1
0
Wednesday 11 Aug 2021 23:08

گمنام سپاہی کی قبر

گمنام سپاہی کی قبر
تحریر: سویرا بتول

شام کا سناٹا ہر سوں پھیل رہا ہے، شب کی گھڑیاں اپنی تمام تر وحشت سمیٹے گزرتی جا رہی ہیں۔ ایسے میں ایک گمنام قبر کے پاس سے کسی کی سسکیوں کی بلند صدا سنائی دیتی ہے۔ اچانک شانے پہ کوئی ہاتھ رکھتا ہے اور اس بے قراری اور اضطراب کی وجہ دریافت کرتا ہے۔۔ جواب دینے والا آگے سے سر جھکا کر دامن جھاڑ کر واپس پلٹنا چاہتا ہے مگر پیچھے سے صدا آتی ہے
رکو!! 
تم جانتے ہو یہ کس کی قبر ہے؟ اور یہ مسلسل آنسو و گریہ کس کی مظلومیت پہ رواں ہیں؟ وہ چاہتا ہے کہ اِن سوالوں کا جواب دیئے بنا پلٹ جائے، آخر کیا ملے گا اس سب کا جواب دیکر؟ 
بہتر ہے وہ خود بھی اپنے لب سی لے، جیسے سب نے سی لیے ہیں۔ آخر مصلحت کا یہی تقاضہ ہے،
جیسے سب نے اُسے بھلا دیا، وہ بھی اب اِن زخموں کو نہ کریدے۔ جس پر اِس خوف سے قلم نہ اٹھایا گیا کہ کہیں اُس کی اپنی ذات مشکل میں نہ پڑ جائے، بہتر ہے کہ وہ بھی مصلحت کی سیاہ پوشاک اوڑھ لے،
یہ سب سوچ کر وہ پلٹنا چاہتا تھا۔۔۔
مگر سوال کرنے والے کی آواز میں ایسا کرب تھا کہ وہ کوشش کے باوجود بھی سر جھٹک کر واپس نہ جا سکا۔۔۔

سنو گے اِس گمنام قبر کی داستان؟
سنو گے اِس قبر کا گمنام کتبہ تم سے کیا کہ رہا ہے؟
اُس نے آہستگی سے کہا
ہاں ضرور! جواباً کہا گیا
نہیں! تم کیا کرو گے سن کر۔۔
ہم نے آج تک کیا کیا؟
تم بھی کیا کروگے جان کر۔۔
ہم نے کونسا اِس ہستی کے افکار کو عام کیا؟
 ہم نے کونسا اِس کردار کو اپنایا؟؟
یہ گمنام کتبہ آج بھی ہماری بے حسی پہ نالاں ہے
میں جاننا چاہتا ہوں: جوابا سر جھکا کر کہا گیا۔۔

اچھا سنو!!!
یہ قبر اپنے پیاروں کی آمد کی منتظر ہے۔ کوئی آئے اور اس پر پھولوں کی چادر ڈالے۔۔ کوئی آئے اور اِس کی تنہائی اور مظلومیت پر آہ و بکا کرے۔۔۔ کوئی تو ہو جو اس جری کی شجاعت کے قصیدے زبانِ زدِ عام کرے۔۔ یہ ایسے عاشقِ خدا کی قبر ہے، جو قول و فعل دونوں لحاظ سے اپنے وقت کے حسین کا حقیقی عاشق تھا، جو مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے یزیدِ وقت کے سامنے ڈٹ گیا۔۔
ہاں *یہ محرم علی کی قبر ہے*
وہ جو حقیقی عاشق امام زماں تھا
جو اپنے ہدف سے واقف تھا
جو جانتا تھا کہ جس راہ کا انتخاب کیا، وہاں شہادت حتمی ہے،
وہ شیر دل آیا اور تمام وعدے تنہا وفا کر گیا
اور ہم احسان فراموش آج تک مصلحت کی سیاہ قبا اوڑھے ہیں۔۔۔
 سنو!!
یہ کتبہ تم سے کچھ کہ رہا ہے

سپاہی! آج بھی کوئی نہیں آیا
کسی نے پھول ہی بھیجے
نہ بستی کے گھروں سے آشنا گیتوں کی آوازیں سنائی دیں
نہ پرچم کوئی لہرایا
سپاہی! شام ہونے آئی اور کوئی نہیں آیا
فَنا کی خندقوں کو جان دے کر پار کر جانا بڑی بات
جہاں جینے کی خاطر مر رہے ہوں لوگ،
اُس بستی میں مر جانا بڑی بات
مگر پَل بھر کو یہ سوچا تو ہوتا
تمہارے بعد گھر کی منتظر دہلیز کو جاگے ہوئے دل کی نشانی کون دے گا،
اب ہواؤں سے اُلجھتی، روشنی کو اعتبارِ کامرانی کون دے گا؟
درودیوار سے لپٹی ہوئی بیلوں کو پانی کون دے گا؟
آج بھی کوئی نہیں آیا؟؟
خبر کا کوڈ : 948097
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
بہت عمدہ اظہار
ایک تذکر
ایک شکوہ
ایک پکار
ایک طمانچہ مصلحت پسندوں کے لئے
ایک دکھ بھرا گلہ قریبی دوستوں کے لئے
ایک لمحہ فکریہ قائدین کے لئے
خدا ایسی بیٹیوں کو سلامت رکھے جو قوم کے مجاہدین کو یاد کرکے سنت زینبی ادا کر رہی ہیں۔
ہماری پیشکش