1
0
Monday 3 Sep 2012 11:35

کوئٹہ اور کراچی ميں بدامنی کے واقعات!

کوئٹہ اور کراچی ميں بدامنی کے واقعات!
ہمارے ملک ميں بدقسمتی سے بدامنی اور خونريزی کے ہولناک واقعات روز کا معمول بن گئے ہيں۔ محض زبان، علاقے، مسلک اور سياسی وابستگی کی بنياد پر ٹارگٹ کلنگ اس کی سب سے زيادہ بہيمانہ اور سفاکانہ شکل ہے۔ تاہم ملک کے مختلف حصوں ميں اس نوعيت کی وارداتوں کے مسلسل وقوع پذير ہونے کے باوجود حکومت ان پر قابو پانے ميں مکمل طور پر ناکام ہے اور زبانی جمع خرچ کے سوا کوئی کارکردگی نظر نہيں آتی۔ بلوچستان اور کراچی اس عذاب سے سب سے زيادہ متاثرہ علاقے ہيں۔
 
ہفتے کے روز بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ ميں سات افراد موت کے گھاٹ اتار ديئے گئے۔ ٹارگٹ کلنگ کا پہلا افسوسناک واقعہ کوئٹہ کے علاقے ہزار گنجی ميں اس وقت پيش آيا، جب ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے کچھ لوگ گاڑی ميں سوار جا رہے تھے۔ سبزی منڈی کے قريب دو موٹر سائيکلوں پر سوار نامعلوم مسلح افراد نے ان کی گاڑی پر اندھادھند فائرنگ کر دی، جس کے نتيجے ميں تين افراد موقع پر جاں بحق اور دو اسپتال ميں دم توڑ گئے۔ فائرنگ کا دوسرا واقعہ بھی ہزار گنجی ميں ٹرک اڈے ميں پيش آيا۔ فائرنگ کے پہلے واقعے ميں بچ نکلنے والے دو افراد ٹرک اڈے کی طرف جا رہے تھے کہ مسلح افراد نے ان کا تعاقب کرکے انہيں بھی موت کے منہ ميں دھکيل ديا۔

مشتعل مظاہرين کا کہنا تھا کہ کوئٹہ ميں تسلسل کے ساتھ بے گناہ افراد کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنايا جا رہا ہے، ليکن آج تک ان واقعات کا کوئی بھی ملزم گرفتار نہيں ہوا۔ مظاہرين نے صوبائی حکومت، پوليس اور انتظاميہ کے خلاف نعرے لگائے اور حکومت کو مجرمانہ غفلت کا مرتکب ٹھہرايا، جبکہ ہزارہ ڈيموکريٹک پارٹی کے رہنما عبدالخالق ہزارہ اور چيف آف ہزارہ قبائل سردار سعادت ہزارہ نے واقعے کی شديد الفاظ ميں مذمت کرتے ہوئے ملزمان کی فوری گرفتاري کا مطالبہ کيا اور کوئٹہ شہر ميں شٹر ڈاؤن ہڑتال کی اپيل بھی کی۔
 
تمام مسالک کے درميان اتحاد و يکجہتی کے لئے متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسين کا کہنا بالکل درست ہے کہ ”پاکستان داخلی و بيرونی خطرات ميں گھرا ہوا ہے، ہماري نااتفاقيوں سے دشمنان پاکستان فائدہ اٹھا سکتے ہيں۔ لسانی، ثقافتی اور صوبائی اکائيوں کے درميان يکجہتی کے ساتھ ساتھ مذہبی رواداری اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی وقت کی اہم ترين ضرورت ہے۔ کسی بھی مسلک يا فقہ سے تعلق رکھنے والے بے گناہ مسلمان کا قتل سراسر ظلم اور درندگي ہے۔"
 
متحدہ قومی موومنٹ کے قائد نے علماء، مشائخ اور ذاکرين سے اپيل کی ہے کہ وہ بے گناہ مسلمانوں کی قتل و غارت گری کی روک تھام اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے فروغ اور اتحاد بين المسلمين کے لئے جلد از جلد ايک فورم تشکيل ديں، جس ميں تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام کی نمائندگی ہو۔
 
پچھلے برسوں ميں ملی يکجہتی کونسل کے غير سياسی پليٹ فارم اور اس کے بعد متحدہ مجلس عمل کی شکل ميں دينی جماعتوں کے سياسی اتحاد نے ماضی ميں مسلکی ہم آہنگی کے استحکام ميں نتيجہ خيز کردار ادا کيا ہے۔ يہ امر باعث اطمينان ہے کہ ملی يکجہتی کونسل کی ازسرنو بحالی عمل ميں آچکی ہے اور لاہور ميں 30 اگست کو اس کے ايک اجلاس ميں علماء اور مشائخ کے ايک کنونشن کے انعقاد کا فيصلہ کيا جاچکا ہے، جو اسلام آباد ميں ہوگا۔اميد ہے کہ ملی يکجہتی کونسل کا احياء ان مقاصد کي تکميل کا ذريعہ بنے گا، جن کی جانب ايم کيو ايم کے قائد نے توجہ دلائی ہے۔
 
کراچي ميں بھی حسب معمول ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ ہفتے کے روز بھی جاری رہا اور ايک خاتون سميت 9 افراد اس کے نتيجے ميں موت کے گھاٹ اتار ديئے گئے۔ کراچي ميں اب آٹھ دس افراد کا ہر روز قتل بالکل معمول بن گيا ہے اور صوبائی و مرکزی حکومت، پوليس اور انتظاميہ کے ذمہ داران، شہريوں کے جان و مال کی حفاظت کے حوالے سے کسی تشويش ميں مبتلا دکھائی نہيں ديتے۔

وفاقی وزير داخلہ رحمن ملک ايک طرف خود اپنے دعووں کے مطابق اتنے باخبر رہتے ہيں کہ واردات سے ہفتوں پہلے انہيں دہشت گردوں کی نقل و حرکت اور پروگرام کی اطلاعات مل جاتی ہيں، ليکن انہيں ناکام بنانے اور قانون کے شکنجے ميں لانے ميں وزير داخلہ آج تک کسی نتيجہ خيز کارکردگی کا مظاہرہ نہيں کرسکے۔ وزير داخلہ کے تازہ انکشافات کي رُو سے ”آئندہ دو سے ڈھائی ہفتے پاکستان کے لئے خطرناک ہيں، اس عرصے ميں لاہور، کراچی، کوئٹہ اور خيبر پختونخوا ميں دہشت گردی کے بڑے واقعات ہوسکتے ہيں۔“
 
جناب رحمن ملک نے ملک کے طول و عرض ميں قتل و غارت گری اور اس کی روک تھام ميں اپنی وزارت اور حکومت کی ناکامی کے نتيجے ميں جنم لينے والے سوگوار ماحول ميں بھی اپنی حس ظرافت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمايا کہ تحريک طالبان والے کراچی چھٹياں گزارنے آتے ہيں، وزير داخلہ نے مزيد کہا کہ ”وہ يہاں آکر کيا کرتے ہيں، يہ تفصيلات ميں بعد ميں بتاوں گا۔“ سوال يہ ہے کہ جب وزير داخلہ ملک ميں دہشت گردی کے ذمہ داروں کی نقل و حرکت اور ان کے عزائم اور منصوبوں سے باخبر ہيں تو پھر ان کے چہروں سے نقاب کيوں نہيں اٹھاتے، ان کی گرفتارياں کيوں عمل ميں نہيں آتيں اور انہيں کيفر کردار کو پہنچا کر ملک ميں پائيدار امن کيوں قائم نہيں کيا جاتا؟ 

پاک افغان سرحد سے دہشت گردوں کی ملک ميں آمد کا سلسلہ روکنے ميں آخر کيا رکاوٹ ہے، افغان سرحد عبور کرکے کسی روک ٹوک کے بغير ايک شخص کراچی تک کيسے پہنچ جاتا ہے؟ کيا وزير داخلہ قوم کو محض دہشت گردوں کے کارناموں کی قسط وار کہانياں سنا کر مطمئن کرنا چاہتے ہيں۔ کراچی ميں امن و امان کے قيام کا نسخہ بھی وزير داخلہ نے تجويز کيا ہے۔ ان کے بقول ”کراچي ميں امن کے لئے پيپلز پارٹی اور متحدہ کا اتحاد ضروري ہے۔“
 
وزير داخلہ کا يہ ارشاد اس بنا پر حيرت انگيز ہے کہ يہ دونوں جماعتيں تو پہلے ہي 2008ء سے ايک دوسرے کی اتحادی ہيں۔ پيپلز پارٹی کی حکومت کے قائم رہنے ميں متحدہ قومی موومنٹ کی حمايت کا بڑا حصہ ہے، مرکز اور صوبہ سندھ کی حکومت ميں متحدہ پيپلز پارٹی کے ساتھ ہے۔ اس لئے وزير داخلہ کی جانب سے کراچی ميں امن کے لئے پيپلز پارٹی اور متحدہ کے اتحاد کی بات پوری طرح واضح نہيں ہے۔
 
کيا وزير داخلہ يہ کہنا چاہتے ہيں کہ کراچی ميں امن و امان کی خرابی يعنی مسلسل قتل و غارت گری کا سبب ان دونوں جماعتوں کے ظاہری اتحاد کے باوجود بعض اندرونی اختلافات ہيں۔ اگر ايسا ہے تب بھی قانون کو بہرصورت اپنا کام کرنا چاہئے اور کراچی ميں امن وامان کی خرابی کے ذمہ داروں کو قانون کی گرفت ميں لايا جانا چاہئے۔ خود ان جماعتوں کے ذمہ داروں کی جانب سے بھی ايسے عناصر کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہئے، کيونکہ اہم قومی جماعتوں کے بھرپور تعاون کے بغير ملک کے کسی بھی حصے ميں حقيقی امن اور استحکام کا خواب شرمندہ تعبير نہيں ہوسکتا۔
"روزنامہ جنگ"
خبر کا کوڈ : 192250
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

app quetta may target killing ka notice ley
ہماری پیشکش