1
0
Friday 29 Aug 2014 11:30

حالیہ ملکی بحران میں پاک فوج کا کردار

حالیہ ملکی بحران میں پاک فوج کا کردار
تحریر: علامہ سبطین شیرازی

یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ کسی بھی ملک کی ترقی اور استحکام کا راز اس ملک کے اندر قانون کی حکمرانی اور عدل و انصاف کی بالادستی سے عبارت ہوتا ہے۔ جہاں ظلم حد سے بڑھ جائے قوم کے رکھوالے قوم کے دشمن بن جائیں، بے قصور، پرامن اور نہتے شہریوں کو گولیوں سے بھون ڈالا جائے اور ان مقتولین کی ایف آئی آر تک درج نہ کی جائے، غنڈہ گردی اور قانون شکنی حد سے بڑھ جائے، اقرباء پروری اور مفاد پرستی کا بازار گرم ہو، قانونی مساوات کا جنازہ اٹھا دیا جائے اور عوام انصاف کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوجائیں، امیر اور غریب کے درمیان خلیج بڑھتی چلی جائے اور معاشرہ بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم نظر آئے۔ عوام الناس کے ساتھ بھیڑ بکریوں جیسا سلوک روا رکھا جانے لگے، معاشرے کے اندر لاقانونیت اور بدعنوانی آسمان کو چھونے لگے، بے روزگاری، مہنگائی جہالت اور غربت ڈیرے ڈال لے اور عوام کے اندر احساس عدم تحفظ شدید ہوجائے، غریب عوام کے چولہے بجھ جائیں اور حکمرانوں کی عیاشیاں عروج پر ہوں، غریب کی مدد کے لیے ایک دھیلی بھی نہ ہو جبکہ وزراء اور حکمرانوں کی شاہ خرچیوں کے لیے قومی خزانے کے دہانے کھول دیئے جائیں، ایسے ماحول میں عوام سڑکوں پر نہ آئیں تو کہاں جائیں۔؟
 
اس صورت حال میں عوام کو اگر کہیں سے کوئی امید کی کرن نظر آئے تو عوام اس کی طرف لپکتے ہیں اور ایسے ظالمانہ اور غیر منصفانہ نظام کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن جاتے ہیں، اسی تصویر کا ایک رخ پاکستان کے اندر دیکھنے کو ملا جب عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری نے ایسے ظالمانہ نظام کے خلاف آواز اٹھائی اور اسے بیخ سے نکال پھینکنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ یہ صورت حال اس وقت کھل کر سامنے آئی جب موجودہ حکومت تاریخ کی بدترین دھاندلی کی بنیاد پر ایوانوں تک پہنچی اور اقتدار سنبھالتے ہی من مانیوں، کرپشن ظلم و بربریت اور قانون شکنی کی انتہا کردی، عوام کی دولت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا اور سمیٹا۔ بیرون ملک اپنے اثاثوں میں مزید اضافہ کیا عوام کے ٹیکس کے پیسوں پر عیاشیاں شروع کر دیں۔ میرٹ اور استحقاق کی دھجیاں اڑائیں، ملک کے اندر دہشت گردی کو اپنے ہاتھوں پروان چڑھایا، مہنگائی بے روزگاری لوڈشیڈنگ جیسے مسائل نے عوام کا جینا مشکل کر دیا۔

بھارت سے دوستی اور اپنی افواج کے خلاف زبانیں کھلنے لگیں، اپنے سیاسی مخالفین کو طاقت سے کچلنے کی حکمت عملی اپنائی گئی تو عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری میدان عمل میں اتر آئے۔ پاکستانی عوام نے ان دو مجاہد لیڈروں کا ساتھ دیا اور ان کی انقلابی آواز پر بھرپور انداز میں لبیک کہا، جس کا مظاہرہ اسلام آباد میں دھرنوں کی شکل میں سامنے آیا۔ دھرنوں کے شرکاء کا صبر و استقامت، جرأت و بہادری اور قانون کی پاسداری کا ایک بے مثال مظاہرہ دیکھنے کو ملا جو پاکستان کی تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جائے گا۔ اس پرامن احتجاج اور جائز مطالبات کے حامل دھرنوں کا حکومتی مشنری پر وقتی طور پر کوئی اثر ظاہر نہ ہوا اور حکمران عوام کا تماشا دیکھتے رہے اور یہ سمجھتے رہے کہ یہ چند دنوں تک واپس چلے جائیں گے، وہ نہ سمجھ پائے کہ عوام کے سمندر کے سامنے حکمرانوں کے اقتدار کا سورج زیادہ دیر تک طلوع نہیں رہ سکتا۔ صورت حال جب بدلی، حکمران بے بس ہوئے اور ملک میں خانہ جنگی کے خدشات بڑھنے لگے تو حکمرانوں نے پاک فوج کو کردار ادا کرنے کی اپیل کی تو اس سناریو میں پاک فوج نے جذبۂ حب الوطنی، عوام دوستی پیشہ وارانہ حکمت عملی اور قومی بصیرت کا بے مثال مظاہرہ کیا۔ 

اس سے قبل صورت حال یہ تھی کہ فوج پر الزام لگائے جا رہے تھے کہ شاید ان دھرنوں کے پیچھے فوج کا خفیہ ہاتھ ہے یا فوج کسی سیاسی پارٹی سے کوئی بدلہ لینا چاہتی ہے یا فوج کا ارادہ مارشل لاء لگانے کا ہے یا اقتدار پر قابض ہو کر فوج بھی ان سیاست دانوں کی طرح مال بنانا چاہتی ہے یا یہ کہ فوج جنرل مشرف کے خلاف انتقامی کارروائی کا کوئی بدلہ لینی چاہتی ہے۔ یہ سب غلط فہمیاں اس وقت دم توڑ گئیں جب خود حکومت نے فوج سے ثالثی کا کردار ادا کرنے کی اپیل کی اور اپنی سیاسی حکمت عملی کی ناکامی کا اعتراف کیا۔ اس پوری صورت حال میں افواج پاکستان کا کردار لائق تحسین، قابل قدر، مدبرانہ، فاتحانہ اور مخلصانہ کردار بن کر سامنے آیا۔ سیاسی شعبدہ بازوں کے پاس کوئی راستہ نہ تھا یہ سیاست دان تو اپنی اپنی دکانداری چمکانے کے لیے بیان بازیوں کی حد تک مخلص تھے جب کہ فوج ملک کے اندر حقیقی جمہوریت کے پنپنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتی تھی۔

فوج نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ انھیں اقتدار سے نہیں پاکستان سے محبت ہے اور یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ پاکستان کا موجودہ سیاسی کلچر نہایت پسماندہ اور ناقابل یقین ہے۔ چنانچہ اب فوج کا فرض بنتا ہے کہ باہم مشاورت سے وہ قومی حکومت تشکیل دے اور ان کرپٹ سیاست دانوں سے پاکستان کی آن کو محفوظ بنانے کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کرے۔ اس وقت بال فوج کے کورٹ میں ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ جب تک پاکستان کے اندر سیاسی کلچر بہتر نہ ہو اور سیاست دان سیاسی بلوغیت اور پاکیزہ سیاست کے اصولوں کو اپنانے کے قابل نہ ہوں، اقتدار قومی حکومت کے ہاتھوں میں رہے، تاکہ آئندہ پارلیمنٹ میں وہی لوگ آسکیں جو دیانتدار محب وطن عوام دوست اور صاحب کردار ہوں، تاکہ دنیا کے اندر جو پاکستان کے وقار کو مجروح کیا گیا ہے، اس کو بہتر کیا جاسکے۔ خدا کے لیے اب پاکستان سے کرپٹ سیاست اور نام نہاد جمہوریت کی اس بدترین شکل کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ آئین پاکستان کو اس کی حقیقی روح کے ساتھ نافذ ہونا چاہیے، قانون کی صحیح حکمرانی اور عدل و انصاف کا بول بالا ہونا چاہیے۔ اگر پاک فوج اس سنہرے موقع سے فائدہ اٹھا کر ملک میں سیاسی بلوغیت اور حقیقی جمہوریت کا احیاء کر سکے گی تو اس کا کریڈٹ بالعموم افواج پاکستان کو اور بالخصوص جنرل راحیل شریف کو جائے گا اور پاکستان کی جمہوری تاریخ میں ان کا نام روشن الفاظ میں لکھا جائے گا۔
خبر کا کوڈ : 407208
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
Well said. Ap ny bilkol teak kaha.
ہماری پیشکش