0
Saturday 14 Aug 2021 10:28

افغانستان کے بدلتے حالات اور خطے کے ممالک

افغانستان کے بدلتے حالات اور خطے کے ممالک
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

افغانستان کے حالات بڑے ڈرامائی انداز میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ کوئی تجزیہ نگار بلکہ خود طالبان بھی یہ نہیں سوچ سکتے تھے کہ انہیں اس قدر جلد اتنے صوبوں کی حکمرانی مل جائے گی۔ ابھی تک کی خبروں کے مطابق تقریباً نصف کے قریب صوبائی دارالحکومتوں پر طالبان کا جھنڈا لہرا رہا ہے۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ طالبان کے روایتی مراکز قندھار اور اس کے اردگرد کے پختون صوبے ہیں، مگر اس بار طالبان نے تاجک بارڈر، ایران بارڈر اور شمال میں موجود صوبوں پر پہلے قبضہ کیا۔ اس میں حیران کن پہلو یہ بھی ہے کہ ابھی قبضہ کیے گئے صوبوں میں بعض ایسے علاقے بھی ہیں، جن پر طالبان اس وقت بھی قبضہ نہیں کرسکے تھے، جب ان کا پچانویں فیصد افغانستان پر قبضہ تھا۔

اب یہ بات راز نہیں رہی کہ اگلے کچھ عرصے میں طالبان کابل پر قبضہ کر لیں گے۔ امریکی اور یورپی ممالک جس تیزی سے پچھلے کچھ عرصے میں افغانستان میں موجود اپنے ایجنٹس کو ویزے دے رہے تھے، اس سے اندازہ ہو رہا تھا کہ اب کابل کے جانے کی تیاری زور و شور سے جاری ہے۔ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ امریکی طالبان سے اپنے سفارتخانے کی حفاظت کی ضمانت طلب کر رہے تھے، اب تین ہزار فوجی سفارتی عملے کے انخلا کے لیے بھیجے ہیں۔ یہاں ایک انتہائی اہم خبر سامنے آئی ہے کہ اے ایف پی کے مطابق کابل میں امریکی سفارتخانے کے عملے سے کہا گیا ہے کہ حساس مواد کو جلایا یا شریڈ کر دیا جائے، تاکہ اسے پروپیگنڈا کے طور پر استعمال نہ کیا جاسکے۔ یہ بالکل ویسی ہی صورتحال ہے جیسی امریکہ کو تہران کے اپنے سفارتخانے کم اور جاسوسی کے اڈے زیادہ میں پیش آئی تھی۔ ایران کے طلاب نے ان امریکی دستاویزات کو جوڑ کر ایران میں بھیانک امریکی کردار کو بے نقاب کر دیا تھا۔ پوری دنیا میں امریکہ کی سبکی ہوئی تھی، اب امریکہ یہ نہیں چاہتا کہ افغانستان میں بیٹھ کر وہ جو گل کھلاتے رہے ہیں، اس کا علم مہذب دنیا کو ہو۔ اس لیے جلد از جلد ان دستاویزات کو تلف کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی سپین سمیت کئی ممالک نے کابل سے اپنا سفارتی عملہ نکالنا شروع کر دیا ہے۔

اتنی جلدی افغان صوبوں پر قبضے نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے اور کچھ مشکوک  واقعات ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک افغان فوجی کی ویڈیو گردش کر رہی ہے، جس میں وہ بتا رہا ہے کہ ہم دس ہزار کی تعداد میں ہرات چھاونی میں موجود ہیں اور ہمیں کہا جا رہا ہے کہ ہم  ہتھیار ڈال دیں۔ اکثر بڑے شہروں میں یا تو معمولی مزاحمت ہوئی ہے یا پھر مزاحمت کے بغیر ہی جان بخشی پر ہی علاقے طالبان کے حوالے کر دیئے گئے ہیں۔ یہ سب اشارہ کرتا ہے کہ افغان ریاست کے اندر سے لوگ طالبان کو سپورٹ کر رہے ہیں، جن کے مفادات طالبان سے وابستہ ہیں یا انہیں یہ لگتا ہے کہ آج نہیں توکل طالبان کی حکومت آجانی ہے، لہذا ابھی سے طالبان سے سودا کر لیا جائے تو یہ بروقت اور اچھی قیمت پر ہوگا۔ آج نہیں کریں گے تو کل طالبان احتساب کرسکتے ہیں۔

طالبان نے اس بار بڑی چالاکی سے کام لیا ہے، ہرات میں انہیں سب سے زیادہ مزاحمت کمانڈر اسماعیل خان کی طرف سے ہوئی تھی، جب طالبان نے ہرات پر قبضہ کر لیا تو اسماعیل خان گرفتار ہوگیا۔ انہوں نے اسے عزت دی اور آزاد کر دیا۔ اس طرح کے رویئے سے طالبان افغان ریاست کی اس پالیسی کو  توڑ رہے ہیں، جس میں وہ مقامی سابق وار لارڈز کو اسلحہ اور بھرتی کے اختیارات دے رہی ہے۔ یہ افغان حکومت کے خلاف ہی جائے گا، کیونکہ جب ہوا چل رہی ہے تو لوگ اسلحہ اور تربیت لے کر طالبان کے ساتھ شریک ہو جائیں گے۔ تجزیہ کار کابل پہنچنے تک تین ماہ کا وقت کہہ رہے تھے، جس طرح طالبان نے کابل کے بڑے راستوں کو قبضے میں لے لیا اور کابل پر مہاجرین کا بے پناہ بوجھ بڑھ گیا، اس سے لگتا ہے کہ چند ہفتوں میں کابل پکے پھل کی طرح طالبان کی گود میں گرے گا۔

اس پوری صورتحال میں امریکی انخلاء اور اس کے بعد کے بیانات امریکی کردار کو مشکوک کر رہے ہیں ۔یا تو ایسا ہے کہ امریکہ اب خطے کی لوٹ کھسوٹ کرچکا ہے، موجود رہ کر لوٹنے میں خسارہ تھا، اس لیے چلا گیا۔ امریکی بمباری طالبان کا راستہ نہیں روک رہی یا بمباری طالبان کو روکنے کے لیے کی ہی نہیں جا رہی، بس دنیا کی آنکھوں میں دھول جھوکنے کے لیے کی جا رہی ہے۔ جب طالبان پر پہلی بار حملہ کیا گیا تھا اور وہ بڑی طاقت تھے، اس وقت نہیں ٹک سے اور اب امریکی فورسز کو آگے لگایا ہوا ہے۔ امریکہ نے بڑی تعداد میں اپنے شہریوں کا انخلاء کیا، اسی طرح اپنے ساتھ کام کرنے والوں کے خاندان تک کو امریکہ لے گیا، اس سے کابل کی اشرافیہ میں یہ بات پختہ ہوگئی کہ اندرون خانہ طالبان اور امریکہ کی کوئی خفیہ ڈیل ہوگئی ہے، جس کے تحت اب طالبان کابل میں ضرور داخل ہوں گے۔

جہاں تک پڑوسی ممالک کی بات ہے تو ایک خدشہ یہ سامنے آرہا ہے کہ امریکہ ایران کا افغانستان کے ساتھ بارڈر ناامن کرنا چاہتا ہے۔ اب ایران کو اس بارڈر پر باقاعدہ فورس لگانی پڑے گی، جس سے ایران کی طاقت بٹے گی۔ طالبان اور ایران میں نظریاتی اختلاف اپنی جگہ موجود ہے اور بالخصوص ہرات کی جامع مسجد میں کل جو خطبہ جمعہ دیا گیا ہے، اس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ اس ملک کا نظام حنفی فقہ کے مطابق چلایا جائے گا۔ یعنی فقہ جعفری اور دیگر فقہوں  کے پیروکار بھی اسی کے مطابق اپنے فیصلے کرائیں گے۔ اسی طرح طالبان کا ہزارہ کے ساتھ رویہ بھی بدل سکتا ہے۔ اس سے ایران طالبان کشیدگی پیدا ہوسکتی ہے اور امریکی سازش اسی طرح کی ہوگی، تاکہ دو مسلمان قوتیں آپس میں لڑتی رہیں اور امریکہ فقط تماشہ دیکھے۔

فعل الحال پاکستان کی نظر سے سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے، کابل پر پچھلے بیس سال سے قائم پاکستان مخالف حکومت پاکستان کو قبول نہیں تھی۔ طالبان کے آنے سے پاکستان کے اندر تو کافی مسائل ہوں گے، لیکن افغانستان اور پاکستان کی حد تک پاکستان کا ایک بڑا درد سر ختم ہو جائے گا۔ اس تمام صورتحال میں انڈیا کا کافی نقصان ہوا ہے۔ اس کی اربوں ڈالر کی انویسٹمنٹ غارت ہوگئی ہے اور وہ جو خود سے یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ ہم نے پاکستان کا گھراو کر لیا ہے، اب ان کا یہ گھراو ریت کی دیوار ثابت ہوا ہے۔ چین کو سنکیانگ کے حوالے سے پریشانی ہے، اس لیے انہوں نے اپنی تیاریاں مکمل کر لی ہیں اور طالبان نے بھی چینی قیادت کو یہ یقین دلایا ہے کہ ہماری سرزمین آپ کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔
خبر کا کوڈ : 948565
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش