0
Saturday 28 Dec 2013 19:53

دینی تعلیم، نظام اور نصاب میں جوہری تبدیلیوں کی ضرورت

دینی تعلیم، نظام اور نصاب میں جوہری تبدیلیوں کی ضرورت
تحریر: ثاقب اکبر

ہمارے ہاں رائج دینی تعلیم کے نظام اور نصاب میں مختلف حوالے سے تبدیلی کی ضرورت پر ایک عرصے سے لکھا اور کہا جا رہا ہے۔ تبدیلی کی ضرورت کو مختلف زاویوں سے بیان کیا جاتا ہے۔ تبدیلی پر زور دینے والوں میں خود دینی تعلیم سے وابستہ افراد بھی رہے ہیں اور آج بھی ہیں۔ بظاہر مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے اہل علم نے بھی رائج تعلیمی نظام اور اس کے نصاب پر گہری تنقید کی ہے۔ البتہ بعض ایسے افراد بھی اس پر تنقید کرتے ہیں جن کو مذہبی حلقہ سیکولر قرار دیتا ہے۔ مذہبی حلقے سے باہر تنقید کرنے والوں میں ایسے افراد بھی ہیں جو کائنات کی روحانی تعبیر پر یقین رکھتے ہیں اور ایسے بھی ہیں جو اس پر عقیدہ نہیں رکھتے۔

ہماری رائے میں اس وقت پاکستانی معاشرہ مجموعی طور پر جن حالات سے دوچار ہے اور جس صورتحال سے گزر رہا ہے، اس میں اس پورے نصاب اور نظام پر نہایت سنجیدگی سے فوری طور پر ناقدانہ نظر ڈال کر بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے اور اگر اس ضرورت کا ادراک اس وقت نہیں کیا گیا تو ہم بہت بڑے بحران کا شکار ہو جائیں گے۔ اس مختصر سی تحریر میں تمام پہلوؤں کا کماحقہ جائزہ نہیں لیا جاسکتا لیکن ہم بعض اہم پہلوؤں کے بارے میں اپنی معروضات پیش کرتے ہیں۔

* عصری تعلیم کے ادارے بھی مختلف طرح کے نظام تعلیم اور نصاب تعلیم کے حوالوں سے منقسم ہیں۔ ان کے معیارات بھی مختلف ہیں۔ وہ جس طرح کی ذہنی ساخت میں ڈھال کر نوجوان نسل کو اپنے دروازوں سے باہر بھیجتے ہیں، وہ مختلف طرح کے گروہ پیدا کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔

* تعلیم کا شعبہ صوبوں کو منتقل ہو جانے کی وجہ سے وفاقی سطح پر تعلیمی اداروں کی نگرانی کا نظام بہت کمزور ہوگیا ہے۔

* ایک طرف مذکورہ بالا صورتحال ہے اور دوسری طرف مذہبی تعلیم کے ادارے بھی پانچ وفاقوں میں منقسم ہیں۔ مسالک کی بنیاد پر منقسم یہ وفاق خاص طرح کے مذہبی ذہن تیار کرتے ہیں اور مذہب کے نام پر جذباتیت بذات خود جزو لاینفق کی طرح سے جڑی ہوئی ہوتی ہے۔ یہاں کے فارغ التحصیلان پانچ طرح کے مدارس، پانچ طرح کی مسجدیں اور پانچ طرح کی قومیں تیار کرتے ہیں۔ جو کہیں کہیں ایک دوسرے کے ساتھ بھی کھڑی ہو جاتی ہیں لیکن زیادہ تر ایک دوسرے کے مقابل اور آمنے سامنے رہتی ہیں۔

مذہبی بنیاد پر معاشرے میں تناؤ اور کشیدگی میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے اور ہر نقطہ نظر کی ترجمانی کسی خاص مسلک سے وابستہ مذہبی جماعت اور کسی خاص مسلک سے وابستہ مذہبی شخصیت کرتی ہے۔ ملک کے بہت سے وسائل اس صورتحال کو سنبھالنے اور کنٹرول کرنے میں صرف ہو رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ریاستی اداروں پر بوجھ خاصا بڑھ گیا ہے۔ پولیس جسے پہلے چوری، ڈکیتی، حادثات، خاندانی جھگڑوں اور اس طرح کی دیگر قانون شکنیوں کی عمومی وارداتوں سے نمٹنا ہوتا تھا، کی بہت سی صلاحتیں فرقہ وارانہ کشیدگیوں اور انتہا پسندانہ کارروائیوں کے سدباب پر صرف ہو رہی ہیں۔

ذرائع ابلاغ کے اوقات کا بہت سا حصہ اور ان کے بہت سے صفحات اسی موضوع کے نظر ہو جاتے ہیں۔ پاک فوج بھی اس وقت اس صورتحال کو سنبھالنے میں شریک ہوچکی ہے۔ ملک دشمنوں اور خارجی حملوں کا مقابلہ کرنے کے ساتھ ساتھ اب اس کی ایک بڑی ذمہ داری لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال کو کنڑول کرنے میں معاونت بھی بن چکی ہے۔ ہم نہیں کہتے کہ لاء اینڈ آرڈر کے تمام مسائل مذہبی شدت پسندی کے سبب ہیں، لیکن ہماری نظر میں اس کا بڑا حصہ اسی کے سبب ہے۔

اگر اسی رفتار سے یہ صورتحال آگے کی طرف بڑھتی رہی تو پورے معاشرے کو ایک بڑے توڑ پھوڑ اور تباہی سے ہمکنار ہونے سے نہیں بچایا جا سکے گا۔ اگر ایسے میں ریاستی قوت نے ملک کو بچانے کا فیصلہ کیا تو پھر وہ یقینی طور پر مذہبی اداروں، جماعتوں اور مدارس پر بھی آہنی ہاتھ ڈالے گی۔ لہذا بہتر یہ ہے کہ کسی بڑی تباہی تک پہنچنے سے پہلے اہل مذہب خود معاملات کو سنبھالیں اور جو مخلصین سنجیدہ تجاویز پیش کر رہے ہیں یا پیش کرچکے ہیں، انکا جائزہ لے کر اصلاح کی بنیادیں رکھیں۔ 

ہماری رائے یہ ہے کہ مذہب کے نام پر تقسیم، مدارس کے اندر خرابی کی بنیاد ہے۔ وہ افراد جن کے ہاتھ میں اسی تقسیم کی بنیاد پر مذہبی اقتدار اور وسائل ہیں، شاید ان کو سمجھانا اتنا آسان نہیں، لیکن ان سے بھی ہمدردی کا تقاضا یہی ہے کہ انھیں قبل ازیں مختلف معاشروں میں مذہبی تفریق اور انتہاء پسندی کے خوفناک اور المناک نتائج کی طرف متوجہ کیا جائے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ دین کے آفاقی تصور کی طرف واپس آیا جائے۔ وہ دین جو ساری بشریت کی بھلائی کے لیے آیا ہے، جو سارے نبیوں کا دین رہا ہے۔ انبیا اللہ کی طرف سے عدل اور قسط کے قیام کا مینڈیٹ لے کر دنیا میں تشریف لائے۔ ان کی دعوت خدا کی طرف تھی۔ وہ ’’قانون کی نظر میں سب مساوی ہیں‘‘ کا اصول معاشروں پر حاکم کرنے کے لیے آئے تھے۔ اگر اس امر کو دینی تعلیم کا وژن قرار دے کر اس کے نصاب کو ازسر نو مرتب کیا جائے تو ہم نہیں سمجھتے کہ مسالک کی بنیاد پر مدارس کی تقسیم ضروری رہ جائے گی۔

مختلف نقطہ ہائے نظر کے باقی رہنے کے ہم ہرگز خلاف نہیں ہیں، لیکن تمام نقطہ ہائے نظر کو اعتدال کے ساتھ یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ دوسری رائے رکھنے والے بھی ان نظریات اور ان کے دلائل سے آگاہ ہوسکیں بلکہ ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ تمام نقطہ ہائے نظر کو اس پورے نظام پر اعتماد ہو اور وہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب اعتماد سازی کے لیے بنیادی اقدامات کیے جائیں۔ ہم فزیکل اور سوشل سائنسز کے مختلف مضامین میں ماہرین کے مختلف نظریات کا مطالعہ کرتے ہیں، ان سے کوئی فرقہ واریت جنم نہیں لیتی۔ مذہبی نظریات کو بھی جذباتیت سے ہٹ کر دلیل کی بنیاد پر اس طرح سے پیش کیا جاسکتا ہے کہ جس سے فرقہ واریت کے بجائے ہم آہنگی اور ایک دوسرے کے احترام کے جذبات پروان چڑھ سکیں۔

ہم یہ بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ مذہبی تعلیم کو علوم کی عصری پیش رفت سے ہم آہنگ کیا جانا ضروری ہے۔ معاشرہ شناسی اور معرفت انسان کے مضامین کے بغیر عصری تعلیم ہمیشہ ناقص رہیں گی۔ لہذا ان مضامین کو مذہبی تعلیم کے نصاب کا ضروری حصہ سمجھا جانا چاہیے۔

ایک قوم اور ایک ہدف کا نظریہ اپنا کر ہم تعلیم کو معاشرے کے تمام عناصر کو باہم جوڑ کر ایک منزل کی طرف گامزن کرنے کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔ اس کے لیے تعلیم، نصاب، نظام، امتحانات اور اعطائے اسناد کے لیے مختلف مراکز کے بجائے ایسی مرکزیت پیدا کرنے کی ضرورت ہے جو اس نظریئے کی حفاظت کی کفیل ہو۔ اس سے ہماری مراد یہ نہیں ہے کہ اختیارات اور ذمہ داریوں کی تقسیم نہ ہو، بلکہ ہم فقط تعلیم کو ایک ہدف کی طرف لے جانے پر زور دینا چاہتے ہیں۔

جیسے کوئی قوم آج دیگر قوموں سے منقطع ہو کر نہیں رہ سکتی، اسی طرح کسی قوم کے لیے درست تعلیمی نظام اور نصاب بھی باقی دنیا، اس کے مسائل اور مختلف حوالوں سے پیش رفتوں سے آنکھیں موند کر نہیں بنایا جاسکتا۔

ہمیں اس بات پر اصرار نہیں کہ ہماری ہر بات ہر لحاظ سے درست اور کامل ہے، البتہ ہمیں اس بات پر اصرار ہے کہ ہم نے خلوص نیت سے چند معروضات پیش کئے ہیں، جن کا متعلقہ احباب سنجیدگی سے جائزہ لیں، تاہم یہ سب ابھی اشارات ہیں، اس اجمال کی تفصیل ابھی باقی ہے۔
خبر کا کوڈ : 335145
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش