0
Saturday 9 Jan 2010 15:43

یمن میں امریکہ اور سعودی عرب کی مداخلت

یمن میں امریکہ اور سعودی عرب کی مداخلت
 آر اے سید
یمن میں جاری خانہ جنگی اور اس میں امریکہ اور سعودی عرب کی مداخلت کی خبریں کافی عرصے سے میڈیا کی خوراک بنی ہوئی ہیں اور یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ گویا القاعدہ نے اس ملک میں اپنی سرگرمیاں بڑھا دی ہیں۔سعودی عرب کی شاہی حکومت یمن کے ساتھ اپنے تمام تر زمینی اختلافات کے باوجود صنعا حکومت کی فوجی اور مالی حمایت کر رھی ہے۔جب کہ امریکہ القاعدہ کے وجود کے بہانے اس علاقے میں مکمل جارحیت کی راہ ہموار کرتا نظر آ رہا ہے۔افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اسلامی دنیا کو جن مسائل میں الجھا دیا گیا ہے اس کی بنا پر یمن کے لئے امریکہ نے کیا خواب دیکھا ہے اور سعودی عرب اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے درپے ہے۔علاقے کے مسائل میں دلچسپی رکھنے والے ایک تجزیہ کار کے مطابق شمالی و جنوبی یمن 22 مئی 1990ء کو متحد ہوئے۔یہ ایک جمہوری ریاست ہے۔ملک کا سرکاری نام ”الجمہوریہ الیمنیہ“ ہے۔ یہ ملک دنیا کے نقشے میں عرض بلد پر 16 درجے شمال اور طول بلد پر 48 درجے مشرق کے نقطہٴ اتصال کے اردگرد واقع ہے۔اس کا کل رقبہ 527970 مربع کلومیٹر ہے۔رقبے کے اعتبار سے یہ دنیا کا 49 واں بڑا ملک ہے اور آبادی کے لحاظ سے دنیا کا 51 واں ملک ہے۔اس میں 99.9 فیصد مسلمان ہیں۔عرب 97.5 فیصد،افریقی عرب 1.2 فیصد اور دیگر 1.2 فیصد ہیں۔یمن میں فی کس آمدنی 1000 ڈالر ہے۔اس کی سرحدوں کی مجموعی لمبائی 1746 کلومیٹر ہے۔عمان کے ساتھ 288 کلومیٹر اور 1458 کلومیٹر سعودی عرب کی سرحد لگتی ہے جبکہ 1906 کلومیٹر ساحل سمندر ہے۔اس ملک میں دنیا کی بلند ترین چوٹی ”جبل النبی شعیب “بھی واقع ہے۔ یمن کی صنعتی پیداوار میں خام تیل،پیٹرول کی صفائی،تجارتی جہازوں کی مرمت، سوتی کپڑا اور چمڑے کا سامان تیار کیا جاتا ہے۔یمن کی معدنی پیداوار میں سونا،سیسہ،نکل،تانبا، پیٹرولیم،قدرتی گیس،معدنی نمک،کوئلہ اور سنگِ مرمر ہے۔ تیل کے مصدقہ ذخائر 3.72 بلین بیرل اور گیس کے مصدقہ ذخائر 478.6 بلین مکعب میٹر ہیں۔تیل کی پیداوار 387500 بیرل یومیہ ہے۔ملک یمن محل وقوع کے اعتبار سے مشرقِ وسطیٰ میں جزیرہٴ نمائے عرب کے جنوب مغربی کونے پر ہے۔اس کے مشرق میں بحیرہٴ عرب،شمال مشرق میں سلطنت عمان،شمال میں سعودی عرب،مغرب میں بحیرہٴ احمر اور جنوب مغرب میں خلیج عدن واقع ہے۔گویا یمن ”حجاز مقدس “کے ساتھ واقع ہے۔یمن کی اس جغرافیائی پوزیشن اور زیر زمین معدنی ذخائر کے پیش نظر امریکی عزائم کو سجھا جا سکتا ہے اور یہ کوئی ایسا امر نہیں ہے کہ جو ریاض حکومت سے پنہاں ہو۔لیکن اس کے باوجود ایسا ماحول بنانے کی کوشش کی جا رہی کہ امریکہ اس خطے میں بھی محاذ کھول دے۔بظاہر سامراجی قوتیں یہاں نیا محاذ کھول کر ”حرمین شریفین“ کے اردگرد اپنی موجودگی بڑھانے کی کوششوں میں مصروف ہیں تا کہ مسلم دنیا کے روحانی مراکز کے گرد صلیبی حصار قائم کیا جا سکے۔البتہ حرمین شریفین کے گرد گھیرا تنگ کرنے کیلئے امریکہ کی معاونت خود سعودی عرب کی شاہی حکومت کر رہی ہے۔
یمن کی خانہ جنگی میں سعودی عرب کی فوجی مداخلت دراصل اسی امریکی ایجنڈے کا حصہ ہے جس کے تحت امریکہ برطانیہ اور فرانس نے یمن میں واقع اپنے سفارتخانوں کو بند کرنے کا اعلان کر کے میڈیا کے ذریعے اس کا خوب پرچار کیا اور اب اطلاع یہ ہے کہ امریکہ نے اپنا سفارتخانہ دوبارہ کھولدیا ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ سی آئی ا ے کی زہریلی رپورٹوں کی بنیاد پر مغربی ذرائع ابلاغ میں کئی دنوں سے یمن میں القاعدہ کے مراکز کی موجودگی کا پروپیگنڈا بالکل اسی طرح کیا جا رہا ہے جس طرح عراق میں خطرناک کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی کا پروپیگنڈا کیا جا تا رہا۔افغانستان، عراق اور پاکستان کے بعد اب یمن میں القاعدہ کی موجودگی کا شوشہ چھوڑ کر دراصل استعماری طاقتیں عالم اسلام کے خلاف صلیبی جنگ کا دائرہ مزید پھیلا کر عرب دنیا میں اس جنگ کا ایک اور محاذ کھولنا چاہتی ہیں۔امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو اگر یمن سمیت مسلم دنیا میں انتہاء پسندی پر تشویش ہے تو انہیں اس کے بنیادی اسباب پر بھی غور کرنا چاہئے۔کیا یہ حقیقت نہیں مشرق وسطیٰ میں اسرائیل نے مسلمانوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔لیکن اس کا بھی ایک افسوسناک پہلو بعض عرب اور اسلامی ملکوں کا کردار ہے جو غزہ کے بے گناہ شہریوں کی بجائے صہیونی حکومت کو تحفظ فراہم کر رہی ہیں اور مصر کی جانب سے فولادی دیوار کی تعمیر اور عرب اور اسلامی ملکوں کی خاموشی اسکا واضح ثبوت ہے۔
خبر کا کوڈ : 18260
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش