0
Wednesday 23 Nov 2011 21:45

تلوار پر خون کے غالب آنے کا مہینہ

تلوار پر خون کے غالب آنے کا مہینہ
 تحریر:ثاقب اکبر

امام حسین ع کی صدیوں سے دلوں پر حکمرانیاں نقش ہیں، بہّتر ساتھیوں کے ساتھ ایک عظیم لشکر کے مقابل صف آرائی کا اتنا عظیم الشان نتیجہ، تاریخ انگشت بدنداں اور انسانیت محوِ حیرت ہے۔ اے حسین ع! آپ کو یہ عظیم فتح مبارک ہو، زیبا ہے اور سب سے بڑھ کر آپ کے لیے زیبا ہے کہ کہا جائے: 
جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتح زمانہ
 
امام حسین ع نے ظلم کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا۔ آپ نے فرمایا کہ مجھے حق کے راستے میں موت اس طرح پسند ہے جیسے ایک دلہن کو اپنا گلوبند۔ انھوں نے فرمایا: میں حق کے راستے میں موت کو اپنے لیے سعادت سمجھتا ہوں اور ظالموں کے ساتھ زندہ رہنے کو عار۔ توحید پرستی کے اسی عظیم علم دار کا کہنا ہے کہ اے خدا! جس نے تجھے پا کر ساری دنیا کو کھو دیا، اُس نے سب کچھ پا لیا، کچھ نہیں گنوایا اور جس نے ساری دنیا کو پا کر تجھے کھو دیا اُس نے کچھ نہیں پایا، سب کچھ گنوا دیا۔ ایمان باللہ کے لہریں جس کے سینے میں یوں موجزن ہوں اسے باطل کے سامنے سرنگوں ہونے پر کون مجبور کر سکتا ہے۔
 
کہنے لگے حسین کہ اے رب دو سرا
دوراہے پر ہے ظالموں نے لاکھڑا کیا
ذلت کروں قبول یا پھر سرخرو قضا
لیکن ترے حسین کا بس اک ہے فیصلہ
بیعت کا ہاتھ دوں گا نہ ہرگز یزید کو
تیری گواہی دینا ہے تیرے شہید کو
 
انھوں نے تلوار کے مقابلے میں اپنے خون سے یہ گواہی لکھی۔ کربلا کی تپتی ہوئی ریت پر لکھی گئی اس گواہی کے بارے میں حکیم الامت علامہ اقبال کہتے ہیں:
نقش الا اللہ بر صحرا نوشت
سطرِ عنوانِ نجات مانوشت

امام حسین ع نے صحرائے کربلا پر ”نقش الا اللہ“ ثبت کیا۔ یہ نقشِ الا اللہ ہی ہماری نجات کا سرنامہ ہے۔ خدا پرستوں کے چھوٹے سے بھوکے اور پیاسے کاروان نے فرات پر قابض فوج کو ایسی رسوا کن شکست دی کہ آج ان کی حمایت کے لیے نہ قلم اٹھتا ہے، نہ زبان کھلتی ہے مگر یہ کہ رُسوائیاں اسے بھی دامن گیر ہو جاتی ہیں۔ 

امام حسین ع ہی کی کامیابیوں نے یہ ثابت کر دیا کہ اسلام نہ تلوار سے پھیلا ہے اور نہ تلوار کے ذریعے اس کی بقا کا اہتمام کیا گیا ہے۔ اسلام پھیلا بھی صبر و استقامت، ہجرت اور توکل علی اللہ کے ذریعے سے ہے اور باقی بھی انہی ہتھیاروں کو حکمت سے بروئے کار لانے سے ہے۔ اسلام کی سادہ سچائیاں دشمنوں کی گہری سازشوں کے مقابلے میں کارگر ہوگئیں۔ اسی لیے محرم الحرام کو تلوار پر خون کے غالب آجانے کا مہینہ قرار دیا گیا ہے۔
 
ایک طرف حرص و ہوس، دنیا پرستی اور حب جاہ تھی جب کہ دوسری طرف ایثار و قربانی، خدا پرستی اور عشق الٰہی کے جلوے تھے۔ گویا ظلم یزیدیت کی میراث اور ایثار و قربانی حسینیت کا ورثہ ہے۔ امام حسین ع کے مقابل آنے والوں نے شیر خوار بچوں کو تہ تیغ کر کے، مخدرات عصمت کی چادریں لوٹ کر، خاندان عصمت کے خیموں کو آگ لگا کر اور شہیدوں کے لاشوں کو گھوڑوں کی ٹاپوں سے پامال کر کے ثابت کر دیا ان کا مذہب وحشت گری اور ان کا پیشہ ستم پروری ہے۔
امام حسین ع نے انسانی اقدار کا پرچم بلند کیا۔ انھوں نے ظلم و جور کی بالادستی کو قبول کرنے سے انکار کر دیا، انھوں نے راہ حق میں استقامت کے لازوال نقش ابھارے، انھوں نے سچائی کے راستے کو روشن رکھنے کے لیے اپنے لہو سے چراغ جلائے۔ امام حسین ع نے انسانی حریت و آزادی کا سودا کرنے سے انکار کر دیا۔ انھوں نے آنے والی نسلوں کو پیغام دیا کہ
 
چڑھ جائے کٹ کے سر ترا نیزے کی نوک پر
لیکن یزیدیوں کی اطاعت نہ کر قبول
 
محرم الحرام پھر آ پہنچا ہے۔ حسین ع کربلا سے پھر صداقت اور انسانی اہداف کے ساتھ وفا شعاری کا پیغام دے رہے ہیں۔ امام حسین ع کی ہل من ناصر ینصرنا (ہے کوئی میری مدد کرنے والا) کی فریاد پھر گونج رہی ہے۔ یہ آواز کسی ایک نسل یا علاقے کے لیے نہیں، یہ صدا کسی ایک گروہ یا مسلک کے لیے نہیں، یہ پکار کسی ایک فرقے یا مذہب کے لیے نہیں، یہ ہر درد مند دل رکھنے والے کے لیے ہے۔ یہ سچائی کے ہر طالب سے خطاب ہے۔ یہ ندا سات سمندروں کے اس طرف اور قرنوں کے اس پار اتر جانے والی ہے۔ دنیا آج جس طرح سے ظلم وجور سے بھری ہوئی ہے اسے عدل و قسط سے معمور کرنے کے لیے اسی آواز پر لبیک کہنا ہو گی۔
 
ناموں اور کرداروں پر اجارہ داریاں قائم کرنے والے کم ظرف اور عیار ابن الوقتوں نے عظیم انسانی کرداروں کو اپنے اپنے نام الاٹ کروا رکھنے کی سازش کر رکھی ہے۔ نوح ع و ابراہیم ع، موسیٰ ع و عیسیٰ ع، محمد و حسین ع ساری بشریت کا مشترکہ سرمایہ ہیں۔ وہ ساری انسانیت کے عظیم رہبر ہیں۔ کم ظرف پیشہ ور لوگوں نے انھیں مذہبوں، فرقوں اور مسلکوں کے ناموں پر بانٹ رکھا ہے۔ وہ عظیم انسانی راہنما جو ساری انسانیت کو جوڑنے کے لیے آئے، المیہ دیکھیے کہ انہی کو انسانیت کی تقسیم کا عنوان بنا لیا گیا ہے۔ ان حریت پسندوں کو رسموں اور رواجوں کی زنجیریں پہنا دی گئی ہیں۔ 

کہاں ہیں دنیا کے وہ آزاد منش ضمیر جو ساری انسانیت کی آزادی کا خواب دیکھتے ہیں، وہ انسانوں کی آزادی کے ان رہبروں اور پیشواﺅں کے نام پر تقسیم شدہ انسانوں کو پھر سے وحدت و اتحاد کی دعوت دیں، تاکہ ظلم اور حرص و ہوس کی قوتوں سے نجات کے لیے ایک اجتماعی عالمی کوشش کا آغاز کیا جاسکے۔ ایثار و قربانی کے جذبے کے ساتھ۔۔۔ وہی جذیہ جو حسین مظلوم کی میراث ہے اور جس کے نتیجے میں بالآخر خون تلوار پر اپنی حتمی فتح حاصل کرے گا اور انسانی اقتدار کے ایوانوں سے ظلم و جبر کے وارث ہمیشہ کے لیے رخصت ہو جائیں گے اور اقبال کا یہ خواب شرمندہ تعبیر ہو جائے گا:
شب گریزاں ہو گی آخر جلوہ خورشید سے
یہ چمن معمور ہو گا نغمہ توحید سے
خبر کا کوڈ : 116631
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش