0
Friday 19 Sep 2014 18:55

شمعیں جنہیں ہم نے خود بجھا دیا

شمعیں جنہیں ہم نے خود بجھا دیا
تحریر: شہباز علی خان

خدا جب کسی قوم پر برہم ہوتا ہے تو اسے گمراہی کے اس راستے پر ڈال دیتا ہے جس پر چل کر وہ قوم خود اپنے آپ کو تباہ کر لیتی ہے اور پھر تاریخ کے سیاہ صفحات پر آہستہ آہستہ گم ہو جاتی ہے۔ گمراہی کا یہ سفر اس وقت شروع ہوتا ہے جب وہ شمعیں ہم خود بجھانا شروع کر دیں جو معاشرے میں روشن کرنیں بن کر جہالت کے اندھیروں کو ختم کر رہی ہوتی ہیں۔ ایسے ہی ایک رہبر کو آج ہم نے کھو دیا۔ جمعرات کی روشن صبح نے سوچا بھی نہ ہوگا کہ آج سے اس کے مقدر میں ایک تاریک سفر لکھ دیا جائے گا۔ جامعہ کراچی کے شعبہ اسلامک اسٹڈیز کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر شکیل اوج اس وقت گولیوں کا نشانہ بنے جب وہ اپنے ایک ساتھی شعبہ صحافت کے سربراہ طاہر مسعود اور طالبہ ڈاکٹر آمنہ کے ہمراہ اس تقریب کی طرف رواں تھے جو ان کے اعزاز میں منعقد کی گئی تھی۔ 

جب ان کی کار گلشن اقبال میں واقع وفاقی اردو یونیورسٹی کے قریب بیت المکرم مسجد کے پاس پہنچی تو نامعلوم افراد نے گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ کر دی، جس کے نتیجے میں وہ خالق حقیقی سے جا ملے۔ یہ سانحہ عین اسی مقام کے قریب ہوا جہاں پر 1987ء میں وفاقی اردو یونیورسٹی میں بطور لیکچرار ان کا تقرر ہوا تھا اور اس کے بعد 1995ء میں جامعہ کراچی چلے گئے اور آخری سانسوں تک اس سے منسلک رہے۔ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات قانون نافذ کرنے والے اداروں پر بہت سے سوالیہ نشانات چھوڑ رہے ہیں۔ جانے کیوں مجھے یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ اس سازش کا حصہ ہے جس کا مقصد پاکستان کو ہر طرح سے تباہ کرنا ہے۔ اس کی معیشت کے ساتھ ساتھ ایسے افراد کا بھی خاتمہ کرنا ہے جو ہجوم کو ایک قوم کی شکل دینے کیلئے علم کا پرچم اٹھا ئے آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔
 
ایک وہ وقت بھی تھا جب حکمران مسجد میں اگر اپنے استاد محترم کی جوتیاں دیکھتے تو فوراً لپکتے، کوئی ان کا رخ سیدھا کر رہا ہوتا تو کوئی انہیں تھام کر ادب سے کھڑا ہوجاتا کہ آنے والے کا رتبہ ان سے کہیں زیادہ بلند ہے، کہیں ان کے استاد کو جوتیاں پہننے کیلئے جھکنا نہ پڑے۔ یہی وہ دور تھا جب دھرتی کو ہم ماں کا رتبہ دیتے تھے اور استاد کو روحانی باپ کا درجہ۔ مگر افسوس کے ہم ان روایات کے امین بھی نہ بن پائے۔ ایک دفعہ سکندر اعظم سے کسی نے پوچھا کہ آپ استاد کو باپ پر کیوں ترجیح دیتے ہیں تو اس نے جواب دیا کہ:
’’میرا باپ تو مجھے آسمان سے زمین پر لایا لیکن میرے استاد ارسطو مجھے زمین سے آسمان پر لے گئے، نیز باپ سبب حیات فانی اور استاد موجب حیات جادوانی ہے، باپ جسم کی پرورش کرتا ہے اور استاد جان کی۔‘‘

ایک شخص جو اپنی زندگی کا ایک حصہ علم حاصل کرنے میں گزار کر جب اس مقام پر جا پہنچتا ہے جہاں سے وہ ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کا عمل شروع کرتا ہے جو مساوات کے اصول پر قائم ہو، جہاں سے جہالت کے اندھیرے روشنیوں میں بدلنا شروع ہوتے ہوں، ٹھیک اسی وقت اسے صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے تو پھر ایسے معاشرے میں نوجوانوں کے مستقبل کا کیا حال ہوگا، اس بات کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ آج ہمارے معاشرے کی منافقت ایک اور عالم کو کھا گئی۔ جامعہ کراچی صرف ایک استاد سے ہی نہیں بلکہ ایک رہنما سے بھی محروم ہوگئی، جو اپنے علم کے ذریعے راہ سے بھٹکے ہوؤں کو منزل تک پہنچاتا تھا۔ ہڑتال، احتجاجوں یا پھر سیاستدانوں کے مذمتی بیان کافی نہیں ہیں۔ اگر یہ سلسلہ ختم نہ ہوا تو ہمارا معاشرہ ایک ایسی دلدل میں دھنس کر رہ جائے گا جہاں پر صرف برائی کا راج ہوگا۔ معاشرہ باشعور اور مہذب افراد سے بنتا ہے، جب ایسے افراد کو چن چن کر قتل کر دیا جائے گا تو معاشرے سے اچھائی اور برائی کا تصور بہت جلد ختم ہوجائے گا، کیا ایسے حالات میں یہ ملک اور اس کا مستقبل زندہ رہ پائے گا۔؟
بشکریہ: ایکسپریس
خبر کا کوڈ : 410528
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش