0
Saturday 16 Aug 2014 18:30

انقلاب مارچ آزادی مارچ

انقلاب مارچ آزادی مارچ
تحریر: طاہر یاسین طاہر

 اسلام آباد میں میدان سج گیا ہے۔ جس دم یہ سطور لکھی جا رہی ہیں مختلف ٹی وی چینلز پہ اور سوشل میڈیا پہ طرح طرح کی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا دونوں مارچ جن کا قریب قریب اسلام آباد میں انضمام ہوچکا ہے، اپنے اہداف حاصل کر پائیں گے یا نہیں؟ فوری طور پر ایسی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ ممکن ہے اگلے ہی لمحے کوئی انہونی ہوجائے، لیکن سرِ دست حکومت کا جانا نظر نہیں آرہا۔ پی ٹی آئی کی قیادت نے جس طرح آزادی مارچ کی روانگی کے دوران میں ہی لاہور کے چکر کاٹ کاٹ کر اپنی توانائیوں کو ضائع کیا وہ علیحدہ سے ایک بحث طلب مسئلہ ہے۔ حالانکہ حکومت نے اعلان کر دیا تھا کہ وہ آزادی مارچ کے شرکاء کو نہیں روکے گی۔ اس میں پیغام یہ تھا کہ عمران خان کی جماعت کی پارلیمنٹ کے اندر نمائندگی موجود ہے، چنانچہ حکومت سیاسی قوتوں کے ساتھ بات چیت کرنے اور انھیں دیگر ’’سہولیات‘‘ دینے کو تیار ہے، مگر ساتھ ہی یہ بھی پیغام دیا جاتا رہا کہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کو ماڈل ٹاؤن سے ہی نہیں نکلنے دیا جائے گا۔ کیوں؟
 
اس لیے کہ حکومت حقیقی خطرہ انہی سے محسوس کرتی ہے۔ ان کی تنظیمی طاقت اور افرادی قوت قابلِ رشک ہے۔ اپنے قائد پہ جان نثار کرنے والے لوگ۔ عمران خان صاحب کا کہنا ہے کہ وہ میاں برادران سے استعفٰی لیے بغیر اسلام آباد سے نہیں اٹھیں گے، جب کہ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب اس حکومت کے بجائے اس پورے نظام کو بدلنے کی بات کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا ایجنڈا خان صاحب کے مقابلے میں زیادہ پرکشش ہے۔ بے شک اس نظام کی موجودگی اذیتوں کے کئی در وا کرتی ہے۔ ایک صحافی اور کالم کار کی حیثیت سے میں نے بعض مواقع پہ قادری صاحب کے طرز عمل پہ کھل کر تنقید بھی کی۔ خاص طور پہ جب انھوں نے لاہور میں طیارے سے باہر آنے کے لیے گورنر پنجاب کی ’’خدمات‘‘ حاصل کیں۔ لیکن 3 اگست سے جس طرح ماڈل ٹاؤن کے محصورین نے ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا، ایسے مظاہر کسی بھی معاشرے میں تبدیلی کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ لاریب پاکستانی عوام اس نظام اور خاندانی طرزِ سیاست سے تنگ آچکے ہیں۔ وہ اس نظام اور اس خاندانی بادشاہت سے نجات کے لیے کسی راستے کی تلاش میں ہیں۔

المیہ مگر یہ ہے کہ حکومت اپنے اعلانات کے باوجود ریاستی جبر کے تمام تر ہتھکنڈے استعمال کئے جا رہی ہے۔ بے شک 10 اگست کو ماڈل ٹاؤن میں یومِ شہداء کے شرکاء کو روکنے کے لیے پورے ملک کو ’’کنٹینرز سٹیٹ‘‘ میں تبدیل کرکے رکھ دیا گیا۔ نہ پیٹرول نہ گیس، نہ ٹرانسپورٹ، جبکہ دوسری طرف پی ٹی آئی کے آزادی مارچ کے شرکاء کو اس نوع کے ریاستی جبر کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ پی ٹی آئی کے کئی ایک عہدیداروں اور کارکنان سے میری ٹیلی فون پہ بات ہوئی، وہ 14 اگست کی شام اسلام آباد میں تھے تو رات گئے اپنے گھر، 15 اگست کی شام تک گھروں میں اور رات اسلام آباد، کئی ایک تو ایسے بھی ہیں جو ابھی 16 اگست کو تیاری کر رہے ہیں کہ وہ اسلام آباد جائیں گے۔ اس کے برعکس مجھے پی اے ٹی کا کوئی ایسا کارکن نہیں ملا جو اس’’ آزادی ‘‘کے ساتھ انقلاب مارچ کا حصہ بن رہا ہو۔ اب جبکہ قافلے اسلام آباد پہنچ چکے ہیں تو ممکن ہے کہ اس ایریا کو ہی سیل کر دیا جائے جہاں ’’دھرنا‘‘ سیاست کا بازار گرم ہے، تاکہ مزید شرکاء اندر داخل نہ ہوسکیں۔

پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے کارکنان اگرچہ ابھی تک ہمت اور حوصلے سے اس نظام اور اس حکومت کے خاتمے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ عمران خان نے جب ایک انٹرویو میں یہ کہا کہ وہ اسلام آباد میں جا کر ٹیکنو کریٹس کی حکومت کا مطالبہ کریں گے تو ان کی اپنی جماعت کے اندر سے اس مطالبے کے خلاف بڑی زوردار آوازیں بلند ہوئیں۔ مگر اس کے برعکس ڈاکٹر طاہر القادری نے ایسی کوئی بات نہیں کہی جس سے ان کے پیروکار بددل ہوجائیں، سوائے ضلع پنڈی سے مستعفی ہونے والے جند افراد کے۔ جن کا استعفٰی اس بات کا اظہار کر رہا تھا کہ وہ ریاستی جبر کے سامنے ٹھہر نہیں پائے اور اپنے وفاداری کا سودا کر لیا۔ تصویر کا ایک رخ یہ بھی دیکھا گیا کہ پرامن احتجاجی قافلے پر گوجرانوالے میں حملے کیے گئے اور فائرنگ بھی ہوئی۔ پھر حکومتی اداروں کی جانب سے الرٹ جاری کیا گیا کہ عمران خان کے لانگ مارچ پر گکھڑ منڈی کے علاقے میں بڑے حملے کا خدشہ ہے۔ 

پی ٹی آئی کی قیادت بڑے کنٹینر سے اتری اور بلٹ پروف گاڑیوں میں چلی گئی۔ یہ حربہ لانگ مارچ کے شرکاء کو بددل کرنے اور انھیں راست سے ہی پلٹ جانے کے لیے آزمایا گیا مگر ناکام رہا۔ ایک دوست بتا رہے تھے کہ ہیلی کاپٹر سے کیلیں پھینکیں گئیں تاکہ موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں پنکجر ہوجائیں، لیکن قافلے والے ’’پنکچر لگانا‘‘ بھی جانتے تھے۔ انھوں نے پنکچر لگائے اور آگے بڑھتے رہے۔ قادری صاحب البتہ خان صاحب کے برعکس لاہور میں ہی گھومنے کے بجائے سرعت سے نکلے اور اسلام آباد آگئے۔ طبیعت کی ناسازی کے باعث اپنے کارکنوں کے ساتھ ہیں جبکہ عمران خان آبپارہ میں کارکنوں سے خطاب کرنے کے بعد بنی گالہ تشریف لے گئے۔ وہ تین بجے واپس آئیں گے۔ جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں تو یہ خبریں بھی آرہی ہیں کہ پی ٹی آئی کے کارکنان آبپارہ میں جمع ہونا شروع ہوگئے ہیں، جبکہ قادری صاحب بھی خطاب کرنے جلسہ گاہ پہنچ چکے ہیں۔

ابھی تک کی صورتحال سے تو یہی لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کے مطالبہ پر وزیرِاعظم استعفٰی تو نہیں دیں گے ۔جب استعفٰی نہیں ہوگا تو پھر نئے انتخابات کی تاریخ کا اعلان بھی نہیں ہوسکے گا۔ بظاہر یہ عمران خان کا ناکام ہوتا ہوا دھرنا ہے، جس میں وہ پی ٹی آئی کے کارکنان کی وہ تعداد نہ لاسکے، جس کا وہ اظہار کرتے آرہے تھے، جبکہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب تمام تر ریاستی جبر کے باوجود بھی پی ٹی آئی سے سے بڑی تعداد اپنے ساتھ لانے میں کامیاب ہوئے ہیں،  بے شک اگر پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے دھرنے مطلوبہ نتائج حاصل کئے بغیر ختم ہوتے ہیں تو یہ بات وراثتی سیاست کی جڑوں کو مزید گہرا کر دے گی اور کئی ایک نئے گلو بٹ اپنے آقاؤں کی خوشنودی کے لیے ریاستی قوانین کو پاؤں تلے روندتے رہیں گے۔ انقلاب اور آزادی مارچ کے قائدین اگر مل کر نکلتے اور ایک ساتھ نکلتے تو ممکن ہے کچھ ہزار شرکاء مزید اس دھرنے میں چلے آتے۔ آخری تجزیے میں دھرنے اپنے اہداف حاصل کرتے ہیں یا نہیں، لیکن یہ طے ہوگیا ہے کہ اگر یہ دھرنے اپنی ایک بات بھی منوانے میں کامیاب ہوگئے تو گلو بٹ طرز کی سیاست عالمِ نزع میں چلی جائے گی اور اگر ایسا نہ ہوا تو پھر وراثتی سیاست کی جڑیں ہماری کئی نسلیں بھی نہیں کاٹ پائیں گی۔
خبر کا کوڈ : 405116
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش