0
Saturday 12 May 2012 09:51

ہم کو مٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں

ہم کو مٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں
تحریر: ارشاد حسین ناصر

آج ہم اور ہمارا پاکستان اپنی تاریخ کے مشکل ترین دور میں داخل ہیں۔ ہمارا جینا اور مرنا، ہماری محبت اور ایمان چونکہ ارض وطن پاکستان ہے، پاکستان کی مشکلات، مسائل، خطرات اور اس کے وجود کے خلاف اقدامات یقینی طور پر ہمیں اپنے ساتھ پیش آنے والی مشکلات، مسائل، خطرات اور سازشیں ہماری اپنی مشکلات ہی ہیں اور ہم ان مشکلات، مسائل، خطرات کے حوالے سے اتنے ہی پریشان وفکر مند ہوتے ہیں جیسے ایک حقیقی محب وطن ہوتا ہے۔ ایک محب وطن ملت ہونے کی وجہ سے یہ پریشانی اور فکر ستائے جا رہی ہے کہ ہمارے پیارے پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں بلوچ علیحدگی پسندوں اور فرقہ پرست عالمی دہشتگردوں کا گٹھ جوڑ، وطن کی سلامتی، ترقی، استحکام اور مضبوطی کے لیے عظیم قربانیاں دینے والے ہمارے مکتب کے لوگوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح کاٹ رہا ہے، انہیں ذبح کیا جا رہا ہے، انہیں خون میں نہلایا جا رہا ہے اور انہیں وطن چھوڑ دینے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔
 
مگر اس سازش، ظلم اور تسلسل سے ہونے والی زیادتی کا نوٹس تک نہیں لیا جا رہا۔ انہیں تشفی دینے والا ہی کوئی نہیں، انہیں دلاسہ دینے والا ہی کوئی نہیں، حکمران، عدلیہ، انتظامیہ سب ملی بھگت سے اس ظلم پر چُپ سادھے ہوئے ہیں۔ مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں اور ظلم کی یہ داستان روز بروز دراز ہو رہی ہے اور ملک کے قیمتی ترین خدمت گذار جہالت کے پروردوں اور ملک کے غداروں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ ہم اس مکر میں بھی گھائل ہیں کہ وطن کی سلامتی کے لیے سیاچن، گلتری اور قبائلی علاقہ جات میں جانوں کے نذرانے پیش کرنے والے ارضِ شمال کے سپوتوں کے خاندانوں کو مسافر بسوں سے اُتار کر گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے اور انتظامیہ ٹس سے مَس نہیں ہوتی، اس ظلم پر (سانحہ چلاس و کوہستان) پر ہر آنکھ اشک بار ہوتی ہے اور ذمہ دار ادارے جھوٹی طفل تسلیاں اور دروغ گوئی سے کام لیتے ہوئے وعدے کرنے میں عافیت محسوس کرتے ہیں۔

مگر افسوس کہ حکمران و ذمہ دار ادارے جن کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام اور ملک کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کی نگہبانی کا فریضہ سرانجام دیں خوابِ خرگوش کے مزے لینے میں مصروف ہیں اور ملک کے بےحد حساس جغرافیائی علاقوں میں جہاں کے عوام کی تمام تر ہمدردیاں افواج پاکستان اور سبز ہلالی پرچم کے ساتھ ہیں، کو مجبور کر رہے ہیں کہ وطن کی سلامتی کا راستہ چھوڑ دیں۔ وطن دوستی کا راستہ ترک کر دیں۔ وفاق پاکستان کا راستہ چھوڑ دیں، وفاؤں کا راستہ چھوڑ دیں۔ قائداعظم کا راستہ چھوڑ دیں اور بغاوت کا راستہ اختیار کریں۔ علیحدگی کا راستہ اختیار کریں۔ تخریب کاری، توڑ پھوڑ، آگ و خون ریزی اور گولہ و بارود کا راستہ اختیار کریں اور افواج پاکستان کو نئے محاذ پر اُلجھا دیں، تاکہ پاکستان کمزور ہو اور دشمن ہماری داخلی کمزوری کا فائدہ اُٹھا کر ہم پر مزید حاوی ہو جائے۔
 
مگر آفرین ہے کربلا کے راہیوں پر، جو دشمنان پاکستان اور ذمہ دار اداروں کے تمام تر کرتوتوں اور سازشوں کو سمجھ چکے ہیں اور وطن کے استحکام و سلامتی کو نقصان پہنچانے والوں کی سازشوں میں نہیں آئے اور ملک سے باغیانہ روش اختیار نہیں کی۔۔۔ ایسے ہی پارا چنار کے وطن کی محبت سے سرشار طوری و بنگش (شیعہ) قبائل بھی تسلسل سے سازشوں، زیادتیوں اور ظلم کا شکار چلے آ رہے ہیں اور کسی بھی صورت عزت، غیرت اور شجاعت کا راستہ چھوڑنے پر تیار نہیں ہیں، ملک کے خلاف ہونے والی ہر سازش کے سامنے یہ لوگ پہاڑ کی مانند ڈٹے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔
 
فکر تو ہمیں ڈیرہ اسماعیل خان، کراچی، اندرون سندھ اور پشاور، ہنگو، کوہاٹ کے علاقوں میں اہل تشیع کی ہونے والی ٹارگٹ کلنگ پر بھی ہے۔ جہاں کوئی دن خالی نہیں جاتا، اور مقتل سجتے ہیں، روز بے گناہ اور معصوم جرم محبت علی ع میں گولیوں سے بھون دئیے جاتے ہیں۔ ذمہ دار ادارے بھی انہیں نشانہ بناتے ہیں اور دہشتگردوں پر ہاتھ ڈالنے کے بجائے مظلوموں اور مقتولوں کے خاندانوں کو دھمکایا جاتا ہے یہ روئیے یقیناً غیرت مند اور شجاع قوم کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں، اس سے جوانوں میں بغاوت کے آثار جنم لیتے ہیں۔ استعمار کے نمک خوار بھی یہی چاہتے ہیں کہ ہم ملک اور ریاست کے مقابل آن کھڑے ہوں، جیسے وہ آچکے ہیں اور سکیورٹی اداروں سے لیکر عام عوام کو نشانہ بنانے میں مشغول ہیں۔ مگر ہم اس آزمائش سے کامیاب گذر آئے ہیں اور کوئٹہ، پارا چنار، کرم ایجنسی، گلگت، بلتستان میں آبادی کی کثرت اور اہم دفاعی پوزیشنوں کے باوجود بغاوت کا نعرہ نہیں لگایا۔
 
ہم سمجھتے ہیں کہ ارباب بست و کشاد، ملک کی سلامتی کے ذمہ دار اداروں اور حکمرانوں کو اس پر شکر ادا کرنا چاہیے، ملت تشیع کسی بھی مکتب سے، کسی بھی حوالے سے کم نہیں، اس کو دادِ تحسین دینا چاہیے اور ان کی شکایات کو دور کرنا چاہیے، ان پر ہونے والے ظلم کا راستہ روکنا چاہیے، ان پر ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ کرنا چاہیے، آج وقت ہمارے ہاتھ میں ہے، کل کی خبر نہیں۔ آج وقت عمل ہے، آج گذشتہ 30برس سے ہونے والی مسلسل زیادیتوں کا عروج ہے، اگر آج ان کا تدارک نہ کیا گیا تو خدانخواستہ وقت ہمارے حکمرانوں اور ذمہ دار اداروں کے ہاتھوں میں نہیں رہیگا اور وہ ہاتھ ملتے ہی رہ جائیں گے۔
 
ہم تو زندہ رہیں گے، باقی ہیں باقی رہیں گے، جب تک کہ بقیۃ اللہ (اللہ کا باقی) آ نہیں جاتا اور زمامِ اقتدار اپنے ہاتھ میں لے نہیں لیتا، ہم گولیاں کھا کر، خون دیکر، لاشیں اُٹھا کر، ذبح ہو کر اور ٹکڑوں میں تقسیم ہو کر زندہ ہیں، کسی میں دم نہیں کہ ہمیں ختم کر سکے، ہمیں مٹا سکے۔ ہمیں فتح کر سکے۔ بقول شاعر 
ہم کو مٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں
ہم سے زمانہ خود ہے زمانے سے ہم نہیں
خبر کا کوڈ : 160849
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش