0
Wednesday 3 Apr 2013 11:30

انتخابات 2013ء، سیاسی اتحاد غائب

انتخابات 2013ء، سیاسی اتحاد غائب

تحریر: ابن آدم راجپوت

پاکستان کی تاریخ کے شاید یہ پہلے عام انتخابات ہیں کہ جس میں سیاسی جماعتوں کے باقاعدہ اتحاد تشکیل پائے ہیں اور نہ ہی الیکشن کمیشن کے پاس کوئی رجسٹرڈ ہے۔ سوائے چند دیوبندی اور وہابی جماعتوں کے متحدہ دینی محاذ کے برائے نام اتحاد کے، جس میں کالعدم سپاہ صحابہ کو مولانا سمیع الحق نے اپنی چھتری کے نیچے لے لیا ہے۔ دراصل یہ بھی ایک اتحاد نہیں بلکہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہی ہے، اس وقت ملکی سطح میں تین پارٹیاں، پیپلز پارٹی مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف انتخابی میدان میں اکیلے وارد ہوچکی ہیں اور ان کے ساتھ کوئی اتحاد موجود نہیں ہے۔ تینوں جماعتوں نے تقریباً تمام سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کر دہئے ہیں، اور ٹکٹیں ابھی نہیں دیں کہ اس کا فیصلہ بعد میں کیا جائے گا۔ 

مزے کی بات یہ ہے کہ بڑی جماعتیں صرف سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی خواہشمند ہیں، تاکہ ان کا ووٹ بہتر ہو جائے، ورنہ انہیں معلوم ہے کہ چھوٹی جماعتیں خاص طور پر مذہبی جماعتیں آپس میں اتحاد نہ ہونے کی وجہ سے تنہا کھڑی ہیں کہ انہیں کوئی تو اپنے ساتھ ملائے، تاکہ ساکھ برقرار رکھی جا سکے۔ پیپلز پارٹی نے سنی اتحاد کونسل اور جمعیت علمائے پاکستان نیازی گروپ سے اتحاد کا اعلان تو کیا، مگر اسے کوئی باقاعدہ شکل نہیں دی، جس کی وجہ سے سنی اتحاد کونسل نے اپنے انتخابی نشان پر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ 
پیپلز پارٹی نے ایک کاغذی تنظیم آل پاکستان شیعہ پارٹیز فیڈریشن کے رہنماوں سے بھی ملاقات کی ہے، مگر کوئی اتحاد کی بات نہیں کی۔ صرف تعاون حاصل کرنے کا کہا ہے۔ تحریک جعفریہ کے سیاسی سیل کے سابق سربراہ اور آج کل اپنی ہی جماعت اسلامک ڈیموکریٹک فرنٹ کے چیئرمین سید منیر حسین گیلانی سے بھی صوبائی سطح پر پیپلز پارٹی نے رابطہ کیا مگر کوئی اتحاد نہیں کیا، صرف تعاون کی ایپل کی ہے۔

پیپلز پارٹی نے اسلامی تحریک پاکستان کے ساتھ فریال تالپور اور علامہ ساجد علی نقوی کے درمیان ملاقاتوں اور اس کے بعد علامہ ساجد علی نقوی کی صدر آصف علی زرداری سے ملاقات اور یقین دہانیوں کے بعد مذاکرات شروع کئے، جن میں حاص طور پر شیعیان علی کے ساتھ پاکستان میں ہونے والے مظالم اور آئینی پچیدگیوں پر بات چیت شروع کی، جو ابھی تک کسی حتمی نیتجے پر نہیں پہنچی اور مذاکرات جاری ہیں کی آوازیں آرہی ہیں، جبکہ کاغذات نامزدگی بھی جمع کرائے جا چکے ہیں۔ ابھی معلوم ہوا ہے کہ پیپلز پارٹی کے مجلس وحدت مسلمین سے بھی انتخابی تعاون کے لیے مذاکرات جاری ہیں۔ 

دوسری بڑی جماعت مسلم لیگ نون کے جمعیت علماء پاکستان سے مذاکرات ہوئے ہیں۔ جے یو پی نے امیدواروں کی فہرست مسلم لیگ ن کی قیادت کے حوالے کی مگر کوئی جواب انہیں نہیں دیا گیا۔ مرکزی جمعیت اہلحدیث مسلم لیگ کا ونگ ہی سمجھا جاتا ہے۔ جس کے سربراہ پروفیسر ساجد میر تقریباً 20 سال سے مسلم لیگ ن کے سینیٹر کے طور پر ایوان بالا میں بیٹھے ہیں۔ انہون نے متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے بھی سیاست کی، مگر رہے مسلم لیگ ن میں ہی۔ اس کے بدلے میں مرکزی جمعیت اہلحدیث نے مسلم لیگ ن کی حمایت کی۔ اسلامی تحریک اور مجلس وحدت مسلمین کے بھی مذاکرات اور رابطون کی بات گردش میں ہے، مگر ابھی تک قوم اور میڈیا کے سامنے کچھ نہین آیا۔  

مسلم لیگ (ضیاء) کے سربراہ اعجاز الحق بھی رائے ونڈ یاترا کرکے اپنے مقابلے میں مسلم لیگ ن کے امیدوار کو کھڑا نہ کرنے کی شہباز شریف سے اپیل کرچکے ہیں۔ اسی طرح جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان بھی شکوہ کرچکے ہیں کہ مسلم لیگ ن سے بات چیت خیبر پختونخوا میں اتحاد اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی ہوئی ہے مگر کوئی بھی جواب انہیں بھی نہیں ملا، مگر پھر بھی وہ نواز شریف سے ملاقات کے خواہشمند ہیں۔
جماعت اسلامی نے تحریک انصاف سے مذاکرات کئے سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر بھی بات ہوئی، مگر لاہور میں قومی اسمبلی کی نشت این اے 126 سے لیاقت بلوچ کے مقابلے مین تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے الیکشن لڑنے کے فیصلے کے بعد معاملات بگڑے بگڑے لگتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے تحریک انصاف کی طرف جکاو کے بعد مسلم لیگ کی طرف سے حمزہ شہباز منصورہ میں لیاقت بلوچ سے ملاقات کرکے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا پیغام لے کر گئے ہیں، اس پر بات آگے بڑھ رہی ہے۔ 

مسلم لیگ ن سندھ میں قادر مگسی کی سندھ پروگریسو پارٹی، رسول بخش پلیجو کی عوامی تحریک اور بلوچستان میں متعدد قوم پرست جماعتوں سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا اعلان کرچکی ہے۔ اس کے ساتھ ہی کئی رہنما ممتاز بھٹو، عبدالقادر بلوچ مسلم لیگ ن میں باقاعدہ طور پر شامل بھی ہوچکے ہیں۔ جس سے سندھ اور بلوچستان میں بھی مسلم لیگ ن کا کوئی نام لیوا اور شیر کے انتخابی نشان پر الیکشن لڑنے والا ضرور ہوگا۔ 

2013ء کے انتخابات میں کوئی باقاعدہ سیاسی اتحاد اس لیے بھی تشکیل نہیں پاسکے کہ صدر آصف علی زرداری نے اپوزیش کو اکھٹے ہونے کا موقع ہی نہیں دیا۔ جماعت اسلامی اور جمعیت علما اسلام کے اختلافات کے باعث متحدہ مجلس عمل کی جماعتیں متحد نہیں ہوسکیں، اور اب سب دوسری جماعتوں کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ انہیں کچھ مل جائے اور بھرم رہ جائے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بڑی جماعتوں کو چھوٹی جماعتوں کی پرواہ بھی نہیں کہ گذشتہ انتخابات کے مسلسل تجربات کے بعد وہ بھی اس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ چھوٹی جماعتوں کے نخرے اٹھانے ہیں تو وہ خود کیوں نہ اپنے امیدواروں کو کھڑا کریں کہ وہ کامیاب ہو جائیں۔ اس لیے سب سے زیادہ نقصان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو ہوگا۔ 

پیپلز پارٹی کی طرف سے کوشش کی گئی کہ اتحادی جماعتوں ایم کیو ایم، اے این پی اور مسلم لیگ ق کے ساتھ اتحاد قائم ہو جائے، مگر حکومتی کارکردگی سے مایوس یہ جماعتیں ایسا نہ کرسکیں۔ مسلم لیگ ق سے پیپلز پارٹی کے ساتھ مذاکرات میں گجرات کی سیٹ پہ آ کر ڈیڈلاک ہوگیا ہے،جہاں مسلم لیگ ق کے چوہدری پرویز الہی پیپلز پارٹی کی جیتی ہوئی نشست پر خود الیکشن لڑنا چاہتے ہیں، اور وہ چاہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اپنے امیدوار چوہدری احمد مختار کو نظر اندازکر دے  مگر ایسا ممکن نہیں، یہ بھی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا معاملہ اپنی جگہ پر لٹکا ہی رہے گا۔

خبر کا کوڈ : 250690
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش