0
Tuesday 7 Jul 2009 14:29

ایران پر اسرائیلی حملہ کے لیے امریکی شہ

ایران پر اسرائیلی حملہ کے لیے امریکی شہ
 امریکا ایران میں انتشار برپا کرنے کے لیے ایک عرصہ سے جو کوششیں کر رہا ہے وہ ڈھکی چھپی نہیں۔ تاہم حالیہ صدارتی انتخابات میں امریکی صدر اوباما نے بڑا محتاط رویہ اختیار کیا ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اوباما خوب سمجھتے ہیں کہ اگر انہوں نے تہران میں احتجاج کرنے والوں کے حق میں کوئی واضح بیان دیا تو تمام ایرانی اس شخص کے خلاف متحد ہو جائیں گے جس کی حمایت امریکا کرے گا۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے امریکا اگر پاکستان میں کسی کی حمایت میں کھل کر بیانات دے تو وہ اس کے لیے نقصان دہ ثابت ہوں گے کیونکہ یہاں بھی عوام کی اکثریت امریکی انتظامیہ اور اس کی پالیسیوں کے خلاف ہے اور صرف حکمران ہی امریکی آقاﺅں کی اطاعت کرتے ہیں۔ فی الوقت ایرانی حکمرانوں کا رخ بھی امریکا سے زیادہ برطانیہ اور فرانس کی طرف ہے۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ امریکا ایران کے خلاف خود کھل کر کوئی کارروائی کرنے کے بجائے اپنے لے پالک اسرائیل کو شہ دے رہا ہے۔ امریکی نائب صدر جوبائیڈن نے فرمایا ہے کہ امریکا اسرائیل کو ایران کے خلاف کارروائی سے نہیں روکے گا"تل ابیب اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہے"۔ بائیڈن نے واضح طور پر اسرائیل کو ایران پر حملے کے لیے اکسایا ہے۔انہوں نے مزید فرمایا ہے کہ ایران کے جوہری خطرے سے نمٹنے کے لیے اسرائیل اس کے خلاف فوجی کارروائی ضروری سمجھے تو اسے روکا نہیں جائے گا،اسرائیل نہ صرف ایران بلکہ کسی بھی ملک کے بارے میں اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر جو چاہے کرے۔ یہ اسرائیل کو قتل کا لائسنس دیا گیا ہے حالانکہ اس کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ اسرائیل تو اس سے پہلے ہی کسی بھی ملک کے خلاف اپنے مفادات کی خاطر فوجی کارروائیاں کرتا رہا ہے۔ گزشتہ 60سال سے وہ فلسطینیوں کا قتل عام کر رہا ہے اور ان کی زمینوں پر قبضہ کر رکھ اہے،قبلہ اول بھی اس کے قبضہ میں ہے۔ شام،اردن اور لبنان کے علاقے دبائے ہوئے ہیں ۔ اردن تو ٹھنڈا ہو کر بیٹھ گیا ہے۔ مصر نے ناک رگڑ کر اپنا علاقہ واپس لیا۔ لیکن پڑوسیوں کے علاقے ہڑپ کرنے کے علاوہ اسرائیل عراق پر فضائی حملہ کر کے اس کی ایٹمی تنصیبات تباہ کر چکا ہے۔ اس حملے میں اسے امریکا کا بھرپور تعاون حاصل تھا۔ اقوام متحدہ بھی اس کھلم کھلا جارحیت پر ہونٹوں پر تالا لگائے بیٹھی رہی۔ یوں بھی اسرائیل نے جب لبنان کے علاقے صابرہ اور شتیلہ میں اقوام متحدہ کے مہاجر کیمپوں میں قتل عام کیا تھا تو اقوام متحدہ نے کیا کر لیا تھا؟ امریکا نے تو اس درندگی اور وحشت پر سلامتی کونسل میں قرارداد مذمت تک منظور نہ ہونے دی تھی۔ یہ رویّے ثابت کر چکے ہیں کہ دنیا میں امریکا کا واحد دوست اسرائیل ہی ہے جس کو اپنے فیصلے کرنے میں مکمل آزادی حاصل ہے۔ باقی کوئی مسلمان ملک، خاص طور پر پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ وہ امریکا کا دوست ہے یا امریکا اس کا دوست ہے تو یہ سادگی نہیں حماقت اور جہالت ہے،ایسی حماقت جس کا بھگتان عوام بھگت رہے ہیں۔ یہود و نصاریٰ آپس ہی میں ایک دوسرے کے دوست ہیں ۔ اب امریکا نے اسرائیل کو ایران پرحملہ کرنے کا اشارہ دے دیا ہے اور اگر ایسا ہوا تو امریکا کہہ دے گا کہ یہ اسرائیل کا اپنا فیصلہ ہے اور امریکا کسی بھی آزاد ریاست کے معاملات میں مداخلت کرتا ہے نہ اسے کوئی ڈکٹیشن دے سکتا ہے۔ تو کیا وہ پاکستان کو آزاد ریاست ہی نہیں سمجھتا؟ شاید پاکستان پر مسلط کردہ حکمران بھی پاکستان کو آزاد ریاست نہیں بلکہ امریکا کی ریاست سمجھتے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ ایک طرف تو امریکی نائب صدر اسرائیل کو ہشکار رہے ہیں اور دوسری طرف چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف ایڈمرل مائیک مولن فرماتے ہیں کہ ایران پر حملے سے خطہ میں شدید عدم استحکام پیدا ہوگا اور ان چاہے نتائج سامنے آسکتے ہیں، امریکا کے لیے تیسرا محاذ کھل جائے گا۔ مائیک مولن کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک عرصہ سے ایران پر حملے کی مخالفت کر رہے ہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ ایران پر حملے کی منصوبہ بندی بڑے عرصے سے جاری ہے۔ لیکن امریکا کو خدشہ ہے کہ ایسا ہوا تو خلیج فارس میں امریکی بحری بیڑوں کی نقل و حرکت مشکل ہو جائے گی۔ امریکا کو عراق اور افغانستان میں بھی ایران کی مدد درکار ہے۔ چنانچہ اب اس نے اسرائیل کو حملے کا گرین سگنل دیا ہے۔ لیکن جیسا کہ مائیک مولن نے کہا ہے، ایسا ہوا تو اسے امریکی حملہ ہی سمجھا جائے گا اور اس کے خلاف ایک اور محاذ کھل جائے گا۔ یہ محاذ زیادہ مضبوط ہوگا۔ ایسے میں ایران تمام امریکا مخالف قوتوں کا ساتھ دینے پر مجبور ہو جائے گا جن میں افغانستان کے حریت پسند بھی شامل ہوں گے۔ اس عرصہ میں اسرائیل نے ایک شوشا یہ چھوڑا ہے کہ اگر اس نے ایران پرحملہ کیا تو سعودی عرب خاموش رہے گا۔ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے سربراہ مئر ڈیگان نے دعویٰ کیا ہے کہ سعودی حکومت ایرانی ایٹمی تنصیبات پر حملے کے لیے اسرائیلی طیاروں کو فضائی راستہ دے گی ۔ برطانوی اخبار سنڈے ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق موساد کے سربراہ نے اس سال کے آغاز میں ریاض کا خفیہ دور کر کے سعودی حکام سے ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملے کے بارے میں تبادلہ خیال کیا تھا تاہم سعودی حکومت اس دورے کی تردید کر چکی ہے لیکن اسرائیل کا اصرار ہے کہ سعودی عرب اسرائیلی طیاروں کو اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دے چکا ہے۔ یہ رپورٹیں یہود و نصاریٰ کی طرف سے جاری کی گئی ہیں اس لیے ان کو من وعن قبول نہیں کیا جا سکتا۔ ہم نہیں سمجھتے کہ سعودی حکمرانوں کو امت مسلمہ اور خود اپنے عوام کے جذبات کا اندازہ نہیں ہوگا۔ اسرائیل عرب فلسطینیوں پر جو ظلم  ڈھا رہا ہےاس سے کوئی بھی سعودی بے خبر نہیں اور کسی کو اسرائیل سے ہمدردی نہیں ہے۔ امریکا کے خلاف جو جہاد  ہو رہا ہےاس کی بنیادی وجہ بھی امریکا کی طرف سے اسرائیل کی اندھی حمایت اور امداد ہے۔ اس جہاد میں سعودی باشندے بھی شامل ہیں۔ ایسے میں اسرائیلی دعویٰ عرب وعجم کے پرانے تضادکو ہوا دینے کی کوشش ہے جس میں وہ کامیاب نہیں ہوگا۔ اسرائیل کے خلاف پوری دنیا کے مسلمانوں کی رائے ایک ہے اور یہ کوئی راز نہیں کہ اگر ایران پرحملہ ہوا تو اس لیے ہوگا کہ وہ ایک مسلمان ملک ہے اور یہود و ہنود اور نصاریٰ کو یہ گوارہ نہیں کہ ایک اور مسلمان ملک ایٹمی طاقت بن جائے۔ اسرائیل نے ایران پر حملہ کرنے کی حماقت کی تو ہمیں یقین ہے کہ پوری امت مسلمہ یک آواز ہوگی۔ فی الوقت امت مسلمہ آواز ہی بلند کر سکتی ہے۔ یک جان ہونے اور بنیان مرصوص بن کر قوت کے ساتھ ظالم کا ہاتھ روکنے کا مرحلہ شاید ابھی دور ہے لیکن یہ ناممکن تو نہیں۔



خبر کا کوڈ : 7749
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش