0
Monday 13 May 2013 21:23

پاکستانی قوم کو مبارک ہو ۔۔۔۔

پاکستانی قوم کو مبارک ہو ۔۔۔۔
تحریر: تصور حسین شہزاد

11 مئی 2013ء کے انتخابات میں پولنگ کا عمل پایہ تکمیل کو پہنچا۔ 8 کروڑ سے زائد ووٹرز کے لئے الیکشن کمیشن کی جانب سے پولنگ کیلئے کئے جانے والے انتظامات انتہائی ناقص، غیر معیاری اور بدانتظامی کے آئینہ دار تھے۔ بیشتر مقامات پر انتخابی عملہ وقت پر نہیں پہنچا اور بیسیوں مقامات پر انتخابی عملہ پہنچ ہی نہیں سکا۔ اکثر شہروں سے یہ شکایات آئیں کہ پولنگ کا سامان دینے کے لئے پریذائیڈنگ افسران کو جن میں خواتین کی بھی اکثریت تھی رات گئے تک انتظار کی زحمت اٹھانا پڑی۔ یہ ہدایات بھی جاری کی گئیں کہ خواتین بھی پولنگ اسٹیشنز پر ہی رات قیام کریں، جس کے لئے کسی قسم کی ضروری سہولیات کا کہیں پر کوئی اہتمام نہیں تھا۔ عمومی طور پر الیکشن ڈیوٹیز کے لئے اساتذہ کرام کو زحمت دی جاتی ہے، اساتذہ ہماری قوم کا سب سے قابل احترام طبقہ ہے مگر ریٹرننگ افسران نے اپنے دفاتر میں خواتین و حضرات اساتذہ کو پولنگ کا سامان مہیا کرنے میں جس طریقے سے بدانتظامی کا مظاہرہ کیا اس سے اساتذہ کی بے توقیری دیکھ کر لوگوں کا دل کڑھتا رہا۔ خاص طور پر خواتین کے ساتھ ریٹرننگ افسران کا ’’حسن سلوک‘‘ شرمناک حد تک قابل اعتراض تھا۔ خواتین کے عملے کو پوری رات اپنے گھروں اور بچوں سے دور غیر لوگوں کے درمیان رات گزارنے کیلئے کتنی اذیت کا سامنا کرنا پڑا، اس کا اندازہ ہر صاحب دل لگا سکتا ہے۔

بدامنی اور دہشت گردی کے ماحول میں عدم تحفظ کے احساس نے خواتین پولنگ عملے کے بچوں اور گھر والوں کو الگ سے پریشانی میں مبتلا کئے رکھا۔ امید کی جا رہی تھی کہ اس دفعہ میڈیا کے کردار کی وجہ سے ووٹنگ کا ٹرن آؤٹ ماضی کی نسبت بہت زیادہ ہوگا۔ ووٹروں کی تعداد بھی تقریباً دوگنا ہوچکی ہے لیکن الیکشن کمیشن نے ان حقائق کو پس پشت ڈال کر ماضی کی ووٹر لسٹوں کے پیٹرن پر ہی اس دفعہ پولنگ کے انتظامات کئے، جن کی وجہ سے اکثر جگہوں پر بیلٹ پیپر کم پڑ گئے، کئی جگہوں پر دیگر اسٹیشنری اور ضروری سامان کی عدم دستیابی نے ووٹ ڈالنے کیلئے آئے ہوئے لوگوں کو مایوس کیا اور سب سے بڑی بات اکثر جگہوں پر پولنگ اسٹیشنز ایسی جگہوں پر بنائے گئے جہاں ووٹ ڈالنے والوں کی قطاریں سڑکوں اور گلیوں میں بنی نظر آئیں۔ اس دفعہ ووٹر اپنی قومی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے دہشت گردوں کی دھمکیوں کے باوجود ووٹ ڈالنے کے لئے گھر سے نکلا تو اسے سرکاری مشینری کی نااہلی کی وجہ سے اپنے ووٹ کا حق استعمال کرنے میں بہت دشواریاں پیش آئیں۔

ایک اندازے کے مطابق 30 سے 40 فیصد ووٹر جو گھر سے پولنگ سٹیشن تک پہنچا اسے ناموافق حالات کی وجہ سے اپنے بنیادی حق کے استعمال سے محروم، ناکام و نامراد لوٹنا پڑا۔ بیشتر شہروں میں قانون شکنوں نے قانون نافذ کرنے والوں کو زچ کئے رکھا۔ کراچی جیسے شہر میں ایک مخصوص جماعت کی اجارہ داری کے تناظر میں جتنے فول پروف انتظامات کی ضرورت تھی ان کا دور دور تک نشان نظر نہیں آیا۔ کراچی کے اکثر پولنگ اسٹیشنز پر نہ عملے کو پہنچنے دیا گیا نہ پولنگ کے سامان کو۔ نتیجتاً پولنگ شروع ہونے کے صرف دو تین گھنٹوں کے بعد جماعت اسلامی نے کراچی میں الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا جس میں بعدازاں سنی اتحاد کونسل بھی شامل ہو گئی اور پی ٹی آئی کے امیدوار نے بھی کراچی میں اجارہ دار سیاسی جماعت پر دھاندلی کا الزام عائد کر دیا۔ مجلس وحدت مسلمین کی قیادت نے بھی مخصوص جماعت کی اجارہ داری اور سینہ زوری کی مذمت کرتے ہوئے کراچی میں ہونیوالی پولنگ کا بائیکاٹ کیا اور مطالبہ کیا ہے کہ کراچی میں دوبارہ فوج کی نگرانی میں الیکشن کروائے جائیں۔ مجلس وحدت کے رہنماؤں نے کراچی سے اپنے امیدوار کے اغوا کی بھی مذمت کی ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ انہیں فوری بازیاب کروایا جائے۔

میڈیا نے کراچی کے اکثر پولنگ اسٹیشنز کے اوپر دھاندلی کے شواہد ویڈیو فلمز کے ذریعے پیش کئے، اس سے پہلے کراچی میں بم دھماکوں، فائرنگ اور امیدواروں کے اغوا کی وارداتوں نے خوف و ہراس کی فضا پیدا کر دی۔ گذشتہ رات کراچی میں مہاجر قومی موومنٹ کے ایک امیدوار برائے قومی و صوبائی اسمبلی کو قتل کر دیا گیا۔ الیکشن کے روز سنگین وارداتوں میں اضافہ ہونے سے ملک کے اکثر بڑے شہروں میں بے گناہ لوگ تخریب کاروں کی وارداتوں کا نشانہ بنے۔ کئی جگہوں پر پولنگ اسٹیشنز پر غلبہ پانے کی کوشش میں متحارب امیدواروں کے درمیان لڑائی، جھگڑے اور فائرنگ کا تبادلہ ہوا، جس کی وجہ سے پولنگ روکنا پڑی۔ مختلف مقامات پر پولیس اور ووٹرز کے درمیان بدامنی کے باعث جھڑپیں ہوئیں، جس سے سکیورٹی انتظامات میں خلا صاف دیکھنے میں آیا۔ مختلف شہروں سے دھاندلی کی شکایات پر الیکشن کمیشن نے نوٹس لیا اور ریٹرننگ افسروں سے رپورٹس طلب کر لیں۔ اس کا مرکز خاص طور پر کراچی اور حیدر آباد بنے۔ اس تناظر میں الیکشن کمیشن نے اعتراف کر لیا ہے کہ وہ کراچی میں شفاف و آزادانہ انتخابات کروانے میں ناکام رہا۔

ادھر بلوچستان میں جمہوری وطن پارٹی نے بھی دھاندلی کے الزام پر الیکشن کا بائیکاٹ کیا۔ خود پی ٹی آئی کے ترجمان نے کراچی میں دھاندلی کے واقعات کی نشاندہی کی اور ان کے امیدوار نے ایم کیو ایم کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ ان سب منفی اشارات کے باوجود عوام کی ایک بڑی تعداد گھروں سے صبح سویرے نکل کر پولنگ بوتھ پر پہنچی تاکہ جمہوریت میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔ جمہوری عمل کے اس تسلسل کو دوام و استحکام بخشنے کے لئے عوام کا یہ جوش و خروش، ولولہ اور جذبہ قابل داد اور لائق تحسین ہے۔ مگر افسوس کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے بدترین ناقص انتظامات کی وجہ سے عوام کی بڑی تعداد اپنے ووٹ کا حق استعمال کرنے سے محروم رہی۔ ووٹروں کی تعداد دو سے اڑھائی گنا ہونے کے باوجود وقت صبح 8 سے شام 6 بجے تک بلا وقفہ رکھا گیا تھا جو کہ پولنگ بوتھ پر پہنچنے والے ووٹ کاسٹ کرنے کے خواہش مندوں کیلئے بہت کم ثابت ہوا۔ تنگنائے وقت کی وجہ سے جو لوگ ووٹ ڈالنے کا جمہوری حق استعمال نہیں کرسکے، اب انہیں پانچ سال مزید انتظار کی زحمت اٹھانا پڑے گی، اس کا ذمہ دار کون ہے۔؟

میڈیا نے عوام کے اندر ووٹ ڈالنے کی اہمیت کا شعور اجاگر کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ اگر عوام کا شعور اسی طرح بیدار کیا جاتا رہا تو قومی مسائل میں عوام کی دلچسپی کا سامان ہونے سے یقیناً سیاسی قیادتوں کو اپنے سابقہ رویوں پر نظرثانی کرتے ہوئے ملک و قوم کی خدمت کیلئے کمربستہ ہونا پڑے گا۔ یہی وہ اصل تبدیلی ہوگی جو اس ملک کو آگے کی طرف لے جاسکتی ہے۔ یہاں ہم الیکشن کمیشن کی توجہ اس جانب مبذول کروائیں گے کہ آئندہ کیلئے موجودہ انتخابات میں سرزد ہونے والی غلطیوں سے سبق سیکھا جائے، خاص طور پر ووٹ پول کرنے کے لئے ووٹر کو زیادہ سے زیادہ سہولیات مہیا کرنے کی کوششیں کی جائیں۔ عملے کی مناسب تربیت نہ ہونے کی وجہ سے ووٹ کاسٹ کرنے میں ووٹرز کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، اس سے ایک اندازے کے مطابق دس سے بیس فیصد تک ٹرن آؤٹ کم رہا۔ اگر عملہ تربیت یافتہ اور ہنرمند ہوتا تو جس طریقے سے لوگ گھروں سے نکل کر ووٹ ڈالنے کے لئے پولنگ سٹیشنوں کا رخ کر رہے تھے اور ووٹروں میں جو جوش و خروش اور گہما گہمی نظر آ رہی تھی اس میں مزید بہتری آ سکتی تھی۔ بہرحال 11 مئی 2013ء کے انتخابات اپنی تمام تر تلخ و ترش یادوں کے باوجود اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ پاکستان کا مستقبل صرف اور صرف جمہوریت سے وابستہ ہے۔ عوام نے جمہوریت کے عمل میں حصہ لے کر دہشت گردوں کے عزائم خاک میں ملا دیئے، اس کے لئے پوری قوم مبارکباد کی مستحق ہے۔
خبر کا کوڈ : 263663
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش