6
0
Thursday 12 Apr 2012 18:15

رقص بسمل اور چلاس

رقص بسمل اور چلاس
تحریر: بہلول بلتی
 
کسی پرندے کا گلا کاٹ کر چھوڑ دیا جائے تو وہ عالم نزع میں پر پھڑپھڑانا شروع کر دیتا ہے، چکرا جاتا ہے، تیزی سے گھومنے لگتا ہے، اچھلنے لگتا ہے، گویا رقص کا سماں پیش کرتا ہے۔ اس کرب و الم اور درد کے ساتھ گھومنے، چکرانے کی حالت کو رقص بسمل کہا جاتا ہے۔ نوے کی دہائی میں افغانستان پر طالبان کا قبضہ ہوا، ملا عمر امیرالمومنین کی کرسی پر براجمان ہوا، خود ساختہ اسلام کے نفاذ پر عمل درآمد شروع ہوا، ابھی افغانستان پر پورا قبضہ نہیں ہوا تھا اور فتوحات کا سلسلہ جاری و ساری تھا، اسی دوران افغانستان کے علاقوں بامیان اور مزار شریف وغیرہ میں موجود شیعہ مسلمانوں کی آبادی انکی نظروں میں کھٹکنے لگتی ہے۔
 
طالبان دہشتگرد ان لوگوں کو جو اللہ کو واحد، رسول ص کو خاتم النبیین، قرآن کو آخری کتاب سمجھتے ہیں اور صوم و صلوٰۃ انجام دیتے ہیں، انبیاء اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں، کافر قرار دیتے ہیں اور ان کے خلاف اعلان جہاد ہوتا ہے۔ شیعہ مسلمانوں نے جب مقاومت اور مزاحمت کی، تو طالبان نے افغانستان میں اس وقت کے شیعہ مجتہد آیت اللہ مزاری سے رابطہ کیا اور انہیں دعوت دی کہ آیئے مل بیٹھنے کے لیے کوئی راہ حل ڈھونڈتے ہیں، مذاکرات کے ذریعے مسائل کو حل کرتے ہیں، آیت اللہ مزاری راضی ہو جاتے ہیں، طالبان ان کے لیے ہیلی کاپٹر بھیجتے ہیں، تاکہ کہیں ان سے مذاکرت ممکن ہو سکیں، مذاکرات کیلئے آیت اللہ مزاری کی آمادگی ایک فطری امر تھا۔ 

ہیلی کاپٹر اڑا، کچھ دیر ہوا میں معلق رہا، اس کے بعد نیچے موجود عوام نے ہیلی کاپٹر سے کوئی چیز گرتی ہوئی دیکھتی ہے۔ لوگ جائے وقوعہ پر پہنچ جاتے ہیں۔ کیا دیکھتے ہیں کہ آیت اللہ مزاری کو شہید کر کے ہیلی سے گرایا گیا ہے۔ کوئی روتا ہے، کوئی چیختا ہے اور کوئی چلاتا ہے۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ چند ہی دنوں بعد خود ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔؟ چند دن گزر جاتے ہیں، اسلام کے روشن چہرے پر لگے اس سیاہ دھبے جسے لوگ عرف عام میں طالبان کہتے ہیں ان پر حملہ آور ہوتے ہیں، ہزاروں کو قتل کرتے ہیں، قتل بھی کرتے تو کوئی بات نہ تھی، لیکن کچھ ایسے غیر انسانی افعال سرانجام دیئے کہ جنہیں بیان کرنے کی بھی ہمت نہیں۔ 

بوڑھے ماں باپ کے سامنے جوان بیٹوں کے سر تن سے جدا کئے جاتے ہیں، بریدہ سروں سے کھیلا جاتا ہے، مزاحمت کرنے والوں کے ہاتھ اور پاؤں کو کاٹ کر زندہ چھوڑ دیا جاتا ہے۔ کچھ جوانوں کے ماتھے پر کیل، کچھ کے ہاتھوں میں میخیں ٹھونک کر درختوں پر لٹکایا جاتا ہے، چند زخمیوں کو پیٹرول پلایا جاتا ہے، کئی لیٹر پیٹرول پلانے کے بعد ان کے منہ پر آگ رکھی جاتی ہے اور ارد گرد موجود لوگ شیعہ کافر کا نعرہ بلند کرتے ہیں، اس زخمی کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے، وہ چکرا جاتا ہے، وہ چیختا ہے اور چلاتا ہے، چند اور درندے آگے بڑھ کر اس کے سر پر مزید پیٹرول گرا دیتے ہیں، مظلوم اچھلتا ہے، کودتا ہے، چاروں طرف سے قہقہے بلند ہوتے ہیں اور یہ وحشی اس رقص بسمل سے لطف اندوز ہوتے ہیں، یہ رقص ایک دو کے ساتھ نہیں درجنوں مظلوموں کے ساتھ پیش آتا ہے، لیکن اس دوران انسانیت خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔

مخدرات کی عصمت دری کی جاتی ہے، بامیان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جاتی ہے۔ فصلوں کو آگ لگا دی جاتی ہے، وہاں کے مال مویشیوں کو یہ کہہ کر کہ کافروں کے مال مویشی ہیں جو کہ نجس ہیں، ذبح کیا جاتا ہے۔ الغرض ظلم و بربریت کی وہ داستانیں رقم ہوتی ہیں کہ جس سے ہلاکو اور چنگیز خان کی روحیں بھی شرم کھائیں۔ افغانستان کے انہی مقامات سے شیعہ عورتوں کو کنیز بنا کر بیچا جاتا ہے اور ہاں کچھ عصمت کی پیکر ایسی بھی تھیں جو زندہ دریا میں کود بھی گئیں، کنووں میں چھلانگ لگا دیں، عمارتوں سے کود گئیں۔ آخر کتنی عورتیں ایسا کر سکتیں۔
 
ان کنیزوں کو پاکستان بھی لایا جاتا ہے۔ ہاں اسی بامیان اور مزار شریف وغیرہ کی شیعہ خواتین کو کنیز بنا کر پختون بیلٹ میں لے جایا جاتا ہے، چند خان اور سردار دوسرے قبائل میں ان عورتوں کو جسے کافروں سے مال غنیمت کے طور پر حاصل شدہ کنیز سمجھتے ہیں، تخفہ کے طور ایک دوسرے کو بھیجتے ہیں۔ جی ہاں یہ کوئی افسانہ نہیں یہ حقیقت ہے۔ بامیان کی چند عورتیں کنیز بن کر اس چلاس اور کوہستان تک پہنچ جاتی ہیں۔ ان میں سے اسی وقت کئی خواتین دریا میں کود جاتی ہیں، کہا جاتا ہے کئی عورتوں کا حافظہ جواب دے گیا اور بیسیوں شیعہ خواتین تقیہ کی حالت میں ہیں۔
 
جیسے ہی چلاس میں مسافروں کی بسوں پر ہزاروں مرد و زن حملہ آور ہوتے ہیں۔ انہی میں سے ایک خاتون کی نظروں کے سامنے جسے اسیر کر کے بامیان سے لایا گیا تھا۔ ایک اور رقص بسمل کا اہتمام ہوتا ہے۔ چلاس میں ان حملہ آوروں کے پاس شاید پٹرول نہیں تھا، ورنہ بامیان کی حقیقی نقشہ کشی ہوتی۔ یہاں پر رقص بسمل کی بزم تو سجائی جاتی ہے لیکن ذرا مختلف انداز میں۔ صرف آگ نہیں لگائی جاتی، باقی سب کچھ ہوتا ہے۔ رقص بسمل کے دوران بامیان میں شیعہ کافر کے نعرے لگائے جاتے تھے اور یہاں بھی، وہاں بھی ہزاروں دہشتگرد مسلح تھے اور یہاں بھی، وہاں بھی عورتیں ساتھ تھیں اور یہاں بھی، وہاں بھی کلہاڑیوں سے سروں کے دو حصے کیے جاتے تھے اور یہاں بھی، وہاں بھی سروں کو تن سے جدا کر کے اچھالا گیا اور یہاں بھی، وہاں بھی قہقہے بلند تھے اور یہاں بھی، وہاں بھی زخمیوں کے سروں پر بڑے بڑے پتھر مارے گئے اور یہاں بھی۔
 
ایک عینی شاہد کا کہنا تھا اس ہزاروں کے اجتماع میں چھوٹے بچے بھی تھے، جن کے ہاتھوں میں چھڑیاں تھیں، بچے شہداء کے خون کے ساتھ کھیل رہے تھے، اور جان کنی کی حالت میں ہچکیاں لیتے، تڑپتے مسافروں کی آنکھوں میں چھڑیاں چباتے اور سریے ٹھونکتے گزر جاتے تھے۔ چند لوگ لاشوں کو اٹھا کر دریا سندھ کی جانب بھی بڑھ رہے تھے۔ ہاں وہاں بامیان میں عورتیں دریا میں اس لیے کود گئیں کہ بھائیوں کے سامنے ان کی عصمت دری نہ ہو۔ یہاں ان درندوں کے ہاتھوں مرنے سے دریا میں کودنے کو سعادت سمجھتے ہوئے بھی چند افراد کود پڑے۔
خبر کا کوڈ : 152515
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
ye ab tk ki sb se dilkhrash colmn he . local kisi akhbar me ye pura chapa he site pr pura nahi he. ending khaob tha. saniha chilas pr sb se active aur ziadah mawad aap k site pr he khuda aap sb ko jaza kahir dain. apki site ne haq ada kia he. asad ali skardu baltistan
ye colmn gilgit bln awr pakistan k qomi akhbarat me b zaroor chapwain.
Germany
En darinda sifat hawano k khelaf shia nation bhrpure tareqay se tayari karay.
Pakistan
is me koi shuk nahi tarikj apne aap ko dohrati he. lakin ye momin ki shan nahi ki wo aik sorahk se kai bar dhsain hme aamadah aur hushyar rehne ki zarorat he is me koi shuk nahi hmara dusman bhot shaqi hn. mumkin he to behloe balti ka id send kren un se kuch batain share krni he ,
Pakistan
jaka allah
allah kre zore qalam aur ziadah
bohat acha
khuda app ko salamat rakhay
ہماری پیشکش