0
Tuesday 27 Aug 2013 18:36

شام حکومت پر کیمیائی حملے کا الزام، کتنا سچ کتنا جھوٹ؟ / ویڈیو اور تصاویر

شام حکومت پر کیمیائی حملے کا الزام، کتنا سچ کتنا جھوٹ؟ / ویڈیو اور تصاویر
اسلام ٹائمز- گذشتہ ہفتے بدھ کے دن شام کے حکومت مخالف مسلح دہشت گرد گروہوں کی جانب سے یہ دعوا کیا گیا کہ شامی فوج نے دمشق کے نواح میں الغوطہ نامی خطے میں نہتے عوام پر زہریلی گیس سیرائن سے حملہ کیا ہے۔ شام کے مسلح باغیوں کی جانب سے یہ دعوا انتہائی شکوک و شبہات کے ہمراہ تھا لیکن شام مخالف مغربی اور عربی گٹھ جوڑ کیلئے بہانے کے طور پر کافی تھا اور انہوں نے اپنے میڈیا کے ذریعے شام کے خلاف ایک عظیم نفسیاتی جنگ کا آغاز کر دیا۔ امریکی حکام آج یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ انہیں شام کی جانب سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر مبنی شامی مسلح باغیوں کے دعوے میں ذرہ بھر شک محسوس نہیں ہوتا لہذا وہ شام کے خلاف فوجی کاروائی کو اپنا وظیفہ سمجھتے ہیں۔ 
 
لیکن امریکی دعووں کے برخلاف شام حکومت پر لگائے جانے والے اس الزام میں شدید قسم کے شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں اور ایسے ٹھوس شواہد موجود ہیں جو شام کے مسلح باغیوں کے اس الزام کو جھوٹا ثابت کرنے کیلئے کافی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ امریکی حکام ان شواہد سے اپنی آنکھیں جان بوجھ کر پھیر لیں اور ہمیشہ کی طرح اپنے غلط دعوے پر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے رہیں۔ اس کالم میں ہم ایسے 9 دلائل اور شواہد پیش کر رہے ہیں جو شام حکومت پر لگائے جانے والے اس الزام کو جھوٹا اور من گھڑت ثابت کرنے کیلئے کافی ہیں۔
 
1.    اگر سیاسی اور اسٹریٹجک اعتبار سے دیکھا جائے تو دو متخاصم گروہوں میں سے وہ گروہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا استعمال کرتا ہے جس کا دشمن اس کی دسترس اور کنٹرول سے باہر ہو اور اسے اپنی کامیابی کی کوئی امید نظر نہ آتی ہو۔ مثال کے طور پر دوسری جنگ عظیم میں امریکہ نے جاپان کے خلاف ہیروشیما اور ناگاساکی میں دو ایٹم بم حملے انجام دیئے کیونکہ وہ اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ جاپانی مرنے پر تو تیار ہیں لیکن ان کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر آمادہ نہیں۔ اسی طرح ایران عراق جنگ کے اواخر میں بھی جب ایرانی فورسز مسلسل پیش قدمی کی حالت میں تھیں اور عراق کے اندر تک گھس چکی تھیں اور عراقی فوج روایتی جنگ اور ہتھیاروں کے ذریعے ان کی پیش قدمی کو روکنے سے قاصر نظر آ رہی تھی تو مجبور ہو کر عراق نے کیمیائی ہتھیاروں کا سہارا لیا اور ایرانی فورسز اور حلبچہ جیسے ان کے زیرتسلط اپنے ہی علاقوں پر بڑے پیمانے پر کیمیائی ہتھیاروں کی بارش کر دی۔ جبکہ شام میں جاری بحران میں ہم دیکھتے ہیں کہ شامی فوج اس قسم کے حالات سے بالکل روبرو نہیں بلکہ یہ حکومت مخالف مسلح دہشت گرد گروہ ہیں جو کئی ماہ سے مسلسل شکست کھا کر عقب نشینی کرنے پر مجبور نظر آتے ہیں۔ لہذا اس اعتبار سے کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ شامی فوج غیرروایتی ہتھیاروں کا سہارا لینے پر مجبور ہو چکی ہو۔ 

2.    فوجی ماہرین اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ جب بھی کسی علاقے میں کیمیائی ہتھیاروں سے حملہ کیا جاتا ہے، حملے کے 12 گھنٹے اور بعض اوقات ایک ہفتے بعد تک مخصوص قسم کے لباس اور ماسک کے بغیر داخل ہونا عقلی طور پر محال ہوتا ہے۔ جبکہ شام کے حکومت مخالف مسلح گروہوں کی جانب سے شائع کردہ تصاویر اور ویڈیوز میں جن کے بارے میں دعوا کیا گیا ہے کہ یہ تصاویر اور ویڈیوز حملے کے صرف چند گھنٹے بعد بنائی گئی ہیں ہم دیکھتے ہیں کہ مدد کرنے والے افراد اور ڈاکٹرز نے کیمیائی حملے کے اثرات سے بچنے کیلئے کسی قسم کا مخصوص لبان نہیں پہن رکھا۔ بلکہ یہ بات یقینی ہے کہ اس قسم کا مخصوص لباس شامی مسلح باغیوں کے پاس ہے ہی نہیں۔ 

3.    جیسا کہ سب کو معلوم ہے الغوطہ کا علاقہ دمشق کے گردونواح میں واقع ہے اور دمشق سے اس کا فاصلہ چند کلومیٹر ہی ہے۔ اس کے علاوہ اس علاقے میں تیز ہوائیں بھی چلتی رہتی ہیں۔ ان دو وجوہات کی بنا پر شامی فوج اس علاقے میں زہریلی گیس استعمال کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی کیونکہ اس بات کا شدید خطرہ موجود ہے کہ یہ گیس ہوا کے ساتھ پھیلتی ہوئی دارالحکومت دمشق کو بھی متاثر کر دے۔ اور اگر بالفرض فوج نے ایسا کیمیائی حملہ انجام بھی دیا ہوتا تو اس کے اثرات دمشق میں بھی نظر آنے چاہئیں تھے لیکن اب تک ایسی کوئی خبر موصول نہیں ہوئی۔ 

4.    ایسے ٹھوس شواہد موجود ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ شام کے حکومت مخالف مسلح دہشت گرد گروہوں کی جانب سے کیمیائی حملے سے متعلق تیارکردہ تصاویر اور ویڈیوز جن کی بنیاد پر شام حکومت پر اس حملے کا الزام لگایا گیا ہے اور ان دہشت گرد مسلح گروہوں کے سرپرست اور حامی مغربی اور عربی ممالک کی جانب سے غلیظ پروپیگنڈے کا آغاز کیا گیا ہے، یہ حملہ واقع ہونے سے پہلے ہی انٹرنیٹ پر شائع کر دی گئی ہیں۔ اس امر کی نشاندہی روس کی وزارت خارجہ کے ترجمان کے بیان میں بھی کی گئی ہے۔ شام حکومت کے خلاف یہ عظیم سازش تیار کرنے والے احمق دہشت گرد گروہوں کی جانب سے اس اسٹریٹجک غلطی کا ارتکاب یقینا حق طلب اسلامی مزاحمتی بلاک کے حق میں خدا کی جانب سے ایک غیبی مدد کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے؟

5.    شامی فوج نے اس غلیظ پروپیگنڈے کے آغاز کے بعد الغوطہ کے علاقے میں آپریشن انجام دیا اور وہاں سے بڑی مقدار میں کیمیائی اسلحہ بنانے کا سامان اور کیمیکل مواد کشف کیا۔ کشف ہونے والے کیمیکل مواد پر عربی زبان میں سعودی عرب اور قطر میڈ ہونے کی مہریں واضح طور پر قابل مشاہدہ ہیں۔ یاد رہے کہ یہ علاقہ اس حملے کے انجام تک مسلح باغیوں کے کنٹرول میں تھا۔ 








islamtimes.org/images/userfiles/files/saudi%20chemicals.flv
6.    روس نے اس حملے کے فورا بعد رسمی طور پر اعلان کیا تھا کہ اس کے سیٹلائٹس سے لی گئی تصاویر اور ویڈیوز سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کیمیائی حملے میں استعمال ہونے والے میزائل شام مخالف مسلح دہشت گرد گروہوں کے زیرتسلط علاقے سے فائر کئے گئے۔ روس یہ تصاویر اور ویڈیوز سیکورٹی کونسل کے اجلاس میں بھی تمام رکن ممالک کو دکھا چکا ہے اور اب تک ان ممالک میں سے کسی نے ان کی تردید یا تکذیب نہیں کی۔ 

7.    شام کے حکومت مخالف مسلح دہشت گرد گروہوں کی جانب سے جاری کردہ تصاویر اور ویڈیوز میں صرف معصوم بچوں کو ہی دکھایا گیا ہے گویا اس حملے میں استعمال ہونے والی زہریلی گیس نے صرف بچوں کو ہی چن چن کر نشانہ بنایا ہے جبکہ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ زہریلی گیس سیرائن کسی بھی جاندار چیز پر رحم نہیں کرتی۔ جو چیز انتہائی واضح ہے وہ یہ کہ یہ تصاویر اور ویڈیوز بناتے وقت حد درجہ مظلوم نمائی کی گئی ہے۔ 

8.    شام حکومت کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کا الزام ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب اقوام متحدہ کے انسپکٹرز شام میں موجود ہیں۔ مزید یہ کہ شام حکومت نے اس الزام کے بعد ان انسپکٹرز کو جائے وقوعہ کا معائنہ کرنے کی بھی اجازت دے دی ہے۔ کس منطق کے تحت ایک حکومت اپنے ملک میں کیمیائی ہتھیاروں کے ماہر اقوام متحدہ کے انسپکٹرز کی موجودگی میں ان کی رہائش سے صرف چند کلومیٹر دور کیمیائی حملہ انجام دینے کی جرات کر سکتی ہے؟ یہ آخر کہاں کی عقل مندی ہے؟

9.    آخرکار یہ کہ سیاسی اعتبار سے شام حکومت کو اچھی طرح علم تھا کہ امریکی حکام نے اردن میں اس کے خلاف جنگ شروع کرنے کیلئے مشترکہ ہیڈکوارٹر بنا رکھا ہے اور کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کو اپنی ریڈلائن کے طور پر بھی اعلان کر رکھا ہے اور یہ کہ مغربی عربی گٹھ جوڑ اپنے حمایت یافتہ مسلح تکفیری دہشت گرد عناصر کی مسلسل شکست کی وجہ سے شام پر فوجی حملے کا بہانہ تلاش کر رہے ہیں۔ ان حقائق کے پیش نظر کوئی بھی عقل مند سیاست دان ایسے وقت جب ملک کی سیکورٹی فورسز دہشت گردوں کے مقابلے میں یکے بعد دیگرے فتح سے ہمکنار ہو رہی ہوں کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کا احمقانہ فیصلہ کر کے اپنی یقنی کامیابی کو خطرے سے دوچار نہیں کر سکتا۔ 
 
مذکورہ بالا 9 دلیلیں شام حکومت کے خلاف الغوطہ میں کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے پر مبنی الزام کو جھوٹا ثابت کرنے کیلئے کافی ہیں۔ لیکن ان سب کے باوجود امریکی حکام ایک ہی رٹ لگائے بیٹھے ہیں اور وہ یہ کہ اس حملے میں شام حکومت کے ملوث ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ اس ضد اور ہٹ دھرمی سے واضح ہو جاتا ہے کہ شام مخالف مغربی عربی گٹھ جوڑ شام میں فوجی مداخلت کا بہانہ چاہتے ہیں۔ وہ دیکھ رہے ہیں کہ شام میں فوج اور سیکورٹی فورسز نے ان کے حمایت یافتہ تکفیری دہشت گردوں کے دانت کھٹے کر دیئے ہیں اور روز بروز ان دہشت گردوں کے حوصلے پست ہوتے جا رہے ہیں لہذا اس مرحلے پر تکفیری دہشت گردوں کے خلاف شام حکومت کی یقینی فتح اور کامیابی کو روکنے کیلئے فوجی مداخلت کو انتہائی ضروری سمجھتے ہیں۔
 
 انسانی حقوق کا نعرہ لگانے والے مغربی ممالک شام میں اپنے سیاسی اہداف کی خاطر معصوم بچوں اور نہتے عوام کو زہریلی گیس سے قتل عام کرنے سے بھی نہیں کتراتے کیونکہ ان کیلئے جو چیز اہم ہے وہ ان کے سیاسی مفادات ہیں۔ جیسا کہ انہوں نے ماضی میں افغانستان اور عراق میں اس حقیقت کا کھل کر اظہار کیا ہے۔ شام پر فوجی حملے کیلئے امریکہ اور اسلامی مزاحمت کے دشمن مغربی و عربی ممالک کو صرف ایک بہانہ چاہئے تھا جو شام کے حکومت مخالف تکفیری دہشت گردوں نے پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت انہیں فراہم کر دیا ہے۔ البتہ عراق کی طرح اب بھی امریکہ اور اس کے حامی مغربی و عربی ممالک کی بھول ہے کہ وہ طاقت کے استعمال سے خطے میں موجود اسلامی مزاحمت کی تحریک کو کمزور کر سکتے ہیں بلکہ شام پر فوجی حملہ ان کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گا۔ 
 
البتہ اب بھی پورے یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ امریکہ شام کے خلاف فوجی حملے کی دھمکیوں کو عملی جامہ پہنائے گا لیکن اگر وہ ایسا عملی اقدام اٹھاتا ہے تو اسے عراق پر فوجی حملے کے نتیجے میں بھگتنے والے نقصان سے کہیں زیادہ سنگین نقصانات کا متحمل ہونا پڑے گا۔ کل ہی معروف نیوز ویب سائٹ فارن پالیسی نے ایسی مستند دستاویزات شائع کی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ ایران عراق جنگ کے دوران سابق ڈکٹیٹر صدام حسین کی جانب سے ایران کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کے بارے میں نہ صرف مکمل طور پر مطلع تھا بلکہ اس نے عراقی حکومت کو سیٹلائٹ تصاویر اور نقشے فراہم کر کے ان جان لیوا کیمیائی حملوں میں اس کی معاونت بھی کی۔ وہی امریکہ آج شام میں فرضی کیمیائی حملوں پر اپنا گریبان چاک کرتا نظر آتا ہے گویا اس کا دل شامی عوام کیلئے جل اٹھا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کے حیوان صفت اور مفاد پرست سیاستدانوں اور حکام کیلئے صرف ایک چیز اہم ہے اور وہ ان کے سیاسی مفادات ہیں۔ کہیں یہ سیاسی مفادات کیمیائی حملوں میں معاونت کر کے حاصل ہوتے ہیں تو کہیں فرضی کیمیائی حملوں پر گریبان چاک کر کے اور صف ماتم بچھا کر حاصل ہوتے ہیں۔ 
خبر کا کوڈ : 296070
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش