0
Monday 5 Dec 2011 10:18

انقلابی تحریکوں کا سرچشمہ حضرت امام حسین ع کی تعلیمات

انقلابی تحریکوں کا سرچشمہ حضرت امام حسین ع کی تعلیمات
 تحریر:محمد علی نقوی
 
اسلامی جمہوریہ ایران کی پارلیمنٹ کے اسپیکر علی لاریجانی نے کہا ہے کہ خطے کی مسلمان اقوام کی انقلابی تحریکوں کا سرچشمہ حضرت امام حسین ع کی تعلیمات ہیں۔ علی لاریجانی نے مجلس عزا میں شرکت کے دوران مزید کہا کہ اقوام حضرت امام حسین ع کی تعلیمات اور فرامین سے جس قدر زیادہ آگاہ ہوں گی، اسی قدر ظلم و جور کے مقابلے میں ان کا اتحاد مستحکم ہو گا کیونکہ امام حسین ع کے فرامین آپ کی شہادت کے زمانے میں بھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا مصداق تھے۔
 
ادھرحزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے کہا ہے کہ امام خمینی رح کی قیادت میں کامیاب ہونے والے اسلامی انقلاب کا سرچشمہ انقلاب حسینی ہے اور امام خمینی رح نے فرمایا ہے کہ ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ امام حسین کے عاشورا سے ہے۔ سید حسن نصراللہ نے حضرت امام حسین علیہ السلام کی سیرت و زندگي اور کربلا پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اسلامی انقلاب سے قبل ایران، امریکہ کی کالونی تھا اور صیہونی حکومت کے ساتھ شاہ کے بہترین تعلقات تھے، اسی بناپر امام خمینی رہ نے اپنے جد حضرت سید الشہدا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے قیام کیا۔ انہوں نے کہا اگر امام خمینی رہ خاموش بیٹھ جاتے تو ایران میں اسلام باقی نہ رہتا، کیونکہ ایران میں اسلام کو خطرے لاحق ہو چکے تھے۔ لھذا امام خمینی رہ نے شاہ کے مقابل قیام کیا۔
 
سید حسن نصراللہ نے یہ سوال پیش کیا کہ کس طرح ایک اکیلا شخص مغرب و اسرائيل یہان تک کہ عربوں کی حمایت یافتہ حکومت کے سامنے اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔؟ انہوں نے کہا کہ خود امام خمینی رہ نے یہ کہہ کر کہ ہمارے پاس جو کچھ ہے، امام حسین ع اور عاشورا سے ہے۔ اس سوال کا جواب دے دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عراق میں آيت اللہ سید محسن الحکیم اور آیت اللہ محمد باقر الصدر کی تحریکیں اور لبنان میں امام موسی صدر کی تحریک حضرت امام حسین علیہ السلام کے انقلاب سے متاثر اور ان کے نقش قدم پر تھیں۔
 
سید حسن نصراللہ نے حزب اللہ کو بھی انقلاب کربلا سے متاثر قرار دیا اور کہا کہ ہمارے جوان حضرت علی اکبر علیہ السلام اور ہمارے بچے حضرت علی اصغر علیہ السلام اور ہمارے بوڑھے حبیب ابن مظاہر کے نقش قدم پر گامزن ہیں اور ان ہی جذبات کے تحت ہم اٹھائيس برسوں کے بعد بھی جبکہ ہمارے خلاف طرح طرح کی سازشیں جاری ہیں، استقامت کا ثبوت دے رہے ہیں۔
 
یہ ایک واضع حقیقت ہے کہ کربلا انسانیت کے لئے ہمیشہ رہنے والا نمونہ عمل ہے۔ کربلا ایک آئیڈل ہے اور اس کا پیام ہے کہ دشمن کی طاقت کے سامنے انسان کے قدم متزلزل نہيں ہونے چاہئے۔ یہ ایک آزمایا ہوا نمونہ عمل ہے، امام حسین علیہ السلام کے راستے کا مطلب دشمن سے نہ ڈرنا اور طاقتور دشمن کے سامنے ڈٹ جانا ہے۔ قوموں کو امام حسین علیہ السلام سے درس حاصل کرنا چاہئے یعنی دشمن سے نہيں ڈرنا چاہئے، خود پر بھروسہ رکھنا چاہئے، اپنے خدا پر توکل کرنا چاہئے اور یہ سمجھنا چاہئے کہ اگر دشمن طاقتور ہے تو اس کی یہ طاقت زیادہ دنوں تک باقی نہيں رہنے والی ہے۔ اسے یہ جاننا چاہئے کہ اگرچہ دشمن کا محاذ بظاہر وسیع اور مضبوط ہے لیکن اس کی حقیقی طاقت کم ہے۔
 
حقیقت تو یہ ہے کہ عاشور کے جو مناظر ہماری نظروں کے سامنے ہيں، اس کے سلسلے میں تو بہتر ہو گا کہ ہم یہ کہیں کہ انسانی المیہ کی تاریخ میں اس کی کوئي مثال نہيں ملتی۔ جیسا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا، جیسا کہ امیر المومنین اور امام حسن علیھم السلام نے فرمایا۔ جیسا کہ روایتوں میں ہے۔ «لایوم كیومك یا اباعبداللَّه»؛ کوئي دن تمہارے دن، تمہارے روز عاشورا، کربلا کے اور تمہارے ساتھ ہوئے واقعے کی طرح نہيں ہے۔
 
امام حسین علیہ السلام کو صرف جنگ عاشورا کے ذریعے پہچاننے کی کوشش نہیں کرنا چاہئے، وہ امام حسین کے جہاد کا صرف ایک حصہ ہے۔ آپ کے بیان، آپ کا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر، منی و عرفات میں گوناگوں مسائل پر آپ کی گفتگو، علماء سے خطاب، بڑی شخصیات سے خطاب، اس کے بعد کربلا کی سمت سفر کے دوران اور خود سرزمین کربلا پر اور میدان کربلا کی مدد سے حضرت کو پہچاننے کی کوشش کرنا چاہئے۔ کربلا کی سرزمین پر آپ نے حقائق بیان فرمائے ہیں۔ بار بار گفتگو فرماتے تھے۔ جنگ کا میدان آراستہ ہے، لوگ ایک دوسرے کا خون بہانے کے لئے تیار ہیں لیکن آپ ہیں کہ ہر موقع سے استفادہ کرکے گفتگو فرماتے ہیں تاکہ دشمن کے ضمیرکو بیدار کر سکیں۔ تاریخ میں ہمیشہ باقی رہنے والے درس، وہی درس جس کی آج اور کل بھی بشریت کو ضرورت پڑے گی۔
 
عاشور کا واقعہ صرف تاریخی واقعہ نہیں ہے، بلکہ امت اسلامیہ کے لئے ایک ثقافت اور ایک ابدی تحریک کا سرچشمہ اور ایک پائیدار نمونۂ عمل ہے۔ حضرت اباعبداللہ الحسین (ع) نے اپنی تحریک کے ذریعے جس کی اس دور میں شدید ضرورت تھی، ملت اسلامیہ کے لئے ایک لائحہ عمل پیش کیا یہ صرف درس شہادت ہی نہیں بلکہ بے شمار تعلیمات کا خزینہ ہے۔ اس تحریک میں عقل و منطق کا عنصر امام کے بیانوں میں جلوہ گر ہے۔ 

تحریک کے آغاز سے قبل، مدینے سے لے کر شہادت تک کے ان نورانی بیانات کا ایک ایک جملہ، ایک قوی منطق کو بیان کرتا ہے اور اس منطق کا نچوڑ یہ ہے کہ جب حالات سازگار ہوں تو مسلمان کا فرض " اقدام کرنا " ہے۔ چاہے اس اقدام میں انتہائي خطرہ ہی کیوں نہ ہو۔ انسان مکمل خلوص کے ساتھ خود اپنے اعزاء و اقارب، بیوی بچوں، بھائي بہنوں، کو میدان میں لے آئے، قید کے لئے تیار ہو جائے۔ حسین بن علی (ع) نے مکے میں، مدینے میں، راستے کے مختلف حصوں میں اپنے مختلف فرامین اور محمد بن حنفیہ سے اپنی وصیت میں اس فرض کو بیان فرمایا۔ حسین ابن علی اس کام کے انجام کو جانتے تھے۔
 
یہ تصور نہیں کرنا چاہئے کہ آپ اقتدار کے حصول کے لئے اپنی آنکھیں بند کر کے انجام سے بے خبر آگے بڑھے۔ نہیں تحقیقی جائزہ ہمیں اس نتیجے تک نہیں پہنچاتا، اس اقدام کا انجام کیا ہو گا اس کا پورا علم امام حسین (ع) کو تھا، وہ علم لدنی اور خداداد فہم و فراست کے ذریعے انجام کا قبل از وقت مشاہدہ کرنے پر قادر تھے، لیکن مسئلہ تھا دین کی بقا کا، اس عظیم ہدف پر فخر کائنات حسین بن علی (ع) نے اپنی جان قربان کی۔ یہ مسلمانوں کے لئے قیامت تک کے لئے درس ہے اور یہ عملی درس سے۔ یہ ایسا درس نہیں ہے، جو وقت گزرنے کے ساتھ طاق نسیاں کی زینت بن جائے۔ نہیں، یہ وہ درس ہے جو تاریخ اسلام کے افق پر سورج کی مانند ضوفشاں ہے، آپ کی آواز استغاثہ پر آج تک انسانی ضمیر صدائے لبیک بلند کر رہا ہے۔
خبر کا کوڈ : 119798
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش