0
Monday 10 Sep 2012 10:39

بے بسی کا سبب تمہاری کمزوری ہے

بے بسی کا سبب تمہاری کمزوری ہے
تحریر: سید اسد عباس تقوی 

گزشتہ دنوں اسلام ٹائمز پر کسی صاحب نے ہزارہ اور شیعہ ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی۔ رپورٹ شائع کرنے والے صاحب کا درد تھا کہ کوئٹہ میں آئے روز ہزارہ قوم کے افراد کو گولیوں کا نشانہ بنا دیا جاتا ہے اور حکومت ہے کہ ٹس سے مس نہیں ہوتی۔ رپورٹ لکھنے والے کا خیال ہے کہ ایک پر اسرار بے بسی ہے، جس نے سب کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ بے بسی ہے ضرور مگر یکطرفہ نہیں بلکہ دو طرفہ ہے۔ پاکستان کے گزشتہ ایک دہائی کے حالات کس سے پوشیدہ ہیں۔ کونسا ایسا حکومتی اور فوجی ادارہ ہے جو دہشتگردوں کے حملوں سے محفوظ ہو۔ کیا دہشتگردوں نے پولیس اور خفیہ اداروں کو بخشا۔؟

ہاں مگر ایک فرق ہے کہ پاکستان کی حکومتی مشینری اپنے تمام تر وسائل کے ساتھ ان دہشتگردوں سے برسر پیکار ہے۔ وہ ایک جگہ حملہ کرتے ہیں تو ملک کے سکیورٹی ادارے اس واقعے کے پس پردہ عناصر کا کھوج لگاتے لگاتے دہشتگردوں کے ایک بہت بڑے گروہ تک پہنچ جاتے ہیں اور پھر انھیں تہس نہس کر دیتے ہیں۔ مگر تم ہو کہ فقط قتل ہونا تمہارا کام ہے، نہ تو تم نے کبھی دہشتگرد مارے، نہ کبھی ان کی کھوج لگائی اور وہ ہیں، کہ تمھیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر مارتے ہیں۔ تمھارے شناختی کارڈ اور کمروں پر زنجیر کے زخموں کے نشانات دیکھ کر تمھیں گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے۔ صبر یوں خاموشی سے ذبح ہونے کا نام نہیں، جو تم نے اپنا وطیرہ بنا لیا ہے۔ پاکستان کے حکومتی اداروں سے توقع کہ وہ تمھاری حفاظت کریں گے، ایک عبس خیال اور وہم ہے۔ کروڑوں کی آبادی میں ہزاروں پولیس والے اور خفیہ اداروں کے اہلکار آخر کہاں تک پاکستانی شہریوں کو تحفط فراہم کریں۔ فوج کس کس محاذ پر لڑے۔ ایک ٹھکانے کا کھوج لگتا ہے تو دوسرا وجود میں آجاتا ہے۔

خدا کا قانون اور ملک کا آئین ہر انسان کو اپنی حفاظت کی اجازت دیتا ہے، بلکہ مسلمان پر تو اپنی جان کی حفاظت واجب ہے۔ تم دہشتگردوں کے ٹھکانوں پر حملہ نہیں کرسکتے تو کم از کم ملک کے قوانین کی روشنی میں اپنی اور اپنے گھر والوں کی حفاظت تو کرسکتے ہو۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ اگر گلگت جانے والی بسوں میں ایک بھی لائسنس یافتہ مسلح شیعہ ہوتا تو کیا حالات کی نوعیت ایسی ہی ہوتی جیسی اب ہوئی۔ میں نے تو سنا ہے کہ ان مارے جانے والے مسافروں میں سکردو کے ایک نوجوان نے دہشتگردوں سے پتھروں مکوں اور دانتوں سے لڑائی کی۔ اگر اس مسافر کے پاس حکومت پاکستان کا جاری کردہ لائسنس یافتہ اسلحہ ہوتا تو وہ یقیناً اس کا استعمال کرتا اور مرنے والوں میں کچھ دہشتگرد بھی ہوتے۔ 

دہشتگردوں کو بھی خبر ہوتی کہ گاجر مولی نہیں انسان ہیں، جو مسلح بھی ہو سکتے ہیں اور گولی کے جواب میں گولی بھی آ سکتی ہے۔ میرے اس پیرے سے قطعاً یہ مراد نہیں کہ میں عسکریت پسندی یا اسلحے کے پھیلاﺅ کی بات کر رہا ہوں۔ ان سطور کا وہی مقصد ہے جو ان کے ظاہر سے عیاں ہے، جو زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر بیان کیا گیا۔ یوں بھی دنیا بھر میں ہر ملک اپنے شہریوں کو اپنی حفاظت کے لیے اسلحہ لائسنس جاری کرتا ہے، جن کا مقصد ان کو لائبریریوں میں سجا کر رکھنا نہیں بلکہ اپنی حفاظت کے لیے استعمال کرنا ہوتا ہے۔

ہمیں معلوم ہے کہ دہشتگردوں کے یہ ٹھکانے اور ان کی ٹولیاں اس زہر کے اثرات ہیں جو اسّی کی دہائی سے پاکستانی نوجوانوں کے ذہنوں میں انڈیلا جا رہا ہے۔ پھر اس زہر کی اسلحہ، بارود اور عسکری تربیت کے ذریعے رنگائی کی گئی اور آج یہ ایک عفریت کی صورت میں معاشرے کو نگلنے میں مصروف ہے۔ دہشتگردوں سے اگرچہ کسی بھی قسم کی ہمدردی نہیں کی جانی چاہیے، تاہم ان ناپختہ ذہنوں کو جس ڈگر پر ڈالا گیا، وہ اسے ہی حقیقی راستہ جان کر اس پر عمل پیرا ہیں۔ ان کی نظر میں حکومت پاکستان اسلام کے منافی حکومت ہے، وہ سمجھتے ہیں پاکستانی افواج ان کے حالیہ دشمن اور سابقہ تربیت کار امریکہ کی اتحادی ہیں، ان کی نظر میں تم یعنی شیعہ دنیا کی بدترین مخلوق ہو، جو اسلام کو تباہ برباد کرنے کے لیے وجود میں لائی گئی۔ اس سلسلے میں وہ تمھاری عادات و اطوار اور رسوم و رواج کو غیر اسلامی قرار دے کر بطور حوالہ پیش کرتے ہیں۔

کچھ ذہن، عمل اور اعدام کی جانب بڑھ جاتے ہیں جبکہ بقیہ اس زہر کو مزید پھیلانے میں سرگرم ہو جاتے ہیں۔ یوٹیوب، فیس بک اور دیگر سوشل نیٹ ورکس پر شیعہ کے بارے میں اپ لوڈ کی جانے والی ویڈیوز اور پیغامات میری اس بات کا ثبوت ہیں۔ دور کیوں جاتے ہیں اپنے اردگرد کسی دین دار اور پڑھے لکھے سنی نوجوان سے بات کرکے دیکھ لیں، آپ کو شیعہ کے بارے میں وہ وہ خبریں اور حقائق ملیں گے جو شیعہ ہونے کے باوجود آپ کو معلوم نہیں ہیں۔

ان باتوں میں کچھ حقیقت ہوتی ہے یا نہیں؟ کیا کسی ایک جاہل انسان کے عمل کو پوری قوم کے سر تھونپنا چاہیے یا نہیں؟ اصل شیعہ نظریات کیا ہیں؟ کیا شیعہ انسان نہیں ہوتے۔؟ جیسے سوالات جو اس زہر کا مشاہدہ یا مطالعہ کرنے والے ہر ذی شعور انسان کو کرنے چاہیں، نہ جانے کہاں چھپ کر بیٹھ رہتے ہیں۔ اچھا بھلا پڑھا لکھا انسان جوش عقیدت میں شیعت کو شجرہ ممنوعہ سمجھنا شروع کر دیتا ہے۔ کسی نے کہا متعہ زنا کو عام کرنے کی کوشش ہے تو بلا تحقیق مان لیا، کسی نے کہا شیعہ محرم کی نیاز میں سنی بچے کا خون شامل کرتے ہیں تو کچھ نے دیکھے سنے بغیر یقین کر لیا۔
 
کسی نے کہا شیعہ کے پاس ایسا قرآن ہے جس کے چالیس پارے ہیں تو نہ سوچا کہ وہ قرآن ہمیں بھی تو نظر آنا چاہیے تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور نہ جانے کتنی ہی ایسی باتیں جن کا بیان کرنا اس کالم کی بساط سے باہر اور اخلاقی تقاضوں کے منافی ہے، کو شیعت کا نام دے کر سنی نوجوانوں کے ذہنوں میں اتارا جاتا ہے۔ اگر کوئی ثبوت نہ بچے تو تقیہ کا حوالہ دے کر بات کو گول مول کر دیا کہ شیعہ تقیہ کے قائل ہیں، جو ایک طرح کا جھوٹ ہے، یعنی شیعہ کبھی سچ نہیں بولے گا۔

میرا مقصد مسلکی مسائل کو ہوا دینا نہیں، بلکہ ان زمینی حقائق کا بیان ہے، جو آج فرقہ واریت کے عفریت کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ دہشتگردی اور فرقہ واریت کے ان واقعات میں بیرونی ہاتھ کا تاثر درست ہے، تاہم جب تک ایندھن میسر نہ ہو، اس وقت تک کسی بھی ٹیکنالوجی سے لیس گاڑی کو چلانا ممکن نہیں۔ امریکہ، برطانیہ، ہندوستان اور اسرائیل جو پاکستان کے وجود کے درپے ہیں، چاہے لاکھ کوشش کرلیں، زہر آلود ذہن کے بغیر ان کا کوئی بھی منصوبہ کسی طور بھی پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور ملک کے دیگر محب وطن طبقات دہشتگردی کے اس عفریت کو قابو کرنے کے لیے ایمرجنسی بنیادوں پر سر جوڑ کر بیٹھیں اور حقائق کے مدنظر کوئی قابل عمل حل نکالیں۔ لوڈشیڈنگ کا مسئلہ، این آر او کا مسئلہ، بلدیاتی انتخابات کا مسئلہ، معیشت کے مسائل سب اپنی جگہ اہم ہیں، تاہم جب تک ان تمام مسائل کی ماں دہشتگردی اور فرقہ واریت پر غور و فکر کے لیے تمام متاثرین کو اکٹھا نہیں کیا جاتا اور ان سے اس سلسلے میں مشاورت نہیں کی جاتی، اس وقت تک فائر فائٹنگ یعنی سکیورٹی اداروں کے ذریعے اس مسئلہ پر قابو پانے سے کوئی فائدہ نہیں۔ فائر فائیٹر ظاہری آگ کو بھجا سکتا ہے، وقتی طور پر ماحول کو پر سکون کر سکتا ہے، جبکہ زہر آلود معاشرے کو پاک کرنا فائر فائیٹر کا نہیں بلکہ طب اور جراحت کا کام ہے۔
خبر کا کوڈ : 194095
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش