0
Sunday 25 Sep 2011 14:04

امریکہ کی کھلی دھمکی

امریکہ کی کھلی دھمکی
تحریر:قیوم نظامی 
پاکستان سے سچی محبت کرنے والے صحافی، سیاست دان اور دانشور جنرل ضیاءالحق سے کہتے تھے کہ امریکہ سے یاری نہ لگائیں یہ کام نکلنے کے بعد بے وفائی کرے گا۔ حب الوطنی پر مبنی یہی سنجیدہ رائے جنرل پرویز مشرف کو بھی دی گئی۔ پاکستان سے محبت کرنے والے افراد اور حلقے ایک بار پھر سرخرو ہو رہے ہیں کیونکہ ان کی رائے درست ثابت ہوئی ہے۔ امریکہ 35 ہزار سول اور فوجی پاکستانی شہید کرانے اور پاکستان کو 70 ارب ڈالر کا معاشی نقصان پہنچانے کے بعد کھلی دھمکیوں پر اتر آیا ہے۔ یہ دھمکیاں پاکستان کی وزیر خارجہ اور ڈی جی آئی ایس آئی کے امریکی دورے کے بعد سامنے آئی ہیں جن سے پوری قوم تشویش اور اضطراب کا شکار ہو گئی ہے۔
 چیئرمین جوائینٹ چیف آف سٹاف کمیٹی مائیک مولن نے براہ راست اور دو ٹوک الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان افغانستان میں دہشت گردی کرا رہا ہے اور کابل پر حملہ آئی ایس آئی کی مدد سے ہوا اور اس مقصد کے لیے حقانی نیٹ ورک کو استعمال کیا گیا ہے۔ امریکہ نے روایتی بے شرمی اور ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس وقت مالی امداد کو مشروط کر دیا ہے جبکہ پاکستان کے ایک کروڑ شہری کھلے آسمان تلے پڑے ہیں۔ آئی ایس آئی تو امریکہ کے دل میں ہمیشہ کھٹکتی رہی ہے کیونکہ یہ خفیہ ایجنسی اپنے مینڈیٹ کے مطابق پاکستان کے لانگ ٹرم مفادات کا ہر قیمت پر دفاع کرتی ہے جبکہ امریکہ چاہتا ہے کہ آئی ایس آئی امریکہ کا اسی طرح ساتھ دے جیسے اس نے روس کے خلاف افغان جنگ کے دوران دیا تھا۔ امریکہ کے وزیر دفاع لیون پینٹا بڑے سرگرم اور متحرک ہیں اور پاکستان کو دھمکیاں دینے میں پیش پیش ہیں۔ پاکستان کے وزیر دفاع احمد مختار پر اسرار طور پر خاموش ہیں نہ سنائی دیتے ہیں اور نہ دکھائی دیتے ہیں۔
ایبٹ آباد میں امریکی جارحیت کے بعد پاکستان اگر موقع کے مطابق شدید رد عمل کا اظہار کرتا تو آج امریکہ کو کھلی دھمکیاں دینے کی بھی جرات نہ ہوتی۔ وزیراعظم پاکستان نے نہایت ”ماٹھا بیان“ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ”امریکہ ہمارے ساتھ نہیں رہ سکتا تو وہ ہمارے بغیر بھی نہیں رہ سکتا“۔ مرد وزیراعظم سے خاتون وزیر اعظم دلیر نکلی۔ 1989ء میں جب خفیہ ایجنسیوں کو یہ مصدقہ اطلاع ملی کہ بھارت اور اسرائیل کہوٹہ پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں تو محترمہ بے نظیر بھٹو نے پاکستان کے وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب علی خان کو انتہائی سخت اور دلیرانہ پیغام کے ساتھ بھارت بھیجا۔ اس پیغام کے بعد بھارت اور اسرائیل کو کہوٹہ پر حملہ کرنے کی جرات نہ ہوسکی۔ خاتون وزیر خارجہ نے بھی امریکہ کے خلاف دلیرانہ بیان دیا ہے۔
 سوال یہ نہیں ہے کہ کیا امریکہ وزیرستان پر حملہ کرے گا؟ وہ تو پہلے ہی ڈرون حملے کر رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کی فوج اور حکومت امریکہ کی جارحیت کا جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔ پاکستان کے عوام تو پہلے ہی قربانیاں دے رہے ہیں اور پاک فوج کے ساتھ کھڑے ہیں۔ امریکہ افغانستان میں جنگ لڑ رہا ہے۔ دس سال کے بعد دہشت گردی کے بڑے واقعات نے امریکہ کے ہوش اڑا دئیے ہیں۔ امریکی صدر اوبامہ سخت اندرونی عوامی دباﺅ کا شکار ہیں۔ امریکی معیشت زوال کا شکار ہے ان حالات میں ہارا ہوا جواری کچھ بھی کر سکتا ہے۔ 
ایک اخباری اطلاع کے مطابق جب امریکی سینٹ میں پاکستان کی امداد کو مشروط بنانے کی قرارداد پیش کی گئی تو پاکستان کے حق میں صرف دو ووٹ ڈالے گئے، جب سے حسین حقانی کو امریکہ میں پاکستان کا سفیر تعینات کیا گیا ہے امریکہ میں پاکستان دوست لابی کمزور ہوئی ہے۔ امریکہ کی کھلی دھمکی کے بعد لازم ہے کہ پاکستان جارحیت کو روکنے کے لئے مہم جوئی نہیں بلکہ ٹھوس دفاعی حکمت عملی ترتیب دے اور زمین پر نظر آنے والے دفاعی اقدامات اُٹھائے، تاکہ امریکہ کو یہ یقین ہو جائے کہ اگر اس نے ایبٹ آباد آپریشن کی طرح پاکستان کی آزادی اور خود مختاری پر حملہ کیا تو پاکستان ہر قیمت پر امریکہ کو سخت جواب دے گا۔ 
ایٹم بم استعمال کرنے کے لئے نہیں بلکہ دشمنوں کو خوف زدہ کرنے کے لیے ہوتے ہیں بشرطیکہ عسکری اور سیاسی لیڈر اس کے اہل ہوں۔ امریکی سفیر کو وزارت خارجہ میں بلا کر مائیک مولن کے دھمکی آمیز بیان کی وضاحت طلب کی جانی چاہیئے۔ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر منتخب عوامی نمائیندوں کو اعتماد میں لیا جائے۔ سعودی عرب اور چین سے ہنگامی مشاورت کی جائے۔ سفارت کاری میں تیزی لانے کے لیے سفیروں کو متحرک کیا جائے۔ اپوزیشن لیڈر جناب نواز شریف نے پریس کانفرنس میں عوام کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے حکومت کو اس اہم قومی مسئلہ پر بحث کے لئے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری بھی چپ کا روزہ توڑ کر آئینی اور جمہوری فریضہ پورا کرتے ہوئے قوم سے خطاب کریں اور پاکستانی قوم کو اعتماد میں لیں۔ ان اجتماعی اقدامات سے ہی دفاع کے بارے میں قومی اتفاق رائے سامنے آئے گا جو امریکہ کو ہوش میں لانے کا سبب بنے گا۔ 
کاش ہمارے ماضی کے حکمران بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی دانش، بصیرت اور سنجیدہ غور و فکر پر مبنی داخلی اور خارجی پالیسیوں سے انحراف نہ کرتے تو پاکستان کی تاریخ مختلف ہوتی۔ قائداعظم نے خارجہ پالیسی کا بنیادی اصول "Peace within and Peace without" ”امن اندرونی اور امن بیرونی“ قرار دیا تھا۔ انہوں نے امریکہ کی معروف صحافی مارگریٹ بروک وائیٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا۔ ”امریکہ اور پاکستان کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے مگر امریکہ کو پاکستان کی زیادہ ضرورت ہے کیونکہ پاکستان محل وقوع کے لحاظ سے دنیا کا محور ہے“۔ پاکستان کے اکثر حکمرانوں نے پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کو قومی مفادات کی بجائے اپنے ذاتی اقتدار اور گروہی مفادات کے لئے ہی استعمال کیا۔ مشروط امریکی امداد کے سلسلے میں علامہ اقبال کے فلسفہ پر عمل کیا جائے۔
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے نہ من تیرا نہ تن
 "روزنامہ نوائے وقت"
خبر کا کوڈ : 101336
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش