0
Wednesday 8 Jan 2014 21:27

قومی امن کنونشن پر ایک نظر

قومی امن کنونشن پر ایک نظر
تحریر: سبطین شیرازی

مجلس وحدت مسلمین، سنی اتحاد کونسل اور وائس آف شھدائے پاکستان نے 5 جنوری 2014ء کو اسلام آباد کے ڈی چوک میں ایک پرشکوہ قومی امن کنونشن کا انعقاد کیا، جس میں شیعہ و سنی مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء، دانشوروں اور مشائخ کے علاوہ اقلیتی برادری کے نمائندگان نے بھی شرکت کی۔ یہ کنونشن بنیادی طور پر تو اسلام آباد کے جناح کنونشن ہال میں منعقد ہونا تھا تاہم حکومت نے بعض نامعلوم وجوہات کی بنا پر اس کنونشن کا اجازت نامہ منسوخ کر دیا اور پھر یہ کنونشن اسلام آباد پارلیمنٹ ہاؤس کے بالمقابل، ڈی چوک میں کھلے آسمان تلے منعقد کیا گیا۔

اجازت نامے کی تنسیخ کے حوالے سے کنونشن میں مختلف چہ مہ گوئیاں ہوتی رہیں۔ بعض کا خیال تھا کہ سعودی وزیر خارجہ کی پاکستان آمد کی وجہ سے یہ اجازت نامہ منسوخ کیا گیا، حکومتی موقف تھا کہ ہمیں سکیورٹی خدشات تھے، لہذا کنونشن کا اجازت نامہ منسوخ کیا گیا۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ ہماری نظر میں اس تنسیخ کا سبب اس کے سوا کوئی نہیں ہوسکتا کہ حکومت طالبان سے مذاکرات کے عمل کو کسی بھی انداز سے ڈی ریل نہیں کرنا چاہتی۔ وہ طالبان یا ان کے آقاؤں کو یہ سگنل نہیں دینا چاہتی کہ ہم کسی بھی مذاکرات مخالف قوت کے ساتھ ہیں یا اس کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ملک کے دو اہم مسالک کی نمائندہ جماعتوں اور ملک کی اقلیتی برادری جو طالبان یا تکفریوں سے کسی بھی قسم کے مذاکرات کی مخالف ہیں، انکے انتہائی پرامن پروگرام کو کنونشن سنٹر میں منعقد کرنے کی اجازت نہ دی گئی۔

بہرحال یہ کنونشن اپنے اہداف اور مقاصد کے حوالے سے انتہائی اہم تھا۔ اس کنونشن میں مدعو افراد کنونشن سنٹر کی سہولیات اور گنجائش کو مدنظر رکھ کر بلوائے گئے تھے۔ کنونشن کی اچانک منسوخی کے سبب ان افراد کو چار و ناچار اس پروگرام میں کھلے آسمان تلے شرکت کرنی پڑی۔ کنوشن میں جو مطالبات پیش کیے گئے ان کا اگر خلاصہ بیان کیا جائے تو وہ کچھ یوں بنے گا کہ حکومت تکفیری گروہ بالخصوص پاکستان کے ہزاروں بے گناہ افراد کے قاتلوں، سکیورٹی اداروں پر حملے کرنے والوں اور افواج پاکستان کے مخالفین سے مذاکرات کرنے کے بجائے ان کو نشان عبرت بنانے کی تیاری کرے۔ کنونشن کے مقررین نے اس حوالے سے حکومت کو اپنی تمام تر حمایت کی یقین دہانی بھی کروائی۔ مدعوین کی اس کنونشن میں کھلے آسمان تلے شرکت نے بھی اس موقف کی تائید کی کہ سہولیات کی کمی یا مقام کا بدلاؤ ہمارے ارادے کو متزلزل نہیں کر سکتا۔

کنونشن میں حکومتی ایوانوں کو بار بار یہ باور کروایا گیا کہ یہ اجتماع ایک نمائندہ اجتماع ہے۔ اس کی موجودہ تعداد سے کوئی بھی تخمینہ نہ لگایا جائے۔ مقررین نے کہا کہ ہم بہت جلد ایک جلسہ عام منعقد کریں گے۔ مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکرٹری جنرل نے اپنے خطاب میں کہا کہ یہ مظلوموں کا ظالموں کے خلاف اجتماع ہے اور جن لوگوں نے پاکستان بنایا تھا آج ملک بچانے کے لیے وہ لوگ مجتمع ہوچکے ہیں۔

اس کنونشن میں مجلس وحدت مسلمین اور سنی اتحاد کونسل کے علاوہ بھی متعدد ہم فکر جماعتیں شریک ہونے کے لیے آمادہ تھیں بطور مثال
جمعیت علماء پاکستان (سواد اعظم)
جمعیت علماء پاکستان (نورانی)
تحریک منہاج القرآن
 اگر ان جماعتوں کو اس پروگرام میں شرکت کی دعوت دی جاتی تو یہ جماعتیں ضرور شریک ہوتیں۔ بہرحال منتظمین نے مذکورہ بالا جماعتوں کو بلانا مناسب کیوں نہ سمجھا، اس بارے میں تو کچھ نہیں کہا جاسکتا، تاہم یہ ضرور ہے کہ اگر ان جماعتوں کے نمائندگان بھی اس کنونشن میں شریک ہوتے تو اتحاد و وحدت کا پیغام اور موثر انداز میں عوام الناس اور حکومتی ایوانوں تک پہنچتا۔ مجلس وحدت مسلمین اور سنی اتحاد کونسل کے اس اتحاد نے دوسری اسلامی جماعتوں کو یہ ضرور پیغام دیا ہے کہ وہ بھی مسلکی انداز فکر سے بالاتر ہو کر امت کے وسیع تر مفادات کے لئے ایک پلیٹ فارم پر آئیں۔

ان دو جماعتوں نے اگرچہ یہ نہایت اچھا قدم اٹھایا ہے لیکن شیعہ و سنی مسالک کی ان دو تنظیموں کے مل جانے سے پاکستانی عوام کو یہ تاثیر نہیں دیا جاسکتا کہ ملک کے اندر شیعہ و سنی کے درمیان مکمل ہم آہنگی موجود ہے۔ اس کے لئے معاملات کو بڑی حکمت عملی اور بصیرت کے ساتھ دیکھنے کی ضرورت ہے۔ بعض اقدامات سے عوام کے اندر ایک جوش و خروش تو پیدا کیا جاسکتا ہے، مگر دور رس قومی مقاصد کا حصول ممکن نہیں ہوسکتا۔ اگر یہ تاثیر ابھرا کہ دوسروں کو نذر انداز کرکے اکیلا پرواز کرنے کا عمل شروع ہوچکا ہے تو اس کے نتائج امت کی وحدت کے لئے بہتر نہیں ہوں گے۔
خبر کا کوڈ : 339027
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش