0
Saturday 5 Jun 2010 15:23

اسرائیلی جارحیت کے پیچھے کون سی قوت کارفرما ہے۔؟

اسرائیلی جارحیت کے پیچھے کون سی قوت کارفرما ہے۔؟
عزیز ظفر
اسرائیلی حکمرانوں کے ماضی کو ٹٹولنے سے معلوم ہو گا کہ یہ تمام لوگ کسی نہ کسی صورت دہشت گرد رہے ہیں۔ایسی دہشت گرد تنظیموں کے اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز رہے جو بدنام زمانہ رہیں۔ہر ایک کے ساتھ جرائم کی ایک طویل فہرست چسپاں ہے۔ہر ایک کے سر سینکڑوں لوگوں کے اجتماعی سفاکانہ قتل،پوری آبادی مسمار کرنے ،بستی کی بستی جلا کر راکھ کرنے کے گھناﺅنے جرائم ثابت ہیں۔ یعنی اسرائیلی سیاست میں کامیابی کا راز وحشی دہشت گرد اور قاتل ہونے میں پنہاں ہے۔اسرائیل کے ہر ایک سربراہ مملکت کی کہانی سنگین جرائم اور سفاکیوں سے عبارت داستاں ہے۔ایریل شیرون،ایہو بارک،شمیر، موشے دایان کی زندگیاں کسی سے پوشیدہ نہیں۔
اسرائیل کا مجموعی قومی کردار دیکھا جائے تو سابقہ چھ عشروں سے فلسطینیوں کے ساتھ جو ظلم و بربریت کا سلوک روا رکھا،اقوام متحدہ کی انہتر قراردوں کو کبھی خاطر میں نہ لائے،اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔عرب اسرائیل جنگ ہو،صابرہ،شتیلہ کے مظالم ہوں،گولان کی پہاڑیوں کے واقعات ہوں یا ٹرپولی کی داستان ہو یا کہ غزہ پر ہولناکیاں،ہر واقعہ ظلم و استبداد میں ایک دوسرے سے زیادہ دردناک، شرانگیز اور شرم ناک ہے۔ظلم کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ اسرائیل حیلہ بہانہ کر کے لشکر کشی کرتا ہے۔نہتے مظلوم عوام پر راکٹ برساتا،فاسفورس بم پھینکتا ہے،گنجان شہری علاقوں پر گولا باری کر کے پندرہ لاکھ آبادی کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔
اس ظلم مسلسل پر اقوام متحدہ کی بے حسی اور بے بسی دیدنی ہے۔امریکہ کی انسان دوستی یہاں کیوں دم توڑ دیتی ہے،اسکے موقف میں دو رنگی کے کیا معنی ہیں؟یہی وجہ ہے کہ جس کے نتیجہ میں امریکہ کےخلاف جنگ میں دہشتگردوں کو اسلامی دنیا میں پذیرائی ملتی ہے بلکہ ان کی کاروائیوں کو نفرت سے دیکھنے کے باوجود،اس کے لئے دل میں نرمی کی گنجائش بنتی ہے کہ امریکہ اسرائیل کی دہشتگردی کی نہ صرف حمایت کرتا ہے،بلکہ تمام تباہ کاریوں اور مظالم کو تحفظ دینے کے لئے ویٹو کے اختیار کا ناجائز استعمال سے گریز نہیں کرتا۔یہی وجہ ہے کہ روز بروز ظلم و زیادتیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
بیچارے فلسطینیوں کو اپنے دفاع کا حق حاصل نہیں،تصور کیجئے ہر جانب دشمن کا گھیرا ہو،پورا علاقہ بمباری سے تباہ ہو،گھر مسمار، سر چھپانے کے لئے چھت نہ ہو،اشیاء خورد و نوش ختم ہو جائیں، بجلی پانی گیس بند کر دی جائے،محاصرے کے باعث درآمد برآمد معطل ہو جائے،ذرائع نقل و حمل رک جائیں،ادویات ختم ہو جائیں، ہسپتال بینک اور سرکاری نجی دفاتر بند ہوں،قحط سالی کا عروج ہو، ملازمین کو تنخواہیں میسر نہ ہوں،معصوم بچے بھوک سے بلک بلک کر دم توڑتے ہوں،مسجدوں سکولوں گھروں میں بھی پناہ نہ مل سکے۔ بمباری کے باعث شکستہ عمارتوں کی مرمت نہ کی جا سکے،اس مہذب جدید دور میں انسان کا انسانوں سے برتاﺅ انتہائی مجرمانہ ہو جائے۔اس بے کسی اور بے بسی کی حالت زار اگر دنیا میں کچھ انسان دوست بھی ارادہ باندھیں کہ ہم ان کو بھوک سے نہیں مرنے دیں گے۔ اپنا پیٹ کاٹ اور جان ہتھیلی پر رکھ کر انکی بھوک مٹانے کا سامان کرتے ہیں۔
انسانی ہمدردی کی بنیاد پر غزہ کے مظلوم عوام کی مدد کے لئے برطانیہ،جرمن،یونان،کویت،آئرلینڈ،ملائیشیا،الجزائز کی حکومتوں نے چھ جہاز ترکی کی قیادت میں دس ہزار ٹن امدادی سامان تقریبا سات سو امدادی کارکنوں کے ہمراہ غزہ بھیجے۔امدادی کارکنوں کے ساتھ برطانیہ سمیت یورپین ارکان اسمبلی اور اسرائیلی پارلیمنٹ کے ممبر بھی سوار تھے۔اسرائیل نے غذائی سامان اور امدادی کارکنوں کو غزہ پہنچنے سے روکنے کے لئے جنگی جہاز وں سے ناکہ بندی کر کے حملہ کر دیا۔اسرائیلی وزیراعظم نے الزام لگایا کہ امدادی کارکن غزہ کے عوام کی نہیں بلکہ حماس کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔امدادی شرکاء نے اسرائیل کی کارروائی کو بحری قذاقی قرار دیا۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ غزہ کو اسرائیل اور مصر سے زمینی راستے سے امداد کا سلسلہ پہلے ہی بند ہے۔سمندر میں گھیرنے کے بعد امدادی جہازوں پر ہیلی کاپٹر پر سوار فوجیوں نے حملہ کر دیا۔امدادی کارکن سفید جھنڈے لہراتے رہے،مگر فوجیوں نے فائرنگ کر کے بیس افراد کو ہلاک کر دیا۔،ساٹھ زخمی ہوئے،تین پاکستانیوں سمیت سینکڑوں امدادی کارکن یر غمال بنا لئے گئے۔امدادی سامان لے جانے والے چالیس ممالک کے سات سو افراد پر مشتمل قافلہ جنہیں فریڈم فلوٹیلا کا نام دیا گیا،جس میں انجینئر،ڈاکٹر اور میڈیا پرسن شامل تھے،اسرائیلی حکومت نے ایک بھونڈا سا بیان جاری کیا،جس میں کہا کہ امدادی کارکنوں نے چاقوﺅں اور آہنی راڈوں سے اسرائیلی فوج پر حملہ کیا۔جس کے جواب میں اسرائیلی فوج نے فائرنگ کی۔امدادی کارکنوں پر بہیمانہ طور پر ظلم بین الاقوامی سمندری قوانین کی خلاف ورزی پر اسرائیل کےخلاف دنیا بھر میں رد عمل کا اظہار کیا گیا۔ اسرائیلی جارحیت کے خلاف سب سے زیادہ ردعمل ترکی میں دیکھنے میں آیا جہاں ہزاروں لوگوں نے سڑکوں پر آ کر سخت نفرت کا اظہار کیا۔اپنا سفیر اسرائیل سے واپس بلاتے ہوئے وزیر اعظم ترکی نے کہا ہم جتنے اچھے دوست ہیں اتنے ہی برے دشمن ہیں۔پاکستان نے بھی اپنی سابقہ روایات کے مطابق فلسطینی بھائیوں سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا۔پاکستان کے چھوٹے بڑے ہر شہر میں احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔
لاہور میں نظریہ پاکستان ٹرسٹ میں احتجاجی اجلاس ہوا،جس میں ملک کے معروف دانش ور،نامور قانون دان،مفکر اور تحریک پاکستان کے کارکنوں نے اپنے جذبات کا اظہار کیا۔محفل میں طالب علموں کے علاوہ بڑے بھی شامل تھے،جو فلسطینی بھائیوں سے محبت کے جوش میں جواں لب و لہجہ اپنائے ہوئے تھے۔جسٹس محبوب نے کہا کہ اسرائیل کے قیام سے انگریزوں نے عربوں کے سینوں میں چھرا گھونپ دیا۔امریکہ کی جانب سے اسرائیل کی مذمت نہ کرنا جرائم کی پردہ پوشی ہے۔
عظیم تحریکی سالار مجید نظامی نے قلندرانہ انداز میں کہا کہ جہاد کے بغیر اسرائیل کو شکست دی جا سکتی ہے،نہ کشمیر حاصل کر سکتے ہیں۔میں آپ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں جہادی ہوں۔ماہر قانون حسن ظفر کہہ رہے تھے امریکہ کی رگ و جان پنجہ یہود میں ہے۔وہ پنجہ یہود کا نام علم ہے،سائنس ٹیکنالوجی میں یہودیوں کو برتری ہے،امریکہ میں یہودیوں کا اثر اپنے علم کی بدولت ہے،جس کے پاس علم ہو گا،دنیا اس کی قدردان ہو گی۔
غور طلب یہی نکتہ ہے کہ اسرائیل کی تمام تر بدمعاشیوں اور زیادتیوں کے پیچھے جو قوت کارفرما ہے وہ جدید علوم میں دنیا پر فوقیت اور برتری ہے اس کے مقابلے کے لئے ملت اسلامیہ کو علم کے میدان میں آگے بڑھنا ہو گا۔تمام تر وسائل کو اسی نکتہ پر مرکوز کر کے دنیا کو امن کا گہوارہ بنانا ہو گا۔دوسری جانب جس اسرائیل کے سامنے پوری دنیا بے بس ہے،وہاں اس کی بغل میں پندرہ لاکھ نہتے افراد جس مردانگی اور بلند حوصلے سے صف آرا ہو کر ان تمام تکلیفوں اور اذیتوں کا مقابلہ کر رہے ہیں،ہمیں انکے جذبہ حریت اور قوت ایمانی کو نہ صرف خراج تحسین پیش کرنا ہو گا بلکہ اس جذبہ سے رہنمائی حاصل کر کے اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہونا چاہیے۔
خبر کا کوڈ : 27653
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش