0
Saturday 20 Apr 2013 09:41

وزیراعطم مولانا فضل الرحمان! کیا واقعی؟

وزیراعطم مولانا فضل الرحمان! کیا واقعی؟
تحریر: ناظر بھٹی

مولانا فضل الرحمان کے جلسوں میں، ان دنوں ان کے وزیراعظم بنائے جانے کے نعرے بڑی شد و مد سے لگائے جا رہے ہیں۔ اس کا اظہار 31 مارچ کو مینار پاکستان پر ہونے والی "اسلام زندہ باد کانفرنس" میں بھی بار بار کیا گیا اور حال ہی میں لاہور سے آزاد امیدوار برائے قومی اسمبلی میاں محمد آصف کی جے یو آئی میں شمولیت کے موقع پر ایک اجتماع کے دوران بھی اسٹیج سے بھی اور شرکائے جلسہ بھی وزیراعظم مولانا فضل الرحمان کے خوب نعرے لگاتے رہے۔ جب ایک صحافی نے جلسے کے اختتام پر مولانا صاحب سے پوچھا کہ قومی اسمبلی کی  10 یا 15 سیٹوں سے آپ کیسے وزیراعظم بن سکتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ اس سوال کو جلسے میں رہنے دیں، کارکنوں کے دل کی آواز ہے تو آپ بھی سن لیں، انہیں خوش ہو لینے دیں۔ اس سے لگتا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کے کانوں کو یہ نعرہ بھلا سنائی دیتا ہے مگر انہیں حقیقت حال کا علم ہے کہ اوہ دن ڈبا، جدوں گھوڑی چڑھیا کبا (وہ دن گیا جب اپاہج بھی شادی کے لیے گھوڑی چڑھے گا)۔ 
 
گویا میاں نواز شریف اور عمران خان کے بعد مولانا فضل الرحمان وزیراعظم کے امیدوار کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ جو ایک زیرک سیاست دان ہیں اور اس کے معترف آج کی سیاست کے گرو خود صدر مملکت آصف علی زرداری بھی ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان مولوی نہیں، صرف سیاستدان ہیں اور ان کی سیاست کے اطوار بھی بتاتے ہیں کہ حکومت کسی کی بھی ہو ایم کیو ایم کی طرح جے یو آئی کے لیے بھی حکومت سے باہر رہنا ناممکن ہوتا ہے۔ ان کا اقتدار سے باہر رہنا ایسے ہی مہلک اور جان لیوا ہوسکتا ہے جیسے مچھلی کا پانی کے باہر ہونا۔
 مولانا فضل الرحمان 2002ء کے انتخابات میں وزارت عظمٰی کے امیدوار تھے اور اسی بنیاد پر انہیں قائد حزب اختلاف کا عہدہ بھی مل گیا تھا جو کہ یار لوگوں کے بقول MARRIAGE OF CONVENIENCE تھا کہ جب ایم ایم اے کو متحدہ مجلس عمل سے زیادہ ملاں ملٹری الائنس کے نام سے جانا جاتا تھا کہ LEGAL FRAMEWORK ORDER (ایل ایف او) کے ذریعے جنرل پرویز مشرف کی غیر آئینی ترامیم کو آئینی حیثیت دلانے میں متحدہ مجلس عمل نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ 

 11 مئی 2013ء کے انتخابات میں مذہبی جماعتیں نہ تو کسی اتحاد کا حصہ ہیں اور نہ ہی سوائے مولانا فضل الرحمان کے کسی اور جماعت کے پارلیمان میں پہنچنے کے امکانات لگتے ہیں۔ ہر بار بلوچستان اور خیبر پختونخوا سے جے یو آئی قومی اسمبلی کی چھ سات نششتیں جیتنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ جہاں دیوبند مسلک کے ساتھ پختون آبادی میں مولانا فضل الرحمان کا ووٹ بینک ہے ۔ البتہ یہ بات تو قابل تعریف ہے کہ مولانا کی گفتگو میں اتحاد و وحدت کا درس نظر آتا ہے۔ وہ سنی شیعہ، دیوبندی اور بریلوی اختلافات کو سلجھانے کی کوششوں میں مصروف رہنماوں میں شامل رہے ہیں۔ ان کے تعلقات اسلامی تحریک پاکستان کے قائد علامہ ساجد علی نقوی سے بھی اتنے ہی ہیں جتنے کہ جمعیت علماء پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر ابوالخیر زبیر سے ہیں، یا مرحوم مولانا شاہ احمد نورانی سے رہے ہیں۔
 
اس دفعہ لگتا ہے کہ معلق پارلیمنٹ تشکیل پائے گی۔ جس میں بڑے بڑے اپ سیٹ متوقع ہیں۔ بہت برج گرنے کی توقع ہے تو دوسری طرف پیپلز پارٹی کے خلاف پراپیگنڈا مہم جس طرح سے کی جا رہی ہے، اس حکمران جماعت کا مستقبل بھی کوئی اتنا اچھا نہیں ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے پیچھے تحریک انصاف پڑ چکی ہے اور دونوں ہی کو مدمقابل سمجھا جا رہا ہے کہ پیپلز پارٹی تو اقتدار میں رہ چکی ہے۔ اس لیے تنقید کا زیادہ شکار ہو رہی ہے۔ مذہبی جماعتیں، مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف واضح کر چکی ہیں کہ پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں سے کوئی انتخابی تعاون ہوگا اور نہ ہی اتحاد کیا جائے گا۔ اس طرح لگتا ہے کہ کوئی بھی جماعت سادہ اکثریت لینے کی پوزیشن میں نہیں ہوگی۔ اس طرح کی کیفیت میں کہ کوئی بھی جماعت اکثریت حاصل نہ کرسکے تو مولانا فضل الرحمان کی پوزیشن اگر اتنی ہوگی کہ جس کے ساتھ ملیں وہ حکومت بنا لے۔

پھر شاید منظور وٹو کی طرح وہ بھی 17 اراکین پنجاب اسمبلی کے ساتھ جس طرح وزارت اعلٰی پنجاب حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ شاید مولانا فضل الرحمان کا بھی اس طرح تکا لگ جائے تو وہ وزیراعظم بن جائیں، ورنہ دور دور تک نظر نہیں آتا کہ تین بڑے سیاسی کھلاڑیوں کی موجودگی میں مولانا فضل الرحمان وزیراعظم بن سکیں۔ خود مولانا بھی کہتے ہیں کہ ان کے بغیر کوئی حکومت نہیں بن سکتی اور اگر کوئی بھی بنالے تو ان کے بغیر چل نہیں سکتی۔ ویسے نواز شریف اور عمران خان کے بعد مولانا فضل الرحمان ہی ہیں کہ جن کا وزیراعظم کے طور پر نام لیا جا رہا ہے۔ پیپلزپارٹی نے ابھی اپنے وزیراعظم کے نام کا اعلان نہیں کیا۔ شاید اگر جیت گئے تو چوہدری احمد مختار کے نام کا قرعہ نکلے گا، جیسے پہلے یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف بھی یکدم سامنے آگئے تھے۔
خبر کا کوڈ : 255949
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش