0
Tuesday 23 Jun 2009 09:27

ایران کا ہیجان!

ایران کا ہیجان!
عرفان صدیقی
ایرانی انتخابات میں محمود احمدی نژاد جیسے نڈر شخص کی کامیابی، ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لینا کوئی آسان کام نہیں۔ امریکہ کی بے کلی، یورپ کے کرب اور عمومی طور پر اہل غرب کی بے چینی قابل فہم ہے۔ یہ لوگ دعوے تو جمہوریت، بنیادی انسانی حقوق اور سلطانی جمہور کے کرتے ہیں، لیکن جب نتائج ان کے حسب منشا نہ نکلیں اور عوام کا فیصلہ ان کے ابلیسی زائچوں کے مطابق نہ ہو تو یہ جمہوریت ہی کے نام پر فتنہ و فساد کا الاؤ بھڑکانے کی کوشش کرتے ہیں یہاں تک کہ سب کچھ بھسم ہو جائے اور راکھ سے یہ اپنی مرضی کا کوئی بت تراش سکیں۔
یہ اتفاق کی بات ہے کہ مجھے ایرانی انتخابات کی مہم قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ ہمارا ہوٹل تہران کے شمالی علاقے میں تھا، جسے اہل ثروت کا علاقہ خیال کیا جاتا ہے۔ ہم پہلی ہی شام چہل قدمی کرتے ہوئے تہران یونیورسٹی کے قریب اس خیابان انقلاب تک گئے، جہاں شاہ کے زمانے میں بڑی بڑی انقلابی ریلیاں منعقد ہوتی تھیں۔ سامنے میلوں تک پھیلی دکانیں کتابوں سے بھری ہیں کہ ایران میں آج بھی کتاب خوانی کا ذوق زندہ ہے۔ اسی خیابان انقلاب میں ہماری ملاقات تہران یونیورسٹی کے پرجوش طلبہ و طالبات سے ہوئی تھی، جو ماتھوں پہ سبز پٹیاں باندھے، کمر میں سبز پٹکے لٹکائے یا سبز عبائیں پہنے، میر حسین موسوی کی مہم چلا رہے تھے۔ ہمیں کئی بار ایسے پرجوش نوجوانوں سے پالا پڑا۔ چونکہ ہم ایران کے سب سے ماڈرن شہر کے ماڈرن علاقے میں مقیم تھے، اس لئے ہمیں چار سو میر حسین موسوی کی تصاویر اور نعرے دکھائی دیتے تھے۔ ہمارا اولیں تاثر یہی تھا کہ موسوی کا پلّہ بھاری ہے۔ پھر ہم تہران کے جنوبی علاقے میں گئے تو صورت حال بدلی ہوئی نظر آئی۔ قم گئے، مشہد گئے تو بھی احمدی نژاد کے پھریرے لہراتے دیکھے۔ میں نے اپنے کسی کالم میں ذکر کیا تھا کہ گاڑی میں بیٹھے بیٹھے ہم سات آٹھ پاکستانی اخبار نویسوں نے اپنا اپنا ووٹ دیا تھا۔ یہ سارے کے سارے ووٹ احمدی نژاد کے حق میں تھے۔ یہ محض ذاتی پسند کی بات نہ تھی بلکہ پوچھا گیا تھا کہ اب تک ہم نے جو کچھ دیکھا ہے، اس کی روشنی میں کس امیدوار کی کامیابی کے امکانات روشن ہیں؟ صحافی کی آنکھ، تماشائی کی آنکھ سے مختلف ہوتی ہے۔ سو سب کی رائے گہرے مشاہدے پر مبنی تھی۔ ہم نے ایرانی ڈرائیور کی رائے بھی لی تھی اور اس نے اسٹیرنگ چھوڑ کر دونوں ہاتھ فضا میں بلند کرتے ہوئے نعرہ لگایا تھا ” احمدی نژاد “۔ مجھے ایران کا ایک ٹیکسی ڈرائیور نہیں بھول رہا۔ اس کی گاڑی کا انجر پنجر ہلا ہوا تھا۔ سیٹیں ادھڑی ہوئی تھیں۔ ڈرائیور کا لباس بھی بوسیدگی کی آخری حدوں کو چھو رہا تھا۔ وہ سستی قسم کے سگریٹ پھونکے جا رہا تھا۔ میٹرو اسٹیشن سے اپنے ہوٹل آتے ہوئے میں نے شکستہ فارسی میں پوچھا۔ ” تم ووٹ کسے دو گے ؟ “ اس نے قہقہہ لگاتے ہوئے سگریٹ کا ایک لمبا کش لیا اور بولا۔ ” ایران کے غریبوں سے یہ سوال نہ پوچھا کرو۔ ہر غریب اور محنت کش کا ووٹ احمدی نژاد کا ہے اور ہر دولت مند کا ووٹ موسوی کا …“۔ پھر وہ فارسی میں احمدی نژاد کا قصیدہ پڑھتا رہا۔ میں اسی قدر سمجھ پایا کہ ” احمدی نژاد ہماری طرح ایک غریب بڑھئی کا بیٹا ہے۔ وہ ہمارا دکھ درد سمجھتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ بہادر ہے۔ امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتا ہے۔ نر کا بچہ ہے “۔
ایرانی معاشرے کو سمجھنے اور اس کی مذہبی، ثقافتی اور سماجی ساخت پر نگاہ رکھنے والوں کو یقین تھا کہ احمدی نژاد بہ آسانی جیت جائے گا۔ اسلام آباد سے تہران سفر کے دوران جس ایرانی نوجوان کا میں نے تذکرہ کیا تھا، اس کی رائے بھی یہی تھی کہ موسوی کی ہاؤ ہو کے باوجود احمدی نژاد جیت جائے گا۔
کئی عوامل احمدی نژاد کے حق میں جا رہے تھے۔ پہلا یہ کہ اس نے اپنے چار سالہ عہد صدارت کے دوران ان تھک محنت سے کام کیا۔ وہ پہلا صدر ہے جو کم از کم دو بار ایران کے تیس صوبوں میں گیا اور خالص عوامی انداز میں لوگوں کے مسائل سنے اور موقع پر حل کئے۔ احمدی نژاد کسی اعلیٰ سرکاری دفتر، کسی عالی شان گیسٹ ہاؤس یا کسی امیر کبیر کی شاہانہ رہائش گاہ پر ٹھہرنے کے بجائے کسی مسجد میں ڈیرہ لگاتے، براہ راست مسائل سے آگاہ ہوتے اور حکام کو احکام جاری کر دیتے۔ صوبوں کی ترقی و خوشحالی کے حوالے سے ان کا دور مثالی رہا۔ دوسرا یہ کہ انہوں نے تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے حاصل ہونے والی دولت براہ راست غریب اور مستحق عوام میں تقسیم کی۔ انہوں نے ایسے اقدامات بھی کئے کہ تیل پر دی جانے والی سسبڈی کا حقیقی فائدہ صرف غریب طبقات تک پہنچے۔ تیسرا یہ کہ احمدی نژاد ایران کے مذہبی حلقوں اور قدامت پسندوں کی ترجمانی کرتے ہیں اور ایرانی معاشرہ بہرحال جوہری اعتبار سے ایک مذہبی معاشرہ ہے۔ چوتھا یہ کہ اس نے امریکہ کے خلاف ایک توانا لہجہ اختیار کیا اور کہیں بھی ایرانی تفاخر کی کلغی نہ جھکنے دی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کے دامن پر کرپشن کا کوئی ادنیٰ سا داغ بھی نہیں۔ اسے ایران کے ایٹمی پروگرام کا ایک پرعزم محافظ بھی خیال کیا جاتا ہے۔
مغربی میڈیا نے ایرانی انتخابات کے حوالے سے پرلے درجے کے تعصب اور انتہا درجے کی پیشہ ورانہ خیانت کا مظاہرہ کیا۔ پہلی وجہ تو یہ ہوئی کہ ان کے قافلے تہران میں اترے اور تہران کی فضا کو انہوں نے پورے ایران کی آب و ہوا سمجھ لیا۔ یہ اندازہ ہی نہ کر پائے کہ تہران پورے ایران کا صرف چودہ فی صد ہے۔ ستّر فی صد سے زائد لوگ دیہات میں بستے ہیں اور ان کا مسئلہ تہران یونیورسٹی کے مٹھی بھر جدیدیت پرستوں سے مختلف ہے۔ اسے اندازے کی غلطی کہا جا سکتا ہے، لیکن مغربی ذرائع ابلاغ نے ایک سوچی سمجھی اسکیم کے تحت انتخابات کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی۔ انہوں نے بڑی ہنر مندی سے میر حسین موسوی کا بت تراشا اور پراپیگنڈے کے زور پر اسے ناقابل شکست قرار دے دیا۔
امریکہ جارج ڈبلیو بش کے دور میں ایران کی انقلابی حکومت کا تختہ الٹنے کی سر توڑ کوشش کر چکا ہے۔ اس مقصد کے لئے مخصوص کروڑوں ڈالر کی تصدیق بھی ہو چکی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے موجودہ انتخابات میں بھی کم و بیش چالیس کروڑ ڈالر جھونکے ہیں۔ وہ ایران میں افراتفری اور انتشار کو اس انتہا پر لے جانا چاہتا ہے کہ اس کا من پسند انقلاب رونما ہو جائے۔ امریکی ایوان نمائندگان اور سینیٹ کی طرف سے منظور کردہ تازہ قراردادیں اسی آرزو کی مظہر ہیں۔ بارک اوباما محتاط رہنا چاہتے ہیں، لیکن یہودی لابی کا دباؤ بڑھ رہا ہے اور جلد ہی انہیں بھی کانگریس کی ہم نوائی کرنا پڑے گی۔ یہ وہی امریکہ ہے جس نے الجزائر میں منتخب نمائندوں کی حکومت پر فوجی آمریت کو ترجیح دی، جس نے فلسطینی عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوے والی حماس کی حکومت کو توپ کے دہانے پر رکھ لیا۔ جو نو برس تک پاکستان کے ایک جمہوریت کش اور آئین شکن ڈکٹیٹر کی سرپرستی کرتا رہا۔ جو ہر اس آمریت اور ملوکیت کا پشتیبان ہے جو اس کے اہداف کے کھونٹے سے بندھی ہے۔ اگر احمدی نژاد، حسنی مبارک بن جائے تو امریکہ کو مصری انداز کے انتخابات بھی دل و جان سے منظور ہوں گے۔ ایران کا ہیجان، امریکہ کے دیرینہ خواب کی تعبیر ہے۔ ایرانی قیادت جس قدر جلد اس پر قابو پا لے، اسی قدر اچھا ہو گا۔

خبر کا کوڈ : 7105
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش