0
Monday 11 Nov 2013 01:00

فلسطینی اسیروں کی صیہونی زندانوں میں ابتر صورتحال

فلسطینی اسیروں کی صیہونی زندانوں میں ابتر صورتحال
تحریر: صابر کربلائی
(ترجمان فلسطین فائونڈیشن پاکستان)
 

انبیاء علیہم السلام کی سرزمین فلسطین میں بسنے والے مظلوم فلسطینی عوام گذشتہ پینسٹھ برس سے غاصب اسرائیلی دشمن کی چیرہ دستیوں کا نشانہ بن رہے ہیں، کبھی اسرائیلی صیہونی دہشت گرد حکومت مسلمانوں کے تیسرے مقدس مقام مسجد اقصیٰ کہ جسے بیت المقدس کہا جاتا ہے کی توہین کرتی ہے تو کبھی مظلوم فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کر کے ان کے گھروں کی جگہ صیہونیوں کے لئے یہودی بستیوں کی تعمیر کی جاتی ہے، کبھی مظلوم اور بےکس فلسطینیوں کے روزگار پر قبضہ کر لیا جاتا ہے اور انہیں اپنے ہی کھیتوں میں کام کرنے سے روکا جاتا ہے اور سمندر میں مچھلیاں پکڑنے اور فروخت کرنے پر گرفتار کر لیا جاتا ہے، کبھی ان کے معصوم بچوں کو جرم و خطا گرفتار کر کے کئی کئی ماہ تک اسرائیلی خطر ناک جیلوں میں رکھا جاتا ہے جہاں پر ان کو جسمانی اذیتوں کے ساتھ ساتھ دماغی اور نفسیاتی اذیت بھی دی جاتی ہے۔ اس حوالے سے جنس کی کوئی قید نہیں بلکہ خواتین اور مرد فلسطینیوں کو کسی بھی وقت گرفتار کر لیا جاتا ہے اور بغیر کسی وجہ بتائے ان بے گناہوں کو سخت مظالم کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اسی طرح فلسطین کے بچوں کے لئے قائم اسکولوں کی عمارتوں کی حالت دیکھی جائے جو کہ بم دھماکوں سے تباہ حال ہو چکی ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ زندگی ختم ہو گئی ہے لیکن سلام ہو ان باہمت فلسطینیوں پر کہ جو غاصب اسرائیلی دشمن کی ان چیر دستیوں کے سامنے سینہ سپر ہیں اور اپنے حقوق کے دفاع کی خاطر قیام کئے ہوئے ہیں۔ غرض یہ کہ فلسطین کا نام لیتے ہی درجنوں مسائل اور مصائب کا خیال دماغ میں آنا شروع ہو جاتا ہے انہی تمام مسائل میں سے ایک اہم ترین مسئلہ فلسطینی عوام کے لئے ان افراد کا ہے جنہیں غاصب صیہونی افواج نے بےجرم و بےخطا زندانوں میں قید کر رکھا ہے اور ان میں سے اکثریت کو عمر قید کی سزائیں دی گئی ہیں۔

انہی اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی قیدیوں کے ساتھ جہاں ناروا سلوک رکھا جاتا ہے وہاں اسرائیلی جیلوں کی بدترین حالت کے باعث سیکڑوں فلسطینی قیدی مختلف انواع کی بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں، ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت اسرائیلی جیلوں میں قید ہزاروں فلسطینیوں میں سے چودہ سو فلسطینی مختلف قسم کی بیماریوں کی تکلیف میں مبتلا ہیں لیکن اس کے باوجود بھی قید و بند کی صعوبتیں ان پر جاری ہیں اور ان کی دیکھ بھال نہیں کی جا رہی ہے۔ اسی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اسرائیلی جیلوں میں قید چودہ سو فلسطینی بیماریوں میں مبتلا ہیں جبکہ پچیس فلسطینی قیدی ایسے بھی ہیں جنہیں کینسر کی بیماری لاحق ہو چکی ہے اور ان کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔

ایک فلسطینی قیدی معتصم رداد کی والدہ جب ریمون کی ایک اسرائیلی جیل میں اپنے بیٹے سے ملاقات کے لئے پہنچی تو اس وقت اپنے بیٹے کی خستہ حالت دیکھ کر فلسطینی ماں کی جو کیفیت تھی وہ الفاظ میں بیان نہیں کی جا سکتی، البتہ جب وہ اپنے بیٹے کے سامنے کھڑی تھی تو اس نے محسوس کیا کہ اس کا جوان بیٹا اپنے پیروں پر ٹھیک سے کھڑا نہیں ہو رہا ہے تو اس بوڑھی ماں نے اپنے بیٹے کو سہارا دے کر کھڑا کیا اور اسی لمحے معتصم رداد کے وکیل نے اس کی ماں کو بتایا کہ معتصم کو کینسر ہو چکا ہے اور اس کے جسم کے بائیں طرف کے اعضاء بہت جلد کام کرنا چھوڑ دیں گے اور وہ مستقبل میں اپنے پائوں پر کھڑا بھی ہونے کے قابل نہیں ہو گا، معتصم کی والدہ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور کہا کہ میں نے جب بھی معتصم سے بات کی اس نے مجھے ہمیشہ بتایا کہ وہ ٹھیک ہے لیکن چونکہ وہ تمام ملاقاتیں ایک شیشے کے پیچھے سے ہوتی رہیں تو میں اپنے بیٹے کی حالت کو دیکھ نہ سکی لیکن مجھے اس کی باتوں پر یقین نہیں آتا تھا کیونکہ مجھے محسوس ہوتا تھا کہ اس سخت قسم کی جیل میں وہ کس طرح ٹھیک ہو سکتا ہے۔

اکتیس سالہ فلسطینی نوجوان معتصم کو 2006ء میں قید کیا گیا تھا اور اب اس کی حالت یہ ہے کہ وہ کینسر کے مہلک مرض میں مبتلا ہے اور اس کا پورا جسم ناکارہ ہو رہا ہے۔ اس کی حالت دن بہ دن خراب ہو رہی ہے کیونکہ اسے میڈیکل کی سہولیات میسر نہیں کی جا رہی ہیں، جیل انتظامیہ صرف اور صرف معتصم کو درد ختم کرنے والی دوائیں دے کر اپنی ذمہ داری سے فرار کر رہی ہے، جیل انتظامیہ نے اس بات کی تصدیق اس وقت کی کہ جب معتصم کے جسم میں خون کی مقدار تیزی سے کم ہو رہی تھی تاہم انتظامیہ نے اسے ایک مقامی اسپتال منتقل کیا اور پھر اس کے بعد رملہ جیل میں بھیج دیا گیا۔ معتصم کے جسم کا وزن چودہ کلو گرام کم ہو چکا ہے، اور وہ شدید تکلیف اور کرب میں بھی صیہونی قید میں موجود ہے، یہاں پر بھی اسے رملہ جیل انتظامیہ نے صرف درد ختم کرنے والی دوائیاں دے کر فارغ کر دیا جس کے باعث آج اس کی حالت نازک ہو چکی ہے اور وہ مہلک ترین مرض کینسر میں مبتلا ہے۔ فلسطینی نوجوان قیدی معتصم رداد کی والدہ کہتی ہیں کہ ان کا بیٹا انتہائی کمزور ہو چکا ہے اور اس کے جسم میں طاقت باقی نہیں کہ وہ چل سکے یا کھڑا بھی ہو سکے تاہم صیہونی انتظامیہ معتصم کی دیکھ بھال میں غفلت برت رہی ہے جس سے اس کی زندگی کو شدید خطرہ لاحق ہے، معتصم کی والدہ نے شکایت کی ہے کہ صیہونی جیل انتظامیہ معتصم کی زندگی کے ساتھ کھیل رہی ہے اور اسے کیمو تھراپی کے انجکشن لگائے جا رہے ہیں اور اب تک پینتالیس انجکشن لگائے جا چکے ہیں جبکہ اس کے جسم کی سوجن مزید بڑھ رہی ہے اور وہ اپنے جسم کی قوت کو کھو رہا ہے۔

معتصم رداد چودہ سو فلسطینی قیدیوں میں سے صرف ایک مثال ہے جبکہ اس کے ساتھ مزید چوبیس قیدی ایسے ہیں جو کہ کینسر میں مبتلا ہیں اور باقی چودہ سو قیدیوں کی صورتحال کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ ان کی جسمانی کیفیت کیسی ہو گی؟ صیہونی جیل کی انتظامیہ نے معتصم کو باہر کسی اسپتال میں لے جا کر علاج معالجے کے لئے مسترد کر دیا ہے اور نہ ہی اسے آزاد کرنے پر تیار ہے۔ معتصم کی والدہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے سرکاری سطح پر تمام کوششیں کی ہیں کہ کسی طرح ان کے بیٹے کو آزادی ملے اور وہ اس کا علاج کروا پائیں لیکن تمام تر کوششیں ناکام ہو چکی ہیں، اور کینسر کی حالت یہ ہے کہ معتصم کے پورے جسم میں پھیل چکا ہے۔
دوسری جانب فلسطینی ریاست کے فلسطینی قیدیوں کے وزیر عیسیٰ قراق نے بتایا ہے کہ اسرائیلی جیلوں میں اس وقت چودہ سو قیدی ایسے موجود ہیں جو بیماریوں میں مبتلا ہیں جبکہ پچیس قیدیوں کو کینسر کی شکایت لاحق ہو چکی ہیں جبکہ ان میں سے دس فلسطینی قیدی ایسے ہیں جن کے پورے جسم ناکارہ ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی جیلوں کی انتظامیہ کی حکمت عملی یہ ہے کہ وہ قیدیوں کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھتے ہیں اور بیماری کی حالت میں علاج معالجے کی سہولیات بھی فراہم نہیں کی جاتیں ابھی ماضی قریب میں بھی ایک فلسطینی قیدی ابو حمدیہ کو عین اس وقت جیل سے رہا کیا گیا جب وہ بالکل اپنی زندگی کے آخری مرحلے میں تھا اور پھر چند روز میں ہی دنیا سے رخصت ہو گیا۔ اسرائیلی انتظامیہ نے اس عمل کو اپنی پالیسی کا حصہ بنا لیا ہے کہ جیلوں میں قید بیمار فلسطینی قیدیوں کو آہستہ آہستہ موت کی طرف لے جایا جائے تا کہ وہ اذیت کا شکار رہیں۔

اسرائیل نہ صرف پوری دنیا میں کھلے عام دہشت گردی انجام دے رہا ہے بلکہ اپنی جیلوں میں قید بے گناہ فلسطینی قیدیوں پر بھی مجرمانہ انداز میں مظالم جاری رکھے ہوئے ہے جس کے نتیجے میں آہستہ آہستہ قیدیوں کو موت کی طرف لایا جا رہا ہے تاکہ وہ بیماری کی حالت میں اس قدر ابتر ہو جائیں کہ بالآخر موت واقع ہو جائے اور اسی لئے اسرائیلی انتظامیہ نے اپنی پالیسی بنا لی ہے کہ اسرائیلی جیلوں میں اسپتال قائم نہ کئے جائیں اور نہ ہی بیمار فلسطینی قیدیوں کو علاج معالجہ کی اجازت دی جائے۔ اسی طرح ظلم پر ظلم یہ ہے کہ اسرائیلی غاصب انتظامیہ کمسن اور نئے ڈاکٹر بننے والے طالب علموں کو بھی جیل بھیجتی ہے کہ جو اپنے تجربات زندہ انسانوں پر کرتے ہیں اور اپنی ڈاکٹری کی ڈگری میں مہارت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اس قسم کی حرکات کے باعث کئی ایک فلسطینی قیدیوں کو نہ صرف غلط ادویات دی گئیں بلکہ ان کے ساتھ ہونے والے تجربات سے ان کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔ معتصم رداد سینکڑوں فلسطینی قیدیوں میں سے ایک ایسا فلسطینی قیدی ہے جو اسرائیلی جیل میں قید ہے اور کینسر کے مرض میں مبتلا ہے جسے اسرائیلی جیل انتظامیہ کی جانب سے کسی قسم کی علاج معالجے کی نہ تو سہولت میسر کی گئی ہے اور ہی اسے یہ اجازت ہے کہ وہ باہر کسی اسپتال میں اپنا علاج مکمل کروا سکے۔ یہ غاصب اسرائیلی حکومت کی درندگی اور سفاکیت کی ایک واضح مثال ہے جو اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کی ابتر صورتحال دیکھنے سے محسوس کی جا سکتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 319122
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش