تاریخی خدمات ہیں، جنہیں یاد رکھا جانا بے حد ضروری ہے۔ مجھے تو علم نہیں کہ ان کی شخصیت کے نام سے کوئی ادارہ تشکیل دیا گیا ہے یا نہیں، بہرحال ان کی یاد کو تازہ رکھنے کیلئے ان کے ورثاء میں سے اور ان سے فیض یاب ہونے والے مل کر سامنے لائیں تو بہت اچھا اور قابل تحسین اقدام ہوگا کہ زندہ قومیں اپنے مشاہیر اور محسنین کو ایسے بھی زندہ رکھتی ہیں۔ (آغا علی الموسوی کے حوالے سے بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے، ماضی میں اس پہ لکھا بھی ہے، جو اسلام ٹائمز سمیت کئی جگہوں پہ شائع بھی ہوا ہے)

اب آتے ہیں شہید قائد کی برسی کے اجتماع کی جانب، جو اس بار اسلام آباد سے نکل کر راولپنڈی کے تاریخی لیاقت باغ میں منعقد ہونے جا رہا ہے۔ اس لیاقت باغ کی کہانی الگ سے ہے، جو اس وقت ہمارے پیش نظر نہیں۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ شہید قائد علامہ سید عارف حسین الحسینی (رہ) کی برسی کے ان اجتماعات کا سلسلہ 2008ء میں اس وقت شروع کیا گیا تھا، جب ہمارے پیارے پاکستان میں دہشت گردی کا راج تھا اور ملک کے کئی ایک شہر بدترین دہشت گردی کی لپیٹ میں تھے۔ بالخصوص مکتب تشیع سے تعلق رکھنے والے بے گناہ عوام کو بہت سی مشکلات اور مسائل نے گھیر رکھا تھا، ان میں سب سے زیادہ ڈیرہ اسماعیل خان، پاراچنار کرم ایجنسی، کوئٹہ، پشاور، کوہاٹ، ہنگو اور کراچی جیسے شہروں میں عالمی دہشت گردوں کے مقامی مہروں نے اندھیر مچا رکھی تھی۔ ان میں ڈیرہ اسماعیل خان جیسے شہر میں اہل تشیع کو اس قدر نشانہ بنایا جا رہا تھا کہ ان میں سے بہت سوں کو وہاں سے ہجرت کرنا پڑی تھی۔

روزانہ کسی نامور شخصیت کو نشانہ بنایا جاتا، کسی عام بندے، کسی ملنگ، کسی وکیل، کسی ڈاکٹر، کسی لائسنسدار، کسی عزادار کو دندناتے ہوئے دہشت گرد نشانہ بناتے اور انہیں کوئی بھی نہیں پوچھتا تھا۔ اسی طرح کراچی میں بھی ٹارگٹ کلنگ اپنے عروج پر تھی، جہاں نامور شیعہ ڈاکٹرز، وکلاء، شاعر، علماء اور عزدار کھلے عام نشانہ بنائے جا رہے تھے اور ان سب سے بڑھ کر کرم ایجنسی پاراچنار پر دہشت گردوں کی یلغار تھی۔ کرم ایجنسی کا محاصرہ تھا، ان کیلئے پاکستان ک راستے تک بند تھے۔ انہیں پاکستان میں آنے کیلئے افغانستان کا راستہ اختیار کرنا پڑتا تھا، کرم ایجنسی پر حملوں میں نام نہاد طالبان نامی درندوں کیساتھ عالمی دہشت گرد گروہ القاعدہ اور مقامی نام نہاد جہادی گروہ شامل تھے، جن کا مقصد کرم ایجنسی کو فتح کرکے اہل تشیع کا قتل عام کرنا تھا، ان کی عزتیں تار تار کرنا تھا، ان کے اموال کو لوٹنا تھا اور اس شیعہ نشین علاقے پر مستقل طور پہ اپنی فتح کا جھنڈا لہرانا تھا(یہ انکا بہت پرانا خواب ہے)۔

مگر کرم ایجنسی کے غیرت مند جوانوں اور بزرگوں نے اس عالمی دہشت گرد گروہ کے ناپاک منصوبوں کے سامنے پل باندھا اور انہیں اپنے علاقوں کی ایک انچ زمین پر بھی قبضہ نہیں کرنے دیا(کرم ایجنسی پر طالبان کی یلغار اور جنگیں۔ نتائج، یہ ایک طویل موضوع ہے، یہاں ہمارا مقصد ان حساس حالات کی نشاندہی کرنا ہے، جو ملک کے مختلف اطراف میں ان دنوں سامنے تھے) ایسے حالات میں جب پاکستان سمیت دنیا بھر کے اہل تشیع میں شدید مایوسی کی لہر جنم لے رہی تھی، ہر سو کچھ ہونا چاہیئے، کچھ کرنا ہوگا، کچھ ہو جائے، کی صدائیں سنائی دیتی تھیں۔ کچھ مردان خدا نے کچھ کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ یقیناً اگر ایسے حالات شہید قائد کو اپنی زندگی میں در پیش ہوتے تو وہ بھی کچھ کرنے کیلئے میدان میں اترتے۔ ایسا ہوا بھی کہ وہ مرد میدان تھے، سب سے اہم کام پوری دنیا کے اہل تشیع جو پاکستان سے ہمدردی، ربط و تعلق رکھتی تھی، ان میں پھیلی مایوسی کی گہری گھٹائوں کو امید میں تبدیل کرنے کی ضرورت تھی، تاکہ مظلومین و متاثرین کیلئے کچھ کرنے کیلئے آگے بڑھا جا سکے۔

اس حوالے سے اگرچہ لاہور، اسلام آباد، کراچی سمیت کئی ایک شہروں میں احتجاج بھی ہوا، جس کے ذریعے حکومتی اداروں اور موثر حلقوں کو ان حالات کی نشاندہی کی گئی، جن کا نقشہ کھینچا جا رہا تھا۔ جو پاکستان کے وجود کیلئے انتہائی خطرناک ثابت ہوتا، ملک کے اہم شہروں میں ہونے والے مظاہروں کیساتھ دنیا بھر میں پھیلے مکتب کے پیروان نے بھی اس حساس موقعہ پہ اپنے جذبات و احساسات کا اظہار کیا، ان احتجاجات کے بعد ملت میں حوصلہ بڑھا اور قائدین کو بھی اس کا احساس ہوا کہ قوم میں ان مسائل پہ یکجہتی ہے، قوم مظلومین کیلئے باہر نکلنا چاہتی ہے تو شہید قائد کی برسی کے اجتماع کا فیصلہ ہوا، اس فیصلہ سے دو جانبہ فوائد حاصل ہونا تھے، ایک تو شہید قائد کی شخصیت کا حق ادا ہونا تھا کہ ان کی برسی کافی عرصہ سے شایان شان طریقہ سے نہیں منائی جا رہی تھی، علاقائی سطوح پر تو تنظیمی احباب پروگرام منعقد کرتے تھے، مگر مرکزی سطح پہ کوئی اجتماع نہیں ہوتا تھا۔

یوں یہ کمی پوری ہوئی، جبکہ دوسرا اس مقصد کا حصول تھا، جو شہید قائد کا مقصد تھا کہ قوم و ملت کے مسائل کو حل کرنے کیلئے عملی اقدامات اٹھائے جائیں، عوام کے درد کو سامنے لایا جائے اور اس کو ختم کرنے کی تدبیر کی جائے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں ہر چیز ریموٹ کنٹرول ہوتی ہے، تک ایک بڑے اجتماع کے ذریعے اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے اصل حکمرانوں کو متنبہ کرنا بہت ہی ضروری سمجھا جاتا ہے۔ اس وقت جب 2008ء میں شہید قائد علامہ سید عارف حسین الحسینی (رہ) کی برسی کے اجتماع کا فیصلہ دارالخلافہ اسلام آباد میں ہوا تو ملکی حالات انتہائی گھمبیر تھے، دہشت گردی اپنے عروج پر تھی، روایتی فائرنگ کے سانحات، بم دھماکوں سے کہیں آگے بڑھ کر خودکش دھماکوں کا دور دورہ تھا۔ ایسے میں عوام کی اس مرکزی پروگرام میں شرکت کیلئے علماء کرام، تنظیمی عہدیداران نے بھرپور دورہ جات کئے اور عوام کو تیار کیا۔ عوام پہلے ہی ایسے عوامی اجتماع کیلئے تیار تھے۔

پھر دنیا نے دیکھا کہ بم دھماکوں، دہشت گردانہ حملوں کے خطرات اور جان ہتھیلی پر رکھے عشاق کربلا جو شہادت کو سعادت سمجھتے ہیں، گھروں سے نکل کر زندہ ہے حسینی زندہ ہے، شہادت شہادت، سعادت سعادت کے شعار بلند کرتے اسلام آباد پہنچے اور جی سکس میں مرکزی امام بارگاہ کے سامنے اپنے مطالبات، اپنے حالات لیکر جمع ہوگئے۔ اس اجتماع میں مجھے یاد ہے کہ پاراچنار جو محاصرہ میں گھرا ہوا تھا، سے ایک وفد فرزند شہید، علامہ سید علی الحسینی کی قیادت میں بذریعہ افغانستان شریک ہوا تھا اور اپنا درد بیان کیا تھا۔ بلا شبہ شہید قائد کی شخصیت، ان کی برسی کی نسبت اور ان کا نام ہماری ملی و قومی تاریخ کا ایک ایسا استعارہ ہے، جو ہمیں تحرک، میدان عمل میں اترنے، مظلوم ملت کے مسائل کے حل کیلئے یکجہتی اور قوت کے اظہار کی دعوت دیتا ہے، جو احباب ان اجتماعات میں شریک رہے ہیں، وہ اس کے گواہ ہیں کہ انہوں نے ان اجتماعات میں شہید قائد کے فرزندان کو شہید کی یاد میں تڑپتے دیکھا ہے اور ملت کے سلگتے مسائل کیلئے میدان میں اتر کر آگے بڑھنے کے جذبوں سے سرشار پایا ہے۔
خبر کا کوڈ : 946065
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش