0
Sunday 15 Aug 2021 11:11

ترکی، افغانستان میں امریکی مفادات کا محافظ؟

ترکی، افغانستان میں امریکی مفادات کا محافظ؟
تحریر: تصور حسین شہزاد

افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد صورتحال میں تیزی سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ طالبان آئے روز علاقے پر علاقہ فتح کر رہے ہیں اور تا دمِ تحریر طالبان کابل سے زیادہ دور نہیں تھے۔ افغان صدر اشرف غنی کی کابینہ بھی تتر بتر ہوچکی ہے۔ کئی وزراء راہ فرار اختیار کرچکے ہیں جبکہ آرمی کے اعلیٰ افسران کے بارے میں بھی ایسی ہی اطلاعات ہیں۔ ساتھ ساتھ اشرف غنی کی جانب سے پراپیگنڈہ بھی کیا جا رہا ہے کہ طالبان ظالمان ہیں، یہ جن علاقوں کو فتح کر رہے ہیں، وہاں وہی پرانی روش کے تحت مخالفین کا قتل عام کر رہے ہیں، جبکہ طالبان کی جانب سے ملا ہیبت اللہ نے اعلان کیا تھا کہ جس علاقے کو طالبان فتح کر رہے ہیں، اگر وہاں طالبان کے مخالفین ہتھیار ڈال دیتے ہیں تو ان کیلئے عام معافی کا اعلان کرتے ہیں۔ بہت سے علاقوں میں ایسا ہوا بھی ہے جبکہ ایک آدھ ضلع میں طالبان نے اپنے مخالفین کو قتل بھی کیا ہے۔

مفتوحہ علاقوں میں لوگ خود سے خوفزدہ ہیں کہ یہ وہی طالبان ہیں، جنہوں ںے پہلی بار اقتدار میں آتے ہی عورتوں کا باہر نکلنا بند کر دیا تھا، موسیقی حرام قرار دیدی تھی، داڑھی منڈوانے والوں کو سزائیں دی جاتی تھیں، وغیرہ وغیرہ جبکہ جن اضلاع کو طالبان نے فتح کیا ہے، وہاں انہوں نے داڑھی منڈوانے والوں کو کچھ نہیں کہا، لڑکیوں کے تعلیمی ادارے بھی کھلے ہیں، ہاں البتہ یہ شرط ضرور لگائی گئی ہے کہ طالبات شرعی لباس میں کالج یا یونیورسٹی آسکتی ہیں۔ طالبان کے علاقوں میں خواتین نے اپنے طور پر باہر نکلنا چھوڑ دیا ہے، جبکہ طالبان کی طرف سے ایسی کوئی پابندی نہیں لگائی گئی۔ اب بھی بڑی عمر کی خواتین برقعہ میں بازاروں میں دکھائی دے رہی ہیں، جبکہ ٹی وی اور ریڈیو پر موسیقی اور ڈرامے فی الحال بند کر دیئے گئے ہیں اور یہ فیصلہ طالبان کا نہیں بلکہ خود ٹی وی اور ریڈیو انتظامیہ کا ہے۔ اس حوالے سے طالبان کی پالیسی کو دیکھا جا رہا ہے۔

دوسری جانب ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے جون میں نیٹو سربراہی اجلاس میں امریکی صدر جو بائیڈن سے اپنی پہلی ملاقات کی تھی، اس میں افغانستان کے حوالے سے ہی تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔ اطلاعات یہ ہیں کہ وہاں جو بائیڈن نے ترک صدر کو دو نقاطی ایجنڈا دیا تھا، ایک پوائنٹ یہ کہ مغربی اتحادیوں کیساتھ کابل میں رابطے بڑھائے جائیں اور دوسرا یہ کہ کابل میں آمدورفت کیلئے ذرائع بحال رکھنا۔ یعنی کابل ایئر پورٹ کو فعال رکھنے کی ہدف دیا گیا تھا، ایئرپورٹ فعال رکھنے کے پیچھے منطق یہ ہے کہ بچے کھچے امریکیوں کو فرار میں آسانی ہو۔ ترک حکام اس حوالے سے کہتے ہیں کہ وہ افغانستان میں قیام امن کیلئے ایسا کر رہے ہیں۔ ترک حکام کے مطابق وہ چاہتے ہیں کہ کابل میں خون خرابہ نہ ہو، بلکہ پُرامن طریقے سے ہی معاملات سلجھا لئے جائیں۔ ترکوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کابل کا رابطہ دنیا سے کٹے نہ، یہ الگ تھلگ نہ ہو جائیں۔

اس حوالے سے بدھ کے روز ترک وزیر دفاع نے پاکستانی وزیراعظم عمران خان سے بھی ملاقات کی ہے۔ اس میں عمران خان نے کہا تھا کہ وہ طالبان سے بات کر رہے ہیں کہ ترکی کے ساتھ طالبان براہ راست گفتگو کر لیں۔ اس میں پاکستان غیر جانبدار رہنا پسند کر رہا ہے، پاکستان کی کوشش ہے کہ ترکی اور طالبان خود اپنے معاملات طے کر لیں۔ عمران خان نے اس ملاقات میں یہ بھی کہا تھا کہ اشرف غنی سمجھتا ہے کہ طالبان کی ڈوری ہمارے (پاکستان) ہاتھ میں ہے جبکہ ایسا نہیں، طالبان خود سوچتے ہیں اور اپنی سوچ کے مطابق ہی عمل کرتے ہیں۔ عمران خان نے کہا کہ ہمارے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہیں کہ ہم طالبان کو لگائیں اور وہ چابی والے کھلونے کی طرح ہماری خواہش کے مطابق چلنا شروع کر دیں۔ اب طالبان سے بات کرنا مشکل ہے، طالبان یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے سپر پاور (امریکہ) کو شکست دیدی ہے۔ یعنی طالبان خود کو ایک بڑی قوت سمجھ رہے ہیں جب ایسی سوچ ہو تو وہ کسی کی بات کو اہمیت نہیں دیتے۔

طاقت کا زعم ہی انسان کو سخت گیر بنا دیتا ہے۔ اس وقت طالبان کی کیفیت بھی اس سے ملتی چلتی ہے۔ اس لئے پاکستان براہ راست طالبان کے معاملات میں مداخلت نہیں کر رہا۔ ترکی کی خواہش پر بھی پاکستان خود میدان میں نہیں اترا بلکہ طالبان اور ترکی کو ایک میز پر لانے کیلئے کوشش کر رہا ہے۔ عمران خان نے ترک وزیر دفاع کو افغانستان میں چین کے کردار اور اہمیت سے بھی آگاہ کیا۔ عمران خان نے کہا کہ چین ایک اُبھرتی ہوئی قوت ہے اور اس کا افغانستان میں موثر کردار ہے۔ ادھر طالبان نے پاکستان کی کوششوں کے باوجود ترکی کو کابل ایئرپورٹ کا کنٹرول دینے سے صاف انکار کر دیا ہے۔ طالبان نے کہا ہے کہ اگر ترکی ایسی کوئی کوشش کرتا ہے تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ طالبان کے ترجمان ذبیع اللہ کے مطابق یہ ہماری خود مختاری اور علاقائی سالمیت کیخلاف ہے۔ طالبان کے اس ردعمل پر ترک صدر کو اسلام یاد آگیا اور استنبول میں میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ’’انہیں افسوس ہے کہ طالبان کا رویہ بہت غصیلا ہے‘‘ اردگان نے کہا کہ طالبان کا رویہ ایسا نہیں جیسا ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کیساتھ ہونا چاہیئے۔

شائد رجب طیب اردگان بُھول گئے کہ وہ جو بائیڈن کی زبان بول رہے ہیں اور ایک مسلمان ملک نہیں بلکہ امریکہ کے دفاع کیلئے طالبان سے بات کر رہے ہیں، طالبان اب سمجھدار ہوگئے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ مسلمان ترک صدر کے منہ میں زبان امریکی صدر جو بائیڈن کی ہے اور طالبان نے جو اردگان کو جواب دیا ہے، وہ اردگان کو نہیں بلکہ امریکی صدر کو دیا گیا ہے۔ طیب ارگان بتانا پسند کریں گے کہ جب امریکہ افغانستان پر چڑھائی کر رہا تھا، تورا بورا سمیت پورے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی تھی، حتیٰ امریکہ نے ’’مدر آف بم‘‘ کا تجربہ بھی افغانستان کی سرزمین پر کیا تھا، اس وقت طیب اردگان کی ’’مسلمانیت‘‘ کہاں چلی گئی تھی؟ تب تو اردگان کو یہ یاد نہیں آیا کہ ہمارے مسلمان بھائی امریکی مظالم کا نشانہ بن رہے ہیں، انہوں نے تو اس وقت ایک مذمتی بیان تک جاری نہیں کیا تھا اور اب خود کو خلافت عثمانیہ کا ٹھیکدار سمجھتے ہوئے دنیائے اسلام کی قیادت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ لینے کیلئے کوشاں ہیں۔

ادھر امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سالیوان نے اعتراف کیا ہے کہ نیٹو اجلاس کے دوران طیب اردگان اور جو بائیڈن میں ہونیوالی ملاقات میں یہی طے پایا تھا کہ افغانستان سے مکمل امریکی انخلاء کے بعد ترکی کابل آئے گا اور ایئرپورٹ کا کنٹرول سنبھالے گا۔ دوسرے لفظوں میں یہ واضح ہوگیا ہے کہ ترک صدر رجب طیب اردگان افغانستان میں امریکہ مفادات کی حفاظت کی ڈیوٹی پر مامور ہیں۔ اس ’’ڈیوٹی‘‘ کے دوران اگر ترک فوجیوں کو کوئی نقصان پہنچتا ہے تو یہ امریکی مفادات کیلئے ہوگا۔ ترک صدر کو سوچنا چاہیئے کہ امریکہ کیلئے اپنے فوجی مروانے کا اقدام کسی طور بھی درست فیصلہ نہیں۔
خبر کا کوڈ : 948687
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش