0
Wednesday 19 Jun 2013 21:34

دہشتگردی کی نئی عفریت اور امریکہ طالبان کے متوقع مذاکرات

دہشتگردی کی نئی عفریت اور امریکہ طالبان کے متوقع مذاکرات
تحریر: رشید احمد صدیقی

31 مئی 2013ء کو پاکستان کی قومی اسمبلی کے ارکان نے حلف اٹھایا۔ اس سے دو روز قبل 29 مئی کو جنوبی وزیرستان میں امریکی ڈرون حملہ میں تحریک طالبان کے نائب امیر اور سب سے فعال کمانڈر میاں ولی الرحمان کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ تحریک طالبان نے دو روز بعد اپنے کمانڈر کے مارے جانے کی تصدیق کی اور ساتھ ہی حکومت پاکستان سے کی گئی مذاکرات کی اپنی پیشکش واپس لے لی۔ طالبان ترجمان نے کہا کہ حکومت پاکستان نے ہماری پیشکش کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور امریکی ڈرون کو ان کی جانب سے تائید اور تکنیکی حمایت بھی حاصل ہے۔ 43 سالہ میاں ولی الرحمان ایک سیاسی پس منظر رکھنے والے کمانڈر تھے۔ اور مذاکرات کی صورت میں توقع تھی کہ ان کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی۔ 2004ء میں طالبان میں باقاعدہ شمولیت سے پہلے وہ جمعیت العلماء اسلام کے ساتھ بطور سیاسی کارکن وقت گزار چکے تھے اور دوسرے طالبان رہنمائوں کی نسبت سیاسی مزاج ان کا زیادہ تھا۔

میاں محمد نواز شریف نے 11 مئی کے انتخابات میں کامیابی کے بعد پانچ جون کو وزیراعظم پاکستان کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔ 11 مئی کے انتخابات کے لیے نواز شریف کی جماعت کے منشور میں طالبان کے حوالے سے مذاکرات کے ذریعے مسئلے کے حل کی بات موجود تھی۔ الیکشن سے قبل نواز شریف کی جماعت کا موقف مذاکرات ہی تھا۔ چنانچہ توقع کی جا رہی تھی کہ حلف اٹھانے کے فوراً بعد وہ اس جانب سنجیدہ توجہ دیں گے۔ طالبان نے بھی اپنی پیشکش میں ان کو فضل الرحمان اور سید منور حسن کے ہمراہ ضامن تسلیم کیا تھا۔ لیکن امریکہ نے نئی اسمبلی کے حلف اٹھانے سے دو روز قبل بیت اللہ محسود کے بعد طالبان کو سب سے بڑا نقصان پہنچایا۔ جس کا ان کو بہت بڑا صدمہ تھا اور انہوں نے مذاکرات کی اپنی پیشکش واپس لے کر بدلہ لینے کا اعلان کیا۔

ولی الرحمان کے قتل کا واضح پیغام یہ تھا کہ امریکہ پاکستان اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا مخالف ہے۔ ان کا موقف اپنی جگہ لیکن اس میں سب سے بڑی آزمائش نواز شریف کے لیے جن کے حلف اٹھانے سے قبل ہی ان کو اس مشکل میں ڈال دیا گیا تھا ان کی مشکل یہ تھی کہ مذاکرات کے لیے آمادہ طالبان کو اب واپس کیسے لایا جائے۔ وہ ولی الرحمان کے قتل کی کھل کر مذمت کرنے کی پوزیشن میں نہ تھے اور طالبان کے ساتھ ان کا کسی ایسی سطح پر رابطہ بھی نہ تھا اور نہ ان کے پاس کوئی ایسا ذریعہ موجود ہے جو طالبان کو قائل کر سکے کہ امریکہ جن مذاکرات کو سبوتاژ کرنا چاہتا ہے پاکستان، افغانستان اور طالبان تینوں کا مفاد اس میں ہے کہ مذاکرات ہر صورت میں شروع ہوں اور جاری رہیں۔

نواز حکومت نے حلف اٹھانے کے بعد توانائی بحران اور بجٹ تیاری پر پوری توجہ مرکوز کیے رکھی اور طالبان ولی الرحمان قتل کی صورت میں لگنے والا زخم چاٹنے لگے۔ مذاکرات کی پیشکش واپس لینے کا پاکستان کی جانب سے افسوس کے علاوہ کوئی جواب نہ آیا اور نہ ان کو قائل کرنیکی کوئی کوشش بھی نہ ہوئی۔ انتقام کے لیے کمربستہ طالبان نے جوابی حملے کی منصوبہ بندی کی اور 15 جون کو طالبان نے کوئٹہ میں نجی یونیورسٹی کی بس میں خودکش دھماکہ کرایا۔ جس میں 14 طالبات اور استانیاں شہید ہوئیں اور بڑی تعداد میں زخمی۔ ہکوئٹہ میڈیکل کمپلکس پہنچایا گیا تو طالبان نے وہاں دھاوا بولا۔ طویل جنگ کے بعد ڈپٹی کمشنر سمیت مجموعی طور پر25 افراد جان بحق ہوئے۔ اس سے ایک روز قبل زیارت بلوچستان میں غیر طالبان دہشت گردوں نے قائداعظم کی تاریخی رہائش گاہ کو تباہ کیا۔

نواز حکومت "سر منڈھاتے ہی اولے پڑے" کے مصداق اس بڑے سانحے سے ابھی گزر رہی تھی کہ شیر گڑھ مردان میں قتل کیے جانے والی ایک اہم شخصیت کی نماز جنازہ میں عین نماز کے دوران خود کش حملہ آور نے اپنے آپ کو اڑا لیا۔ جس کے نتیجے میں رکن صوبائی اسمبلی محمد عمران اور ان کے بھائی سمیت 33 افراد جان بحق اور 60 کے قریب زخمی ہوئے۔ اس سے قبل ہنگو سے صوبائی اسمبلی کے رکن فرید خان کو تین جون کو قتل کیا گیا تھا۔ جنہوں نے پانچ روز قبل رکن صوبائی اسمبلی کی حیثیت سے حلف اٹھایا تھا۔ دونوں مقتول ارکان صوبائی اسمبلی آزاد حیثیت سے کامیاب ہو کر تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے۔ 29 مئی کو جب خیبر پختونخوا کے ارکان اسمبلی پانچ سال کے لیے اپنے منصب کا حلق اٹھا رہے تھے تو امریکی ڈرون نے جنوبی وزیرستان میں ڈرون حملہ کرکے طالبان رہنماء میاں ولی رحمان کو قتل کر دیا۔ جس کے ساتھ حکومت پاکستان اور طالبان کے درمیان متوقع مذاکرات آغاز سے پہلے دفن ہو گئے۔

ایسے میں چند روز بعد قطر کے دارالحکومت دوہا میں افغان طالبان، امریکہ اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہونے والا ہے۔ افغان طالبان نے قطر میں اپنا دفتر کھول دیا ہے اور اس کے نمائندے محمد نعیم وہاں بیٹھ کر امن کے لیے راستہ ہموار کریں گے۔ افغان صدر حامد کرزئی اس سے قبل امریکہ طالبان مذاکرات پر تحفظات کا اظہار کرتے تھے لیکن اب انہوں نے بھی افغان امن کونسل کا وفد ان مذاکرات میں شرکت کے لیے بھیجنے کی خواہش کا اظہار کر دیا ہے۔ امریکہ کی جانب سے افغانستان سے واپسی کے آثار جیسے جیسے نمایاں ہو رہے ہیں حامد کرزئی طالبان کے دل میں قبولیت پیدا کرنے کے لیے ان کی قبولیت کے اشارے دے رہے ہیں۔ دوحا مذاکرات میں ماضی کی طرح ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کی جائے گی۔ مفاہمت اور نیک تمنائوں کا اظہار ہوگا اور خیرسگالی کے طور پر قیدیوں کے تبادلے کی بات بھی ہو گی۔

امریکہ نے پاک طالبان مذاکرات سبوتاژ کر دیئے ہیں اور پاکستان پر اس کا دبائو ہوگا کہ ان کے مذاکرات کی کامیابی کے لیے کام کریں۔ حکومت پاکستان ان کے دبائو میں ہمیشہ رہی ہے لیکن اس طرح کے یک طرفہ ٹریفک کی کامیابی کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا ہے۔ البتہ پاکستان کو اپنا مفاد اور کردار دیکھنا ہوگا۔ امریکہ نے ولی الرحمان کو قتل کرکے نواز شریف حکومت کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ یہ ان کے اعصاب اور دانش کا امتحان ہے، لیکن ابتدائی چند روز کی کاکردگی اور نتائج کو دیکھتے ہوئے واضح نظر آرہا ہے کہ نئی حکومت کے پاس اس پیچیدہ مسئلہ کے حل کے لیے مناسب دماغ نہیں ہیں۔ ہماری خواہش ہے کہ ایسے دماغ کو تلاش کرکے پاکستانی قوم کو اس بلا سے نجات دلائی جائے۔
خبر کا کوڈ : 274894
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش