0
Sunday 28 Nov 2021 21:34

زینبیون محافظینِ وطن

زینبیون محافظینِ وطن
تحریر: سویرا بتول

اگر انسانی تاریخ پر نگاہ ڈالی جاٸے تو ہمیشہ سے حق و باطل ایک دوسرے کے مدمقابل نظر آتے ہیں۔ سن اکسٹھ ہجری کا شمر و یزید ہو یا آج کے دور کے فرعون و نمرود، ہر دور میں حق اور باطل ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما رہے ہیں۔ آج کی کربلا میں داعش کے مقابلے میں کھڑے ہونے والے مٹھی بھر مدافعینِ حرم وہ عظیم اینٹی ٹیرارزم مجاہدین ہیں، جنہوں نے دنیا میں دہشتگردی کے خاتمہ کے لیے عملی اقدامات کیے ہیں، مگر افسوس کہ ان مجاہدین کا کہیں بھی تذکرہ نہیں۔ نہ ہمارا پرنٹ میڈیا ایسی خبریں شاٸع کرتا ہے اور نہ الیکٹرونک میڈیا۔ اِس کے برعکس انسانيت کی قاتل تنظیم داعش جس نے اتنے انسان قتل کیے کہ دریاٸے دجلہ کا رنگ تبدیل ہوگیا، جہاد النکاح کے نام پر دین میں بدعت ایجاد کی، جس نے ماٶں کے سامنے اُن کی اولادوں کو ذبح کیا، جس نے انسانوں کو پانی میں ڈبو کر مارا، اُسی داعش کے حمایتی آپ کو ہر جگہ بآسانی ملیں گے۔

حالیہ دنوں میں اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق 4600 پاکستانی تکفیری دہشتگرد شام گئے، جن میں سے 1380 مارے گئے اور 590 لاپتہ ہیں۔ لیکن اتنی بڑی تعداد کا قومی پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا یا سوشل میڈیا میں کہیں کوئی ذکر نہیں ہوتا جبکہ زینبیون کے نام پر سینکڑوں پاکستانی شیعہ زائرین کو ایران، عراق اور شام سے واپسی پر لاپتہ کر دیا جاتا ہے اور کوئی ریاستی ادارہ اس بات کا جواب تک نہیں دیتا۔اقوام ِمتحدہ کی تفصيلات کے مطابق پہلی بار شام کی جنگ اور شام میں موجود غیر ملکی دہشت گردوں اور ان کی قومیتوں کے بارے میں انکشاف کیا گیا ہے۔ شام میں غیر ملکی دہشت گردوں کی تعداد واضح طور پر خوفناک ہے اور وہ اب بھی کہتے ہیں: (شام کا انقلاب!!) یہ حقائق تلخ بھی ہیں اور انسانيت سوز بھی۔

دوسری جانب اس رپورٹ میں پاکستان میں فعال مختلف سعودی نواز تکفیری، وہابی، دیوبندی اور اہل حدیث دہشت گرد تنظیموں بشمول کالعدم سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی، جماعت اسلامی، حرکت المجاہدین (انصارالامہ)، جمعیت علمائے اسلام سے تعلق رکھنے والے 4600 پاکستانی تکفیری دہشتگردوں کے شام جا کر امریکی، اسرائیلی و سعودی مفادات کے تحفظ کی خاطر بشارالاسد کی منتخب آئینی حکومت کا تختہ الٹنے کیلئے خانہ جنگی میں حصہ لینے کی تفصیلات بھی منظر عام پر آئی ہیں، ان دہشت گردوں میں سے 1380 کے مارے جانے جبکہ 590 دہشت گردوں کے لاپتہ ہونے یا فرار ہو جانے کی تصدیق کی گئی ہے۔ یہ بات واضح رہے کہ ترکی، سعودی عرب اور پاکستان کے علاوہ چیچنیا، مقبوضہ فلسطین، تیونس، لیبیا، عراق، لبنان، ترکمانستان، مصر، اردن، افغانستان، یمن، قازقستان، ازبکستان، کویت، الجزائر، مراکش سمیت مغربی یورپ، امریکہ، فرانس، روس، برطانیہ، بیلجیم، نیوزی لینڈ، سویڈن، فن لینڈ، ڈنمارک اور ناروے سے بھی دہشت گرد لاکھوں کی تعداد میں شام میں جمع ہوئے تھے۔

پوری دنیا سے لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کو اکٹھا کرنے کا فقط ایک ہی مقصد تھا اور وہ یہ کہ اسلام کے نام پر اسلام کے خلاف جنگ مسلط کی جاٸے اور بانی اسلامﷺ کے مزارات اور اصحاب کی قبور کی مسماری کے ذریعے مسلمانوں کے مقدسات کی بےحرمتی کرتے ہوٸے مسلمانوں کو آپس میں  دست و گریبان کیا جاٸے۔ اس مقصد کے لیے داعش اور جبھۃ النصرہ جیسے شدت پسندوں کی آڑ میں اہلسنت کو شیعہ کے خلاف جنگ پر آمادہ کیا جانے لگا، تاکہ مقابلہ میں شیعہ مسلمان جہاں کہیں اکثریت کے حامل ہیں، وہاں اہلسنت کا قتلِ عام کریں اور بلاد مسلمین خود اپنے ہی ہاتھوں تباہی کے دہانے پر جا پہنچے اور استکباری و سامراجی طاقتیں اپنے نجس اہداف تک پہنچ سکیں۔

مگر ہمارا سلام ہو، اُن مٹھی بھر عشاق پر، جنہوں نے داعش جیسے خونخوار بھیڑیئے کو اپنی استقامت اور اہل بیت سے توسل کے ذریعے نابود کیا۔ مگر آج بھی ان مدافعین حرم کے اہل خانہ کے ساتھ ظلم و زیادتی کا رویہ روا رکھا جاتا ہے۔ آج بھی ہمارے پیارے بیلنس پالیسی کے نام پر سالوں سے کال کوٹھڑیوں میں اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں۔ آج بھی ہمارے جوانوں کو غیر آٸینی طور پر ماوراٸے عدالت لاپتہ کر دیا جاتا ہے اور سالوں سے منتظر اُن کے پیارے اُن کی واپسی کی آس میں اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملتے ہیں۔ کیا یہی ہے ریاستِ مدینہ، جہاں مظلوم کو دور دور تک انصاف نہیں ملتا۔؟
خبر کا کوڈ : 965914
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش