0
Sunday 9 Sep 2012 09:56

برہنہ بےبسی اور ایک اجنبی لڑکا

برہنہ بےبسی اور ایک اجنبی لڑکا

یکم ستمبر 2012ء کی دوپہر کے ستمگر لمحات ایک بار پھر ہزارہ مسلمانوں پر ہلاکت خیز بجلی بن کر گرے۔ ایک بار پھر کئی معصوموں کی لاشیں‌ زمین پر گریں۔ ایک بار پھر بلوچستان کے دارالحکومت کی سڑکیں بے گناہ انسانی خون سے رنگین ہو گئیں۔ ایک بار پھر قاتل فرار ہونے اور چھپنے میں کامیاب ہوگئے۔ ایک بار پھر صوبائی اور وفاقی حکومت کے حکمران زبانی کلامی اس خونیں سانحہ کی مذمت کرکے خاموش ہوگئے۔ یکم ستمبر کی دوپہر کوئٹہ کے علاقے ہزار گنجی کی سبزی منڈی سے ہزارہ برادری کے لوگ پھل اور سبزیاں خرید کر اپنے علاقے کو لوٹ رہے تھے کہ ناگہان قاتل نمودار ہوئے۔ گولیاں برسائیں اور ہوا ہوگئے۔ یہ ٹارگٹ کلنگ تھی، جس کا ہدف ہزارہ نوجوان بنے۔

پلک جھپکتے ہی بےگناہ افراد کے بے روح بدن کٹے ہوئے تنوں کی مانند زمین پر بکھرے پڑے تھے۔ یہ خون ریز واقعہ اپنی نوعیت کا پہلا سانحہ نہیں، جس میں ہزارہ مسلمان جو ایک خاص مسلک کے پیروکار ہیں، قتل عام کا شکار ہوئے ہیں۔ کوئی نہیں جانتا اور ہماری ریاست کے حکام غالباً جاننا بھی نہیں چاہتے کہ اس خونریز المیے سے قبل اس مسلک کے حامل کتنے ہی لوگوں کو گولیوں سے اڑایا گیا۔ ایک پراسرار بےبسی ہے، جس نے سب کو گرفت میں لے رکھا ہے۔ ایسے میں ہمیں محمد حنیف صاحب کی لکھی گئی ایک تازہ سچی کہانی یاد آرہی ہے، جس میں اس بےکسی کو الفاظ کی شکل میں مجسم کر دیا گیا ہے اور اس سے پہلے کے ہم ہزارہ مسلمانوں کے بارے میں یہ دل دہلا دینے والی کہانی پڑھیں، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ محمد حنیف کو بھی پہلے یاد کر لیا جائے۔

اڑتالیس سالہ محمد حنیف صاحب اوکاڑہ میں پیدا ہوئے۔ پاکستان ائیر فورس اکیڈمی سے وہ پائیلٹ بن کر نکلے، لیکن جنگی جہاز اڑانے میں‌ دل نہ لگا۔ فوراً اس سے دامن چھڑا کر صحافت کے میدان میں اترے۔ آغاز میں‌ کراچی سے شائع ہونے والے ماہنامہ انگریزی جریدے "نیولائن" سے وابستہ ہوئے۔ قلم رواں ہوا اور اسکا اعتبار بھی جمنے لگا تو امریکہ کے ممتاز اخبار "واشنگٹن پوسٹ" اور بھارت کے نمایاں ترین نیوز میگزین "انڈیا ٹو ڈے"‌ میں بھی ان کی تحریریں شائع ہو کر شہرت حاصل کرنے لگیں۔ اسی دوران انہوں نے انگلستان کی "یونیورسٹی آف ایسٹ ان جلیا"‌ سے بھی تعلیم حاصل کی۔ بی بی سی میں ملازمت اختیار کی اور پھر رفتہ رفتہ بی بی سی اردو سروس کے سربراہ بن گئے۔

صحافت کے ساتھ ساتھ وہ ڈرامہ نگاری اور ناول نویسی کے میدان میں بھی رواں ہوگئے۔ ان کے تحریر کردہ اسٹیج ڈرامے The Director's Wife نے لندن میں دھوم مچا دی۔ گزشتہ برس انہوں نے Our Lady of Alice Blatti کے نام سے ایک نیا ناول لکھا، جس کی بازگشت ہمیں اب بھی چاروں طرف سنائی دے رہی ہے۔ محمد حنیف صاحب کوئٹہ میں بسنے والے مظلوم ہزارہ مسلمانوں کے ایک بچے سے ملے۔ اُس کی کہانی سنی، خود بھی خون کے آنسو روئے اور ہمیں بھی اداس کر گئے ہیں۔ محمد حنیف لکھتے ہیں "اس سال کے آغاز میں میں ایک چودہ سالہ ہزارہ لڑکے سے کراچی سے بینکاک جانے والی ایک پرواز کے دوران ملا۔ مذاق مستی کے موڈ میں پاکستانی تاجروں کا ایک گروہ اس لڑکے پر چینی زبان آزمانے کی کوشش کرنے لگا۔ لڑکے نے پریشان ہوکر مجھے کہا کہ یہ لوگ کونسی زبان بول رہے ہیں؟ میں نے احتیاط کے ساتھ اس گروہ کو بتایا کہ یہ لڑکا پاکستانی ہے۔ 

تاجر حیران رہ گئے کہ چینی نظر آنے والا یہ بچہ روانی کے ساتھ اردو کیسے بول لیتا ہے؟‌ کچھ دیر بعد انہوں نے ہمیں اکیلا چھوڈ دیا۔ میں نے لڑکے سے پوچھا اکیلے ہی چھٹیوں پر جا رہے ہو؟ میرے سوال پر اس نے کہا "میں نویں جماعت میں‌ ہوں۔" وہ خود کو بچہ نہیں کہلوانا چاہتا تھا۔ "تو تم اسکول کیوں نہیں‌ جاتے؟" میں نے پوچھا۔ پھر جو کہانی اس نے سنائی، وہ میرے لئے نئی نہیں تھی۔ تاہم ایک بچے کے نقطہ نظر سے میں نے پہلی بار سنی تھی۔ اس نے کہا "میرے ابو کچھ عرصے سے گھر میں ہم سے عجیب طرح کا برتاؤ کر رہے ہیں۔" اس نے دھیمی آواز کے ساتھ بتایا کہ کوئٹہ کی سریاب روڈ پر ان کی ایک بہت بڑی دکان ہے۔ پہلے ابا وہاں روز جایا کرتے تھے، تاہم اب وہ زیادہ تر گھر میں ہی رہتے ہیں۔‘‘
 
لڑکے نے بتایا کہ پہلے ابو نے مجھے اسکول جانے سے روک دیا۔ پھر باہر جانے پر بھی پابندی لگا دی اور پھر انہوں نے مجھے بتایا کہ میں بینکاک جا رہا ہوں۔ اُس لڑکے کو اس بات کا اندازہ نہ تھا کہ اسکی ہزارہ مسلمان برادری کس قسم کے سنگین حالات کا سامنا کر رہی ہے۔ اس کے والد کوئٹہ کے ان تاجروں میں سے ایک ہیں جنہیں اپنے کام پر جا کر مر جانے یا گھر پر رہ کر زندہ رہنے کے بیچ انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ لڑکے کو اس بات پر یقین تھا کہ اس کے والد کچھ عجیب طرح سے برتاؤ کر رہے تھے۔ میں نے اس لڑکے سے پوچھا کہ کیا تم پہلے کبھی بینکاک جا چکے ہو اور تمہارے خاندان کا کوئی فرد وہاں موجود ہے۔؟ 

اس نے سر ہلاتے ہوئے جواب دیا "نہیں میں کبھی کہیں نہیں گیا۔ میری ساری بہنیں کوئٹہ میں ہیں اور میں انکا اکلوتا بھائی ہوں۔‘‘ میں بینکاک میں انکل مرزا کے ساتھ رہنے جا رہا ہوں۔ کچھ دیر بعد پتہ چلا کہ انکل مرزا انکے خاندانی دوست ہیں۔ میں یہ بھی تصور نہیں کر پایا کہ اس بچے کی بینکاک میں زندگی کیسے ہوگی۔ محمد حنیف مزید لکھتے ہیں "رواں سال ہزارہ برداری کے ایک رہنماء عبدالقیوم چنگیزی میتیں اٹھانے کے خوف سے مجھے کہنے لگے۔ "وہ حکومت کو ایک مشورہ دینے والے ہیں کہ ان کی تمام جائیداد، ان کا گھر، کاروبار، دکانیں اور تمام جمع پونجھی لیکر حکومت انہیں کسی جہاز میں بٹھا دے اور کسی ایسے ملک بھیج دے جو انہیں قبول کرنے کو تیار ہو۔‘‘

عالمی شہرت یافتہ ناول نگار، ڈرامہ نویس اور صحافی محمد حنیف کی لکھی گئی یہ دل شکن کہانی، جو اگست 2012ء کے وسط میں ایک انگریزی معاصر میں شائع ہوئی ہے، پڑھ کر بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بلوچستان میں مقیم ہزارہ مسلمان برادری کس طرح کے بے پناہ خوف اور کرب کا شکار ہے۔ ان پر آئے روز قاتلانہ حملوں نے ان کی امیدوں اور حوصلوں کے چراغ بجھا دیئے ہیں۔ اچانک نمودار ہونے والے قاتلوں کا خوف ان کے دل و دماغ میں برف کی قلم بن کر بیٹھ گیا ہے۔ گویا اپنے وطن میں رہتے ہوئے وہ اجنبی بنا دیئے گئے ہیں۔ بینکاک روانہ ہونے والے لڑکے کی کہانی سے ہم یہ بھی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہزارہ مسلمان اپنی اولاد کو محفوظ رکھنے کیلئے کیا کیا پاپڑ بیلنے پر مجبور ہیں۔

ہم بھارت میں آسامی اور برما میں روہنگیا مسلمانوں‌ کی مظلومیت پر آنسو بہا رہے ہیں۔ اُن کی بے بسی پر ہم بہت پریشان ہیں لیکن حیرت ہے کہ ہمیں اپنے ملک کی ہزارہ برادری کے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم نظر آرہے ہیں، نہ اُن کا مسلسل بہتا ہوا خون ہمارے دل نرم کر رہا ہے۔ کیا کوئی اس کی وجہ بتا سکتا ہے؟

خبر کا کوڈ : 193721
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش