0
Wednesday 2 Mar 2022 19:47

مغرب کا دوہرا معیار، انسانیت کا دشمن

مغرب کا دوہرا معیار، انسانیت کا دشمن
تحریر: عظیم سبزواری

اگر امریکہ یا مغربی ممالک میں فکری آزادی اور آزادی اظہار کا حق محفوظ ہے تو یوکرائن کے معاملہ پر وہاں کے عوام کیوں نہیں بولتے کہ میرے لئے میرا وطن پہلے ہے؟ کیوں مغرب اور امریکہ کے عوام جب بھی کسی جنگ میں ملوث ہوں تو یہ نہیں کہہ پاتے کہ ہمیں اپنے ملک کا سوچنا چاہیئے، نہ کہ کسی دوسرے ملک کا۔ جیسی آوازیں پاکستان میں یا دیگر مشرقی ممالک میں اٹھتی ہیں، اگر ان کی حکومت یا کوئی سیاسی گروہ کسی دوسرے ملک کے معاملات میں دخل دیتا ہے یا اس ملک کا پرچار اپنے ملک میں کرتا ہے تو ایسے میں ردعمل یہ آتا ہے کہ پہلے اپنے ملک کو اہمیت دو۔ یعنی جب ایران سعودی اختلافات پر کوئی ایک طرف جانبداری کریں تو عوام کا ایک طبقہ اس سے پہلے پاکستان کی بات کرتا ہے۔ اس کی اصل وجہ کیا ہے کہ ایسی آواز مغرب میں نہیں اٹھتی کبھی، بلکہ امریکی یا یورپی ممالک کی دوسرے ملکوں میں جنگ مسلط کرنا ہو یا وہاں کی حکومتوں کیخلاف بغاوت، اس کو مغربی عوام اپنے ہی ملک کا تحفظ اور بہتری گردانتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ باقی ماندہ دنیا وحشی اور غیر مہذب ہیں۔

افریقی یوں یا ایشائی، مسلمان ہوں یا عرب، ان سب کا تاثر مغربی عوام کی نظر میں صدیوں سے یہ بیٹھا ہوا ہے کہ یہ لوگ ہماری ترقی اور آزادی سے نفرت کرتے ہیں اور ہمیں نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے، لہذا اگر ہم نے ان سے مقابلہ کرنا ہے یا خود کو محفوظ رکھنا ہے تو ہمارے ملک جو بھی تباہی باقی دنیا میں سرزد کریں، وہ ہماری تہذیب کا دفاع ہے۔ افریقہ میں عسکری کارروائی ہو یا عراق و شام میں جہادی گروہوں کی پشت پناہی، ایران اور روس پر شدید اقتصادی پابندیاں ہوں یا پاکستان کا جوہری منصوبہ زد میں ہو، لیبیا، عراق و افغانستان کو شدید جنگ سے تباہ کرنا ہو یا کسی اور ملک میں تباہی کی فصل بونا، سب وہ اپنے مفاد میں سمجھتے ہیں۔ آخر ایسی سوچ و فکر کی بنیاد کیا ہے؟ کیوں یہ مغربی ممالک، جہاں ان کے اپنے مقامی عدل و انصاف کی لوگ تعریف کرتے ہیں، دیگر کیلئے یکسر مختلف پیمانہ رکھتے ہیں، جو کہ شدید ظلم و بربریت کی عکاسی کرتا ہے۔

اس ساری صورتحال کی بنیادی وجہ جوزف رڈیارڈ کپلنگ، جو ایک برطانوی ناول نگار تھا، اس کی ایک نظم سے ملتی ہے، جس کا نام غرب کی استعماریت کو دراصل اس کے فرض کا نام دیتی ہے۔ غیر ترقی یافتہ اقوام کے معاملات کا انتظام کرنے کے لئے سفید فام لوگوں کا مفروضہ فرض جو کہ اس نظم کا خلاصہ ہے، 1899ء میں لکھی گئی، جب امریکہ نے فلپائن پر اپنا تسلط جمایا۔ "سیاہ فام پر بوجھ" کے عنوان سے اس نظم میں وہ کہتا ہے کہ ہمارا فرض ہے کہ دوسری اقوام پر اپنے تسلط سے ان لوگوں کو انسان بنائیں، تاکہ وہ ترقی کرسکیں۔ اسی لئیے امریکہ کو وہاں پر اپنی فوج بھیج کر ان کو زبردستی ایسا کروانا ہے۔ رڈیارڈ کپلنگ دراصل خود ہندوستان میں 1865ء میں پیدا ہوا اور اس کی نظموں اور دیگر لکھے ہوئے افکار، وہاں پر برطانوی سامراج کے جبر کے عکاس ہیں۔ یعنی کہ ہم بطور سفید فام دنیا کی سب سے ترقی یافتہ اقوام ہیں اور دیگر کو جینا نہیں آتا۔ دیگر ہم سے کم تر ہیں، کیونکہ وہ اپنی عزت و غیرت کو اپنی جان سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں تو وہ ترقی کے قابل نہیں۔

یہ امتیازی سلوک اور ذہنیت ایک طرح سے اخلاقی جواز بنی، ظلم و جبر سے حاصل کئے گئے علاقوں پر اپنی حکومت کرنے کا۔ اسی کے پیش نظر جہاں پر امریکی اور برطانوی حکمرانی رہی، وہاں پر معاشرتی سربراہی اور سیاسی قیادت کے نظام کو درہم برہم کیا گیا۔ سربراہوں کو خانوادوں سمیت قتل کیا گیا اور معاشرے کے ریت و رواج کو تباہ کیا گیا۔ یہ طرز حکمرانی جس میں مقامی سوچ اور خود اعتمادی کو تباہ کرکے ایک غلامانہ سوچ کے حامل افراد کو اوپر لایا گیا، جو یہ سمجھیں کہ مغرب کی سرپرستی میں ہی ہم ترقی کریں گے اور راہ راست پر چلیں گے۔ دراصل ان ممالک کی اصل تباہی کا باعث بنے۔ پھر جب ایسے افراد اقتدار میں آئے تو مغرب کیلئے ان کے ممالک کو بظاہر آزاد کرکے یہ کہنے کا موقع ملا کہ ہم نے استعماریت ترک کر دی ہے، جبکہ ان کے پروان چڑھائے نظام نے ان ممالک کو اتنی دہائیوں کے بعد بھی اپنے جبر میں اقتصادی و معاشی نظام کی گرفت میں رکھا ہوا ہے۔

ایسے میں جب دوسری جنگ عظیم ہوئی اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیلی تو جیتنے والے ممالک میں سرفہرست امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے نئی دنیا کا نظام اپنی مرضی کے مطابق تشکیل دیا۔ جس میں باقی دنیا کو اپنی جانب پیسہ کھینچنے اور ان سے لوٹ مار کا نظام باقاعدگی سے بنایا گیا۔ اب دنیا میں جو بھی ہو، اس کو ٹھیک رکھنا اور خود کو محور قرار دینا، یہ عالمی تسلط کی شکل میں طے پایا۔ یوکرائن میں ہونیوالی جنگ میں بھی مغربی صحافیوں اور میڈیا کی جانب سے ایک بات بار بار سننے کو ملی کہ یہ لوگ یورپ کا حصہ ہیں۔ ہماری طرح سفید فام ہیں۔ ہمارے طرز کی زندگی گزارتے ہیں، اچھے کپڑے پہنتے ہیں اور ہماری جیسی گاڑیاں ہیں۔ یہ لوگ جنگ کے حقدار نہیں، جیسے عراق اور افغانستان کے لوگ ہیں۔ یہ سب باتیں بار بار کسی نہ کسی شکل میں مغربی میڈیا پر روز سنے کو ملیں۔ یعنی کے ایشیائی، عربی و افریقی اقوام تاحال انسان نہیں، اسی لئے وہ جنگوں اور عدم استحکام کے قابل ہیں۔

یعنی وہاں پر اگر ہم نے جنگ اور تباہی سرزد کی ہے تو اس کی وجہ بھی وہ ہیں، ہم نہیں۔ ہم نے تو وہاں دخل اندازی کرکے خود کو بچایا ہے اور وہاں کی عوام پر احسان کیا ہے۔ لہذا وہ جنگ اور بدامنی کے حقدار ہیں، ہم جیسے لوگ نہیں۔ یوکرائن اور روس کے تنازعہ میں مغربی میڈیا اور سیاسی پالیسی سازوں نے یہ تک کہا کہ باقی ایشیائی یا مسلمان ممالک پر جنگیں ایک جواز رکھتی ہیں، لیکن روس نے تو اب ہر ظلم کی حد پار کر دی ہے۔ ایسے میں اس غاصبانہ اور استعماری سوچ کی حامل وہاں کی عوام کا ایک بڑا طبقہ ہے، جو نہ صرف ٹیکس دیتا ہے، جس سے ہمارے ممالک میں عسکری و سیاسی دخل اندازی ہوتی ہے، بلکہ وہ اس کی حمایت بھی کرتے ہیں۔ گو کہ ویتنام جنگ سے امریکہ میں جنگ مخالف تحریک کا آغاز ہوا، لیکن یہ اس لئے تھی کہ فوج میں جبری بھرتیوں سے لوگ جان چھڑوانا چاہتے تھے اور وہ یہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کے بچے دور دراز علاقوں میں مارے جائیں۔

ان کو اس سے کوئی سروکار نہیں تھا کہ ویتنامی کس قیامت سے گزر رہے ہیں۔ اگر وہ اوپر سے فضائی بمباری کرکے ویتنام کو تاراج کرتے رہیں، تب کوئی مسئلہ نہیں۔ جیسا کے عراق میں 1991ء اور سربیا میں 1999ء میں ہوا۔ ان دونوں ممالک پر چند دنوں میں امریکہ نے اتنا دھماکہ خیز مواد داغا کہ جتنا پوری جنگ عظیم دوم میں دونوں جانب سے 6 سال میں استعمال نہیں ہوا تھا۔ یہ جان لیں کہ غرب کا نظام حکومت اور عالمی ترتیب جس کی وہ بات کرتے ہیں، کسی انسانی حقوق یا قانون کے طرز پر نہیں، بلکہ اپنی بالادستی، دوسرے ممالک کی تباہی اور ان کو غیر انسان ثابت کرنے پر منحصر ہے۔ جیسا کہ ایک صحافی نے شام کے ایک تباہ شدہ شہر میں امدادی خوراک کی لمبی انسانی قطاروں کی تصویر پر کمنٹ کیا تھا کہ اگر یورپ میں نیا آئی فون خریدنے کیلئے لمبی قطاریں دیکھنی ہیں تو وسطی ایشیاء کے ممالک میں یہ تباہی کے مناظر جاری رکھے جائیں۔ جس دن دنیا میں عادلانہ نظام اور برابری کی بات ہوگی، امن و آشتی کی جانب اقدام ہوگا، تب یہ غیر مساوی سفید فام کا جبر ختم ہو جائیگا۔
خبر کا کوڈ : 981647
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش