0
Wednesday 9 Jun 2010 09:10

حجاب پر یورپ کی یلغار

حجاب پر یورپ کی یلغار
فرانس کے صدر نکولس سرکوزی عوامی مقامات پر خواتین کے حجاب پر پابندی عائد کر چکے ہیں۔ بیلجیم کی حکومت نے ایک قدم آگے بڑھ کر اس ”کارِ خیر“ میں حصہ لیا۔وہ پردے پر پابندی کے ساتھ ساتھ اس ”جرمِ عظیم“ پر جرمانہ بھی عائد کرچکی ہے جبکہ وہاں پر پردہ دار خواتین کی تعداد 10 فیصد سے زیادہ نہیں۔آسٹریلوی اراکین پارلیمنٹ نے ”فتویٰ“ صادر کیا ہے کہ ”برقعہ“ اسلامی ثقافت کا حصہ نہیں،وہ ڈاکو اور لٹیروں کے لیے وارداتوں میں کارآمد ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ برقعے کی ہمارے معاشرے میں کوئی جگہ نہیں،معاشرتی تحفظ کے لیے برقعے پر پابندی انتہائی ضروری ہے۔چین،جاپان،کوریا،تھائی لینڈ اور روس وغیرہ بھی اس مہم کو سر کرنے میں کسی سے پیچھے نہیں۔ 
مروہ الشربینی کے جسم پر اس جرم کی پاداش میں خنجر کے 18 وار تاریخ کا حصہ ہیں۔مسجد کے مینار بھی شاید کسی”راکٹ“ سے مشابہ ہوں گے کہ ان پر پابندی ناگزیر ٹھیری۔قصہ مختصر یہ کہ یورپ میں مسلمانوں پر ”عرصہ اسلام“ تنگ کیا جا رہا ہے (عرصہ حیات تنگ کرنے سے امریکا و یورپ کی لیبر پاور ختم ہونے کا خدشہ ہے) سیکولرازم جس کا مطلب شخصی آزادی ہے،یورپ میں رائج ہے۔ اہلِ مغرب کو اس پر بڑا فخر ہے۔مذہبی آزادی پر بھی وہ ناز کرتے نہیں تھکتے۔لیکن آزادی کے یہ معیار کیا سب کے لیے یکساں ہیں؟ یورپ کی زندگی تو اس کا بڑا بھیانک رخ پیش کرتی ہے (تاہم یہ رخ اُن کتوں سے زیادہ بھیانک ہرگز نہیں جنہیں ابوغرائب کی جیل کے نہتے قیدیوں پر چھوڑا گیا تھا)۔ یہ رخ مغرب کا وہ دوہرا معیار ہے،جو اس نے ملت ِاسلامیہ کے ساتھ روا رکھا ہے۔ایک طرف مذہبی آزادی کا ڈھنڈورا،دوسری جانب شعائر اسلام پر پابندیاں۔
 اسلام کے پاکیزہ عقائد پر کیچڑ اچھالنا،حدود اللہ کو ظالمانہ قرار دینا،داڑھی اور پگڑی کو دہشت گردی کی علامت سمجھنا تو اب قصہ ماضی بن چکا ہے۔آج کل یورپ کی پابندیوں کا رخ حجاب کی طرف ہے۔ حجاب پر ”دست درازی“ کے یہ چند واقعات جو اخبارات کی زینت بنے،اتفاقی نہیں،یورپ کی زندگی کا حصہ ہیں۔کئی امریکی ریاستوں میں باحجاب خواتین کو بے توقیری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔سنگاپور میں چار مسلمان بچیوں کو اُس وقت اسکول سے بے دخل کر کے گھر بھیج دیا گیا،جب انہوں نے اسکارف اتارنے سے انکار کیا،جبکہ ان کی عمریں 7 سال سے متجاوز نہ تھیں۔اس کے علاوہ بھی نہ جانے کتنے واقعات ہیں جو اب معمول کا حصہ بن چکے ہیں۔
 یورپ کا سیاسی نظام وہ ہے جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے۔اگر اس گنتی کو ہی پیش نظر رکھا جائے تو بھی اسلام یورپ کا دوسرا بڑا مذہب ہے۔بوسنیا اور کوسووا مسلم ممالک کی حیثیت سے یورپ کے نقشے پر ابھر چکے ہیں۔تاہم مسلمان حقِ آزادی سے اب تک محروم ہیں کہ مذہبی آزادی کی قلعی تو ان واقعات نے کھول دی ہے،جو اسلام اور مسلمان دشمنی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔قطع نظر اس سے کہ یہ ایک مذہبی فعل ہے بہت سے فوائد کا حامل بھی ہے۔جدید تحقیقی رپورٹ کے مطابق پردہ کرنے سے ”جِلد کے کینسر“ سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔حجاب پہننے سے منہ اور ناک کے ذریعے لگنے والی بیماریوں مثلاً نزلہ اور زکام وغیرہ سے خواتین محفوظ رہ سکتی ہیں۔ یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کے پروفیسر جان مارشل بیان کرتے ہیں کہ سر کو ڈھانپ کر رہنے والے افراد پیشانی کے مسائل کا شکار کم ہوتے ہیں صنف ِ نازک کو اتنی مفید چیز سے دور رکھنا اس کی آزادی نہیں غلامی ہے۔ستم یہ ہے کہ حقوقِ نسواں کی تنظیمیں جن کے خواتین اسلام پر بہت سے ”احسانات“ ہیں (جن میں عورتوں کو گھر کی چار دیواری سے نکال کر مردوں کے شانہ بشانہ کھڑا کرنا اور تعلیم کے نام پر بے راہ روی کی طرف مائل کرنا شامل ہے) اس موقع پر ”چپ“ سادھے ہوئے ہیں۔ کوئی بولتا بھی ہے تو یہ کہ برقعے پر پابندی لگنے سے خواتین کو راحت و آرام ملے گا۔
مگر غیروں سے کیا گلہ.... کشتی تو اپنوں نے ڈبوئی ہے،کئی مسلم ممالک میں بھی حجاب پر پابندی کے واقعات رونما ہو چکے ہیں۔کفر نے جب سے اس دنیا میں قدم رکھا ہے،دنیائے کفر رب کائنات کے احکامات سے روگردانی کرنے کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لارہی ہے۔احکامات ِ الٰہیہ ہر زمانے کے نبی کے ہاتھ پر ظاہر ہوتے رہے۔مخالفین کی تعداد بھی بڑھتی رہی۔زمانہ تیزی سے اپنے اوراق پلٹتا رہا۔نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دور آیا۔حجتہ الوداع کے موقع پر اسلام کی نعمت مکمل ہو گئی۔رب العالمین نے فرما دیا کہ اس جہانِ فانی میں صرف دو قومیں ہیں مسلمان اور کافر۔جو ہمیشہ ایک دوسرے سے برسرپیکار رہنے والی ہیں۔ ہودی مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔وہ چال بازیاں کرتے ہیں ایسی کہ پہاڑ بھی ٹل جائیں۔وہ ایسے ہیں کہ: ”جن کی روباہی کے آگے ہیچ ہے زورِ پلنگ“ یہ یہودی ہی ہیں جو امت ِمسلمہ کے نیل کے ساحل سے لے کر کاشغر تک پھیلے ہوئے”جسدِ اسلامی“ پر اپنے نوکیلے دانت گاڑ کر اس کا خون پینے میں مصروف ہیں۔وہ مسلمانوں کی تباہی و بربادی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
عراق و افغانستان کے مسلمانوں پر بمباری کر کے قتل و غارت گری کا بازار گرم کریں یا خواتینِ اسلام کے چہروں سے نقاب نوچ کر اپنی جمہوریت کے جھنڈے گاڑیں،ان کے ظلم کا چرچا ہرگز نہیں ہوتا۔اہلِ اسلام کی بدنامی مختلف قسم کے ”لیبلوں“ کے ذریعے ہوتی ہے۔دہشت گردی کا لیبل،دقیانوسیت کا لیبل،عورتوں پر ظلم کا لیبل.... نہ جانے مروہ الشربینی اور دیگر باپردہ خواتین کی آہوں اور سسکیوں کو کس قسم کا لیبل لگا کر بدنام کیا جائے گا.... نہ جانے کتنی مسلمان ماﺅں،بیٹیوں اور بہنوں کے چہروں سے حیا کا لبادہ اتار کر تار تار کیا جائے گا؟ ہاں! تلخی ایام ابھی اور بڑھے گی ہاں! اہلِ ستم مشقِ ستم کرتے رہیں گے۔
"روزنامہ جسارت"
خبر کا کوڈ : 27909
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش