0
Friday 25 Jun 2010 19:36

اسرائیل جلد نابود ہو جائے گا،سی آئی اے کا اعتراف

اسرائیل جلد نابود ہو جائے گا،سی آئی اے کا اعتراف
آر اے سید
یہ سنت الہی بھی ہے اور تاریخ کی ایک ناقابل انکار حقیقت بھی،کہ ظلم کی شاخ کبھی پھولتی پھلتی ہي نہيں۔ظلم بہرحال ظلم ہے اسے مٹنا ہی ہوتا ہے اور اسی حقیقت کی روشنی میں جب آج سے چالیس سال قبل امام خمینی رہ نے فرمایا تھا کہ اسرائیل ایک سرطانی پھوڑا اور غاصب و غیرقانونی حکومت ہے،جو ظلم پر استوار ہے،اسے نابود ہی ہونا ہو گا،تو شاید اس وقت بہت کم لوگ امام خمینی رہ کی اس بات پر یقین کرتے رہے ہوں گے۔
امام خمینی رہ نے اسی طرح اشتراکیت اور کمیونسٹ نظام کے بارے میں بھی گورباچوف کے نام اپنے تاریخی خط ميں فرمایا تھا کہ بہت جلد کمیونزم کا شیرازہ بکھرنے والا ہے،اور اسے لوگ آئندہ صرف عجائب گھروں ميں تلاش کریں گے،اس وقت بھی لوگوں نے شاید بہت سنجيدگی سے اس پر غو رنہ کیا ہو۔مگر چند ہی برس کے اندر سویت یونین کا شیرازہ بکھر گیا اور کمیونسٹ بلاک کا آج دور دور تک کوئي نام و نشان نہيں ہے۔
اسی طرح امام خمینی رہ اور رہبرانقلاب اسلامی کے یہ فرامین بھی اب بہت جلد ہی حقیقت کا روپ دھارنے والے ہيں،کہ اسرائیل نابود ہو جائے گا۔اگر کوئي آج کے ذرائع ابلاغ کے کے پروپیگنڈوں سے متاثر مبصر،بظاہر غیرجانبدارنہ نگاہ سے ان باتوں کا جائزہ لیتا تو شاید اسے شک و یقین کی دوہری منزلوں سے گذرنا پڑتا،مگر جب امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک اس بات کا اعتراف کرنے لگيں کہ اب اسرائیل کی بقاء ممکن نہیں ہے،تو اب کسی کو شک نہيں رہ جانا چاہئے،خواہ وہ کتنا ہی متعصب مبصر کیوں نہ ہو۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی حضرت امام خمینی رہ نے جس حقیقت کی طرف اپنی حیات میں اشارہ کیا تھا،اور فلسطینی قوم کو جو انھوں نے نوید سنائی تھی،اب اس کے عملی جامہ پہننے میں زیادہ عرصہ درکار نہيں ہو گا اور جو لوگ اسرائیل کو ایک ناقابل شکست طاقت تصور کرتے تھے،وہ اس حقیقت کے سامنے سرتسلیم خم کر رہے ہيں۔رہبر انقلاب اسلامی نے بھی گذشتہ بدھ کو اپنے ایک اہم خطاب میں فرمایا تھا،آج امریکی معاشرے میں اس بات کو لے کر بہت زیادہ غم و غصہ پایا جا رہا ہے کہ آخر ان کے ملک پر صہیونی لابی کا اتنا اثر و رسوخ کیوں ہے؟اگرچہ امریکی حکومت اس ناراضگی اور غصے کو کم کرنے کی بے پناہ کوشش کر رہی ہے،مگر اس بات کو لے کر امریکی عوام کے غصے میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔
لبنانی فوج کے سابق بریگیڈئیر اور پارلیمنٹ کے ممبر ولید سکریہ نے بھی ابھی حال میں اپنے ایک بیان میں کہا کہ اسرائیل دعوی کرتا تھا کہ اسے کوئي بھی شکست نہيں دے سکتا،اور وہ اپنے اسی زعم میں علاقے کے تمام ملکوں کو ڈرایا دھمکایا کرتا تھا،مگر آج اس کے اندر نہ صرف یہ کہ اسلامی مزاحمتی قوتوں کی میزائلوں کا خوف بیٹھ گیا ہے،بلکہ وہ امن کے ان بین الاقوامی قافلوں سے بھی ڈرتا ہے،جو غزہ کے محصور فلسطینیوں کے لئے کھانے پینے کی اشیاء لے کر غزہ کی سمت روانہ ہوتے ہيں اور یہ سب کچھ اسرائیل کی نابودی کی علامت ہے۔
امریکہ کے ایک ممتاز نظریہ پرداز اسٹنلی مک کوہن نے بھی اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ آج پوری دنیا اسرائیلی مظالم کے مقابلے میں بیدار ہو چکی ہے،کہا کہ اب صہیونی حکام بین الاقوامی قوانین کی گرفت سے بچ کر فرار نہيں کر سکيں گے،اور وہ دورختم ہو گیا،جب صہیونی حکام قوانین کو پائمال کرتے اور اپنی من مانی کیا کرتے تھے۔اس امریکی نظریہ پرداز کا کہنا ہے کہ اسرائیل خود کو ایک جمہوری حکومت تو کہتا ہے اور آزادی بیان کا دم بھی بھرتا ہے،مگر وہ ایسے یہودیوں کو اپنے یہاں جگہ دینے کو ہرگز تیار نہيں جو صہیونیزم کو مسترد کرتے ہيں،وہ امریکہ کے ممتازدانشور نوام چامسکی جیسی شخصیت کو بھی تل ابیب کا دورہ کرنے کی اجازت نہيں دیتا۔مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ اسرائیل کے دل میں سمایا ہوا ایک خوف ہے، جو اس کے جرائم کی شکل میں نمودار ہوتا ہے۔مگر چونکہ ظلم کی ایک انتہا ہوتی ہے،اور اسے بہرحال ایک حد پر جا کر ختم ہونا ہوتا ہے۔ اسی لئے اب اسرائیل کے سب سے بڑے حامی سامراجی ملک امریکہ کی خفیہ تنظیم سی آئی اے نے صہیونی حکام کی نیندیں یہ کہہ کر اور زیادہ حرام کر دی ہيں کہ اسرائیل آئندہ برسوں میں ختم ہو جائے گا۔ سی آئی اے نے اپنی ٹاپ سکریٹ رپورٹ میں کہا ہے کہ اسرائیلی حکومت کا آئندہ بیس برسوں میں کوئي نام ونشان نہيں رہے گا۔ فلسطین الیوم نامی ویب سائٹ نے لکھا ہے کہ اس خفیہ رپورٹ کے مطابق جو دنیا کی بعض بہت ہی مشہور ویب سائٹوں پر شائع ہو چکی ہيں،سی آئی اے کو اب اسرائیل کی حیات اور بقاء پر یقین نہیں رہ گیا ہے۔سی آئی اے کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جب تک انیس سو اڑتالیس اور انیس سو سڑسٹھ کے فلسطینی پناہ گزینوں کو ان کے وطن واپس آنے کی اجازت نہيں دے دی جاتی،فلسطین کا پائیدار اور پرامن حل ممکن نہيں ہو گا۔سی آئی اے کی اس خفیہ رپورٹ میں جو معدودے چند افراد کو باخبر کرنے کے لئے تیار کی گئی تھی،کہا گیا ہے کہ فلسطینی پناہ گزین اپنی سرزمینوں کو لوٹ آئیں گے اور پھر اس کے نتیجے میں مقبوضہ سرزمینوں سے جہاں اسرائیل نے ناجائز طریقے سے صہیونیوں کو آباد کرایا ہے،بیس لاکھ صہیونیوں کی واپسی کا عمل شروع ہو جائے گا۔اس وقت بھی تقریبا پانچ لاکھ صہیونی،جو مقبوضہ علاقوں میں لا کر بسائے گئے ہيں،امریکی ریاست کیلیفرنیا جانے کے لئے پاسپورٹ اپنے ہاتھوں میں لئے تیار بیٹھے ہيں، لیکن کیلفرنیا میں صرف تین لاکھ افراد کو بسانےکی گنجائش موجود ہے۔
بین الاقوامی امور کے ماہر فرینکین لیمپ کا کہنا ہے کہ ان صہیونیوں نے لاکھ جتن کر کے جو پاسپورٹ حاصل کئے ہيں،اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ اسرائیل کے انجام سے باخبر ہيں۔سی آئی اے کی اس تازہ ترین رپورٹ میں کہا گيا ہے کہ باقی پندرہ لاکھ صہیونی بھی روس اور یورپ کے ديگر ملکوں میں منتقل ہو جائيں گے۔
یاد رہے کہ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اسرائیل کی سرزمین موعود کا خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا،جلد یا دیر اس کا خواب چکنا چور ہو جائے گا۔ دوسری طرف وہائٹ ہاؤس کے سابق و کہنہ مشق نامہ نگار ہیلن تھامس نے بھی کاروان آزادی پر اسرائیلی حملے کے بعد کہا تھا کہ اسرائیلیوں کو چاہئے کہ وہ فلسطین سے اپنا راستہ ناپیں اور وہ جرمنی،پولینڈ اور یا امریکہ کا رخ کریں۔ان کے اسی بیان پر انھیں استعفاء دینے پر مجبور کر دیا گیا۔نواسی سالہ کہنہ مشق امریکی تجزیہ نگار ہیلن تھامس نے جو وہائٹ ہاؤس میں گذشتہ پچاس برسوں سے پریس کلب کے ڈائریکٹر تھی،بارہا اس بات پر تاکید کی تھی کہ ذرائع ابلاغ کی یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو حقائق سے دور رکھیں،بلکہ ذرائع ابلاغ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں تک حقیقت منتقل کریں،اور اگر عوام کو حالات سے باخبر نہيں کیا جائے گا،تو ایسے ملک کی ڈیموکریسی ہمیشہ ہوا کے زد پر رہتی ہے۔
 یہاں پر قابل غور نکتہ یہ ہے کہ مغرب اور اسرائیل،کلی طور پر ڈیموکریسی اور آزادی بیان کے اصول کو اسی حد تک قبول کرتے ہيں، جہاں تک ان کے مفادات کو نقصان نہ پہنچے،تاکہ وہ اپنے سامراجی عزائم کو آگے بڑھا سکيں۔اسی لئے اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی حضرت امام خمینی رہ نے مغرب کے اس جھوٹے دعوے کو درک کرتے ہوئے،انیس سو ترسٹھ میں ہی فرما دیا تھا کہ ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ ہم اسرائیل کے بارے میں کچھ کہیں،یہ کون سا آزادی بیان ہے؟مغرب کے آزادی بیان کے بارے میں امام خمینی رہ کے بیانات کو آج سینتالیس سال کا عرصہ گذر جانے کے بعد دنیا کے لوگوں کی بیداری نے انھیں حقیقی معنوں ميں آزادی بیان کا تشنہ بنا دیا ہے،اور وہ ظلم و ستم پر کھل کر تنقید کر رہے ہيں،اور صہیونی حکومت کی کھوکھلی بنیادوں کے بتدریج ڈھہ جانے کا مشاہدہ کر رہے ہيں۔
خبر کا کوڈ : 29209
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش