0
Wednesday 8 Sep 2021 14:12

افغانستان میں طالبان کی حکومت اور امکانات

افغانستان میں طالبان کی حکومت اور امکانات
تحریر: ارشاد حسین ناصر

تکفیری عناصر کی تمام تر سازشوں کے باوجود محرم الحرام امن سے گزرا اور اب تک یہ امن برقرار ہے، بہاولنگر کے علاوہ کہیں کوئی بڑا واقعہ نہیں ہوا، ہاں فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ یہ فرقہ وارانہ کشیدگی بعض تکفیری عناصر کی طرف سے تخلیق کرنے کی کوشش ہے، جس میں اہلسنت کے بعض گروہوں کیساتھ کالعدم تکفیری گروہ، جس نے ماضی میں اس ملک کو خون آشامی کے سوا کچھ نہیں دیا ملوث ہے۔ اس کشیدگی کی ٹائمنگ بہت الارمنگ ہے، اس لئے کہ یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہو رہا ہے، جب ہمارے ہمسائے ملک افغانستان میں بیس سال تک امریکہ کیساتھ لڑنے والے طالبان برسر اقتدار آچکے اور اپنی حکومت کا اعلان بھی کرچکے ہیں۔ کیا افغانستان کی اس صورتحال کا ہمارے پاکستان کی فرقہ وارانہ کشیدگی سے کوئی تعلق ہے یا یہ تعلق بنانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ کیا افغانستان میں ایک حنفی المسلک حکومت کے قیام کے بعد وہاں کی دیگر مذہی قوتیں مطمئن اور محفوظ رہ پائیں گی اور افغان طالبان انہیں مخالف مذہبی گروہ شمار کرتے ہوئے ان کا جائز مقام دینے پر تیار ہو جائیں گے۔؟

یہ ایک سوال ہے، جس کا دارومدار افغانستان کے مستقبل پر ہوگا اور اس کے اثرات ہمارے ملک پر بھی پڑنے کا امکان نظر آتا ہے۔ اس لئے کہ افغانستان میں ایک گروہ کے ہم مسلک و ہم فکر گروہ، جس کیلئے ان گروہوں نے افرادی قوت اور بھاری رقوم کا چندہ دینے کیساتھ انہیں پاکستان میں مہمان نوازی کی سہولیات فراہم کیں، ان کے طاقت میں آنے کیساتھ ہی یہاں ان کے حمایتی خود کو زیادہ طاقتور سمجھ رہے ہیں، اسی کی بنیاد پر ان تکفیری عناصر میں ایک جوش اور شدت دیکھی جا سکتی ہے۔ اگر افغانستان کے حالات اور طالبان کی نئی حکومت کے بارے میں آمدہ اطلاعات کو دیکھا جائے تو اس وقت طالبان افغانستان میں ایک طرف اہلحدیث گروہ کے ایک نامور عالم دین ابو عبید اللہ متوکل، جس پر داعش کیلئے بھرتیاں کرنے کا الزام تھا، کے اغواء اور پھر اس کی مسخ شدہ لاش کی بازیابی کے بعد فرقہ وارانہ تشدد کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں، جبکہ حالیہ محرم میں طالبان کی طرف سے اہل تشیع کیساتھ مناسب رویہ سامنے آیا ہے۔

بالخصوص کئی شہروں میں عاشور کے جلوسوں کا انعقاد اور عاشورائی ثقافت کے اسٹالز کو نہیں چھیڑا گیا، جبکہ اسی دوران جب طالبان مختلف صوبوں میں اپنی فتوحات کے جھنڈے گاڑ رہے تھے تو اہل تشیع کے جبھہ مقاومت بالخصوص فاطمیون جو شام میں اپنا وسیع کردار رکھتے ہیں انہوں نے کسی بھی قسم کی مزاحمت نہیں کی، جو طالبان کیساتھ کسی مفاہمانہ پالیسی کی نشاندہی کرتا ہے، اس میں بلا شبہ ایران کے طالبان کیساتھ ماضی کی نسبت بہتر تعلقات کا عمل دخل بھی دیکھا جا رہا ہے، کیونکہ فاطمیون پر بہرحال ایران کی قدس فورس کے اثرات سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا۔ البتہ ایک بات جس کا اندیشہ بہرحال موجود ہے کہ اس وقت افغان طالبان اپنے ابتدائی مرحلہ میں ہیں، ابھی ان کی طرف سے کسی ایسے اقدام یا رویہ کا اظہار جس سے یہ تاثر ملے کہ وہ دیگر قومیتوں یا اپنے مخالف مکتب فکر کو برداشت نہیں کرتے، ان کیلئے عالمی دباؤ کا سامان بن سکتا ہے، لہذا ان کی طرف سے پھونک پھونک کے قدم اٹھائے جا رہے ہیں، جو ان کی بہتر حکمت عملی ہے۔

جہاں تک وادی پنجشیر کی بات ہے، اس حوالے سے طالبان اور ان کی پشت پر موجود پاکستان کو مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے کہ انہیں پاکستانی کمانڈوز اور ایئر فورس کی مدد حاصل تھی۔ یہ الزامات زیادہ تر انڈین میڈیا سے وابستہ اکاؤنٹس سے لگائے گئے ہیں، جن کو غلط بھی ثابت کیا جا چکا ہے۔ اس لئے کہ بعض ویڈیو گیمز کی فوٹیجز اور کسی اور جگہ کے طیارے کی ایک فوٹیج کو پاکستانی طیارہ دکھایا گیا تھا، ابھی تک کسی بھی طرف سے کوئی ٹھوس ثبوت اس حوالے سے سامنے نہیں آیا، اگر ایسا ہوتا تو لازمی طور پہ آج کے سوشل میڈیا کے دور میں اسے فوری طور پہ شیئر کیا جاسکتا تھا، اسی طرح اگر پنجشیر میں پاکستانی کمانڈوز گئے ہوتے تو جبھہ مقاومت پنجشیر بہت سے طالبان کی گرفتاری کے دوعوے کرتا آ رہا ہے، ان میں کچھ تو پاکستانی بھی ہوتے، جنہیں عالمی میڈیا کے سامنے لا کر اس الزام کو سچ ثابت کر سکتے تھے مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔

لہذا جنگی ماحول میں تمام فریق جھوٹے پراپیگنڈے کا سہارا لیتے ہیں، یہ مہم بھی اسی پراپیگنڈا کا حصہ لگتی ہے۔ البتہ ایک بات حقیقت ہے کہ ایسے ہی پراپیگنڈا کے نتیجے میں کابل اور ایران کے شہر مشہد و تہران میں پاکستانی ایمبیسی کے سامنے بعض افغانوں نے مظاہرے کئے ہیں اور پاکستان کے خلاف نعرے بھی لگائے ہیں، اگر یہ مظاہرے شیئر ہو رہے ہیں تو وہ کمانڈوز اور ایئر کرافٹ بھی سامنے آنے چاہیئے، جن کا الزام لگایا گیا ہے۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ افغانستان کے تینتیس صوبوں میں طالبان نے بڑے آرام سے قبضہ کیا اور فتح کے جھنڈے لہرائے، جیسے سب طے شدہ ہو، کسی بھی جگہ پر اس طرح کی مزاحمت نہیں ہوئی کہ جسے قابل ذکر کہا جا سکے۔ پنجشیر میں مزاحمت ہوئی ہے تو نظر بھی آ رہی ہے، اگر دیگر صوبوں میں بھی مزاحمت کا ایسا ہی سلسلہ ہوتا تو طالبان کیلئے اتنا جلد کابل پر اپنا جھنڈا لہرانا ممکن نہیں ہوتا۔

جب تین لاکھ فوج جسے امریکہ و نیٹو نے تربیت دی تھی اور اسے جدید اسلحہ سے لیس کیا گیا تھا، اس نے مزاحمت نہیں کی، جب اتنے پرانے جہادی کمانڈرز نے مزاحمت نہیں کی، جتنی احمد شاہ مسعود کے بیٹے نے کی ہے تو طالبان نے فتح ہی حاصل کرنا تھی، انہیں کابل پر جھنڈا لہرانے سے کون روک سکتا تھا۔ اشرف غنی تو پہلے ہی ان کے ساتھ ملا ہوا تھا، اسے جو کردار دیا گیا تھا، وہ ادا کر رہا تھا، اس کی نسبت تو عبداللہ عبدللہ، حکمت یار اور کرزئی بہتر رہے، جنہوں نے اپنے وطن کو نہیں چھوڑا اور اپنے عوام کے سامنے سرخرو ہوئے ہیں۔ بہرحال افغانستان میں اس وقت اگرچہ طالبان نے پنجشیر میں بھی اپنی فتح کا اعلان کر دیا ہے اور حکومت بنانے جا رہے ہیں، اس کے باوجود یہاں خانہ جنگی کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا، افغانستان ہمیشہ سے عالمی ایجنسیوں کی آماجگاہ اور میدان رہا ہے، جہاں دنیا بھر کی ایجنسیاں اپنا اپنا کھیل کھیلتی رہی ہیں۔

اس بات کا امکان موجود ہے کہ کسی بھی وقت کوئی چنگاری جو بہ ظاہر دب گئی ہو، سارے نظام کو بھسم کرسکتی ہے اور فرار کر جانے والا نیٹو اور امریکہ پھر سے آن ٹپکے، اس سارے کھیل میں ایران کا کردار بہت ہی حکیمانہ اور دور اندیشانہ نظر آتا ہے۔ امریکہ نے طالبان کو اتنا وسیع و عریض ملک تیار کرکے دیا، تاکہ وہ اپنے مخالف مسلک کے ہمسائے ملک ایران جو امریکہ کا پکا دشمن ہے، اس سے بر سر پیکار ہوں، اس مقصد کیلئے مکمل ماحول افغانستان میں بنایا گیا تھا، مگر ایران نے اس سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیا اور امریکی سازش ناکامی سے دوچار ہوتی دیکھی جا سکتی ہے۔ ایران نے اپنے ماضی کے مخالف طالبان جنہوں نے ایک زمانے میں ایران کے سفارتی اراکین کو شہید کیا تھا، انہی کو امریکہ کو خطے سے نکال باہر کرنے کیلئے خوب استعمال کی اہے، رہی بات افغانستان اور خطے کے مستقبل کے حالات کی تو اس حوالے سے ابھی کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔

طالبان کے بارے یہ آرا ء موجود ہیں کہ ان میں مختلف الخیال اور گروہ موجود ہیں، جو بہ ظاہر ایک امیر کی بیعت میں ہیں، مگر ان کی باہمی فکری، قومیتی تقسیم اور اختیارات کی جنگ ان کی حکومت کے قیام اور عملی ہونے کے بعد وقت کیساتھ سامنے آنے کا اندیشہ ہے، جو اس خطے کے مستقبل کا نقشہ بنے گا، اگر افغانستان میں طالبان روایتی شدت پسندی اور زور زبردستی کرتے ہیں اور پختونوں کے علاوہ دیگر قومیتوں کو دباتے ہیں، دیگر مسالک و افکار کے لوگوں سے الجھتے ہیں اور خواتین کے ایشوز پر عالمی برادری کو مطمئن نہیں کر پاتے تو ان کی مشکلات کیساتھ خطے کی مشکلات جس میں افغانستان کے ہمسائے ممالک ہیں، پر بھی منفی اثرات پڑیں گے۔ پاکستان میں فرقہ وارانہ کشیدگی خدا نخواستہ ماضی کے قتل عام اور ٹارگٹ کلنگ کی طرف جا سکتی ہے، جیسا کہ بعض قوتوں کی یہ خواہش اور سازش بھی ہے، لہذا پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہے۔
خبر کا کوڈ : 952827
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش