4
0
Thursday 23 Aug 2012 16:45

ظالمو، وحشیو، مجھ پہ ایک احسان کردو، کسی ایک شیعہ کے بدلے مجھ کو قربان کردو

ظالمو، وحشیو، مجھ پہ ایک احسان کردو، کسی ایک شیعہ کے بدلے مجھ کو قربان کردو
تحریر: سید عارف مصطفٰی

گلگت جاتی بس کے بے بس مسافروں میں سے کئی کو بظاہر فرقہ وارانہ بنیاد پر چن چن کر گولیوں سے بھون دیا گیا اور بربریت کی بے شمار داستانوں میں پھر ایک اور داستان کا اضافہ ہوگیا۔ پھر سے کئی ابو، کئی بیٹے، کئی بھیا اور کئی سرتاج اپنے ہی خون میں نہلا دیئے گئے، یہ سب، جی ہاں سب کے سب ویسے ہی بہت سے رشتوں اور ذمہ داریوں کی ڈور میں بندھے ہوئے تھے جیسے کہ میں اور آپ، ان کی چوکھٹوں پہ ان کے پیارے ان کے منتظر تھے لیکن اب وہ ان کے ماتھے چوم کر انہیں دائمی الوداع کہیں گے، یہ منظر پہلا نہیں بلکہ اب تو ہمارے قومی کینوس کا سب سے پکا رنگ بن کے ٹہر سا گیا ہے، لیکن کیا یہی ہمارا مقدر ہے کہ ہمارے ٹی وی اسکرین آئے روز، سسکتے مردوں، بین کرتی ماؤں بیٹیوں اور بلکتے بچوں کے مناظر سے بھرے رہیں لیکن ہم کریں تو کیا کریں! مگر کیا یونہی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں؟

یارو، یہ بات بھی کتنی عجیب ہے کہ خود جس مذہب کے نام میں ہی سلامتی دھڑکتی ہے، اس کے ماننے والے آپس ہی میں ایک دوسرے کو سلامتی کے مسائل سے دوچار کئے رکھتے ہیں، یہ کس قدر سفاک حقیقت ہے کہ مذہب اور سیاست دونوں ہی پر ہمارے معاشرے میں سب سے زیادہ لڑائی لڑی جاتی ہے لیکن ان کے بلند اصولوں پر عمل کرنے کی تکلیف، خود اس کے جنگجوؤں میں بھی، کم کم ہی اٹھائی جاتی ہے۔ عدم برداشت کے ایسے ایسے مظاہرے دیکھنے کو ملتے ہیں کہ دین یا سیاست کا اصل پیغام تو دور عام سی عقل کی بات بھی کہیں منہ چھپائے پھرتی ہے، مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ میں مذہب کو صرف مجموعہ عبادات ہی نہیں، ایک بلند مقاصد کےسوشل کنٹریکٹ اور اعلیٰ فلاحی منصوبےکے طور پر بھی پہچانتا ہوں۔

دوستو! میں معلومات میں اضافے کیلئے بہت پھرا ہوں۔ مندروں کی محافل کا بھی حصہ بنا ہوں۔ چرچ سروسز بھی اٹینڈ کی ہیں اور ان کا لٹریچر بھی پڑھا ہے، مغالطہ پیدا کرکے احمدیوں کے گڑھ ربوہ کی سیریں بھی کی ہیں اور ان کا پرچاری مواد بھی خوب پڑھا ہے، پارسیوں کی عبادت گاہ ’’ اگیاری ‘‘ ممنوعہ جگہ ٹہرنے کے سبب وہاں جا تو نہیں سکا لیکن چند پارسی حضرات سے بہت کچھ جاننے اور ’’ علمی سیندھ ‘‘ لگانے میں کامیاب رہا ہوں ( لیکن خدا کا شکر ہے کہ اس دوران اپنے دین سےکبھی ذرا بھی دور نہیں ہوا ) مجھے اس بھاگ دوڑ اور تحقیق سے جو حاصل ہوا اس کا خلاصہ یہ تھا کہ ہر مذہب ( خواہ اس کے ماننے والوں نے اس کی اصل شکل کتنی ہی مسخ کیوں نہ کردی ہو ) بنیادی طور پر انسان میں اچھائیوں کو ابھارنے اور برائیوں کے خاتمے کی ہی بات کرتا ہے۔

خود ذاتی طور پر حنفی العقیدہ ہوں اور میرا جھکاؤ دیوبندیت کی طرف ہے لیکن بڑے چاؤ سے اپنے بریلوی دوستوں کی محافل بھی اٹینڈ کرتا ہوں۔ نہ صرف خود جاتا ہوں بلکہ میرے بیٹے جب کئی دن مسلسل اپنی قریبی مسجد ( جو دیوبندی عقائد کی ہے ) جا چکتے ہیں تو میں خصوصی طور انہیں بریلوی مسجد بھی بھیجتا ہوں۔ مجھے نعتوں اور درود و سلام سے شغف ہے، کافی عرصہ پہلے انگوٹھے بھی چومتا تھا لیکن اذان سے اور نماز کی تکبیر سے پہلے سلام پر تحفظات رکھتا ہوں، محض ’’ غلو ‘‘ کی آڑ لیکر ہر نعت سے گریز کی کوششوں کو میں سخت ناپسند کرتا ہوں۔ مگر ایک طبقے کی جانب سے ہمہ وقت لاؤڈ اسپیکر پہ پُر شور انداز میں وقت کا لحاظ کئے بغیر نعت پڑھتے رہنا اور اس کے ذریعے اہل علاقہ کی قوت سماعت اور اعصاب کے کڑاکے نکالنا بھی میرے لئے سخت ناپسندیدہ امر ہے۔ شب معراج، شب برات اور ایسی دیگر مقدس راتوں پر مسجدوں پر چراغاں سے جی بہت خوش ہوتا ہے، لیکن مزاروں اور قبروں پر اگربتیاں جلانا کسی طور مرغوب نہیں، کسی بھی فرد کے نام پر نذر نیاز کا قائل نہیں، صرف اللہ کے نام پر کھانا پکوا کر صرف مستحقین میں بانٹنے پر یقین رکھتا ہوں۔ تاہم اگر میرا کوئی ملنے والا مسلمان بھائی محبت میں نذر نیاز لیکر آجائے تو اس کی دل شکنی بھی نہیں کرتا، کر ہی نہیں سکتا کیونکہ میرے پیش نظر اس کے والہانہ پن کے سوا اور کچھ رہتا بھی نہیں۔

میرے مذکورہ بالا عقائد صرف میرے اپنے گھر کی حد تک ہیں اور میں ان پر کسی کو مائل کرنے کے مشن پر ہرگز نہیں نکلا رہتا۔ تاہم کہیں کبھی کوئی رائے مانگے تو جو درست سمجھتا ہوں نرم الفاظ میں، جی ہاں نرم الفاظ میں بیان کر دیتا ہوں، دین کے حوالے سے میرا ایک ذاتی سا نظریہ ہے، کہ میں دین کو ایک بڑی چھت کے طور پر لیتا ہوں کہ جو 5 بنیادی ارکان اسلام کے ستونوں پر استوار ہے اور جس کے نیچے عقائد کے کمرے بنے ہوئے ہیں یا بنا لئے گئے ہیں اور اگر کوئی کمرے والا اپنے کمرے کی آراستگی اپنے فہم اور ذوق کے مطابق کرتا ہے تو مجموعی عمارت کے استحکام پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا لیکن اگر کوئی ستونوں کو ہاتھ لگاتا ہے یعنی بنیادی ارکان ( بشمول ختم نبوتؐ ) میں ہیر پھیر کرتا ہے۔ تو پھر وہ پوری عمارت کی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیتا ہے اور کسی کو ایسا کرنے کی اجازت کوئی بھی نہیں دے سکتا اور نہ ہی کبھی دی ہے۔

یہ جو آئے دن مذہب کے نام پر خون بہایا جا رہا ہے اور زیادہ تر فقہ جعفریہ کے لوگ چن چن کے مارے جارہے ہیں، میں اسے بڑی طاقتوں کے ایک ’’ گریٹ گیم ‘‘ کا حصہ سمجھتا ہوں۔ اس کھیل میں یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ دونوں فرقوں کے لوگ برابر سے مارے جائیں کیونکہ پھر اس ’’ مساوات ‘‘ سے آگ تو بھڑکنے سے رہی۔ ان کی تو حکمت عملی ہی یہ ہے کہ کم تعداد والے فرقے کے لوگ زیادہ تعداد میں نشانہ بنانے سے نفرتوں کے الاؤ جلد اور بڑی دور تک بھڑکائے جاسکتے ہیں، یہاں یہ بھی واضح کردوں کہ نظریاتی طور میرے اور اہل تشیع کے درمیان خاصا بڑا تفاوت ہے جس کو سمجھنے کیلئے صرف اتنا کہنا کافی ہے کہ صحابہ سے ذرا سی بھی نفرت کرنے والے کو میں جہنم کا ایندھن گردانتا ہوں اور میں خلفائے راشدین کی خلافتی ترتیب کو ان کے مراتب کی آسمانی تدبیر سمجھتا ہوں، ہاں تو بات ہورہی تھی وحشت کے خونی کھیل کی، تو ایک بات البتہ اطمینان کی یہ ہے کہ دونوں طرف کے لوگ اب اس خونی کھیل کی حقیقت کو سمجھنے لگے ہیں اس لئے اب تک ویسا تباہ کن ردعمل دیکھنے میں نہیں آیا جیسا کہ ان طاقتوں کو توقع تھی۔

صاحبو مگر کیا ردعمل نہ ہونے کا اطمینان کافی ہے؟ ہرگز نہیں یہ سوال تو پھر بھی وہیں ہے کہ شقاوت کا یہ خونی کھیل آخرکب تک کھیلا جائے گا؟ یقینی طور پر اس کی بڑھوتری میں انتظامیہ کی نالائقی بہت نمایاں ہے۔ کہیں تعصب کا تاؤ کھا کر، کہیں رشوت کا مال کھا کر اور کہیں جان کا خوف کھا کر تفتیشی رپورٹ کو، جان بوجھ کر حکومتی اہلکار اتنا ہلکا بناتے ہیں یا اتنی سنگین غلطیوں کے ساتھ مرتب کرتے ہیں کہ وہ عدالت میں قانونی سطح پر اور وکلاء کی موشگافیوں کے سامنے کہیں ٹہرتی ہی نہیں۔ مزید افسوس کی بات یہ ہےکہ حکومت کی اس شدید ناکامی پر فیصل رضا عابدی جیسے ٹاؤٹ، بجائے اس کے کہ ایسے ذلیل اہلکاروں کو الٹا ٹانگنے کا اہتمام کریں، عدلیہ پر الزام دھرنے ہی کو مسئلے کا حل گردانتے ہیں۔ یوں یہ مسئلہ قانونی طور پر تو ناقابل حل ہوکر رہ گیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہےکہ اس الزام کو ایسے ہی نہ جانے دیا جائے، بلکہ نیک نام لوگوں پر مشتمل ایک قابل اعتماد تحقیقاتی کمیشن بالضرور تشکیل دیا جائے جو دیر اندیر اس کی چھان بین کرکے اپنی بےلاگ رپورٹ پیش کرے اور اسے عام کیا جائے۔

عام آدمی بیچارہ مگر کیا کرے، اگر وہ بے وسیلہ و بے طاقت ہے تو کیا وقفے وقفے سے اسی طرح خاک و خون میں تڑپایا جاتا رہے۔ مارنے والوں کو کیا یہ نہیں معلوم کے وہ کسی فرقے کی پوری تعداد کو تو کبھی نہیں مار سکتے تو پھر اس مشِق ستم کا کیا حاصل۔ ہم جیسے لوگ جو قلم کے مزدور ہیں ( اور میں تو قطعی فری لانس صحافی ہوں ) ان معاملات پر کیا اسی طرح لکھتے رہنے کے سوا اور کچھ نہیں کرسکتے، دیگر قلم کار اس کا کیا جواب دینگے، مجھے اس سے کوئی غرض نہیں۔ میرا ضمیر جو مجھ سے کہہ رہا ہے وہ یہ ہے کہ میں اب ان دہشت کے سوداگروں سے کھل کر بات کر ہی لوں۔

تو سن لو، غور سے سن لو، نفرت کے دیوتا کے پجاریو، میں خود سے بقائمی ہوش و حواس یہ کہہ رہا ہوں کہ اگر جب آئندہ کسی شیعہ بھائی کو مارنے نکلو تو گنتی میں ایک کی تعداد کم کرکے مجھے مار جانا لیکن تمہیں اپنی سب سے زیادہ پیاری ہستی اور اپنی مردانگی کی قسم ہے کہ مارنے سے پہلے مجھے نام لیکر بتانا کہ تم کس رضوی، کاظمی یا نقوی کی جگہ مجھے مار رہے ہو۔ اس سے مرتے ہوئے مجھے یہ اطمینان تو نصیب ہوگا کہ میں نے ایک انسان کو بچا لیا اور جس طرح ایک انسان کو مارنا کل انسانیت کو مارنے کے مترادف ہے اسی طرح ایک انسان کو بچانے پر مجھے تمام انسانیت کو بچانےکا اجر تو یقینی طور پر مل کر رہے گا۔ بس لالچ یہ ہے کہ میرا نامہ اعمال میرے داہنے ہاتھ میں مل جائے اور شفاعت رسولؐ ملے تو محنت وصول ہو جائے۔
خبر کا کوڈ : 189496
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
ye sab kuch kahne ke liye apny aqeede ka izhar karna zarori nahi r ha.kalam kar jab kalam uthata ha to us ka kalam kisi mazhab ki taraf melan nahi rakhta.hamesha tahreer me apna maqsad mad e nazar rakhta ha.or ab waqt ha kah ham jazbat se nikal kar haqeeqt pe bat karain.kisi rizvi or kaazmi ki jaga aap mar jain to next time to usi ki bari aa jay gi.agar aap ke mar jany se mamla hal ho jay to theek lakin aap ko b maloom ha kah mamla hal nahi ho ga.lehaza zara jazbati pan se kam lene ki bajay haqeeqat ki taraf aa kar kuch is se acha likhain.thanx
Pakistan
ماشاء اللہ اجرکم علی اللہ
یہ آپ کے خون کی پاکیزگی ہے جو آپ کے قلم کے ذریعے ظاہر ہو گئی ہے۔
Tehreer ka maqsad sirf yeh hai keh..... . . .
oh talbano,sipah sahaba walon,lashkar e jhangvi walon tum theek nahi kr rahey bhala aisa krney se dunya k toul o arz me phailey howey shion ko khatam kiya ja sakta hai? Kabhi nahi! Pher aisa krne ka kiya faida tum yazidi...! yazidiyat ko aur badnaam kr rahey ho aur abdul wahab najdi ko bhi aisa krney se tumharey makrooh chehry aur khofnaak ho rahey hain is badnami se to behtar hai keh tum mujey mar do lekan (me ne äpney aqeedey btaa díye haáäíñ!!!!????) khoon to abo lahab k bhi hashmi tha
~>Mere khiyaat me ahl e aqal k liye itna kafi hai
United Kingdom
.
SHAH SB/VERY NICE . However, I differ with you on "Azad Adlia".
ہماری پیشکش