0
Friday 12 Aug 2011 20:40

دوسروں کو نصیحت---خود---

دوسروں کو نصیحت---خود---
 تحریر:محمد علی نقوی
کہا جا رہا ہے کہ لندن کے بحرانی علاقوں میں بڑی تعداد میں پولیس کی تعیناتی اور بارش شروع ہونے کے بعد بدامنی کے شعلے قدرے ماند پڑ گئے ہيں، برطانیہ کے حالیہ آشوب میں نسل پرستوں کا طاقت کا مظاہرہ، پولیس کی سرکوبی یا حکام کے ہمدردانہ بیانات یا اقتصادی وعدوں سے ختم نہيں ہو گا۔ اسی بنا پر اگرچہ لندن میں بدامنی کا سلسلہ قدرے کمزور پڑ گیا ہے لیکن ان ہنگاموں کے بعد برطانوی نسل پرستوں کی کھلے عام پرتشدد سرگرمیاں نئے مرحلےمیں داخل ہونے کا امکان ہے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ لندن حکومت حالیہ فسادات کی ذمہ دار ہے کیونکہ حکومت نے عوام کے ایک بڑے طبقے کی ضرورتوں کو نظر انداز کیا ہے۔ برطانیہ کے ایک سیاسی مبصر مارک ویڈ ورتھ نے پریس ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے برطانیہ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی طرف اشارہ کیا اور کہا اس وقت برطانیہ میں نہایت خطرناک حالات ہیں جن میں حکومت نے انسانی حقوق کی پامالی کو سرے سے نظرانداز کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ برطانوی سیاست دانوں کو ان حالات کا ذمہ دار قراردیا جائے کیونکہ انہوں نے ہی شدید کشیدگي پیدا کی تھی۔ ویڈ ورتھ نے کہا کہ شہریوں کے ٹیلیفونوں کی جاسوسی اور ایک سیاہ فام شخص کے پولیس کے ہاتھوں مارے جانے سے حالات بگڑ چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ برطانوی وزیراعظم کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات سے بہت سے اداروں کی ناکامی ثابت ہو جاتی ہے، لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ ان حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ لندن میں جمہوریت ناکام ہو چکی ہے۔
ادھر برطانوی پولیس نے لندن اور دوسرے شہروں میں ہونے والے احتجاج کے نتیجے میں دو ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔ لندن پولیس نے گذشتہ دو دنوں میں گھر گھر کی تلاشی لے کر لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔ لندن پولیس کے ہاتھوں گرفتاریاں اب بھی جاری ہیں۔ اطلاعات کے مطابق لندن پولیس نے کم سن نوجوانوں کو بھی گرفتار کیا ہے۔ لندن پولیس کے نائب سربراہ نے کہا تھا کہ مشتبہ لوگوں کے گھروں پر حملے جاری ہیں۔ دہشت گردوں کی سرپرستی کرنے والے ممالک، جن میں برطانیہ سر فہرست ہے اپنے دوغلے پن کی وجہ سے اب اپنے عوام کے سامنے عریاں ہوتے جا رہے ہیں۔ پچھلے چند روز کے دوران جو کچھ لندن میں پیش آیا وہ اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ آزادی اور جمہوریت اور انسانی حقوق کے نام پر دیگر ملکوں کو ہدف تنقید حتٰی فوجی حملے کا نشانہ بنانے والے ملکوں کے پاس اپنے عوام اور میڈیا کو بیوقوف بنانے کے لئے اب کچھ باقی نہیں رہ گیا ہے۔ لندن میں اپنے حقوق کے لئے سڑکوں پر آنے والے مظاہرین کو بدمعاش اور اسمگلر قرار دیکر برطانوی حکومت نے حتٰی اپنے زیر اثر میڈیا کو الجھن میں ڈالدیا ہے۔ کیونکہ دیگر ملکوں میں ہونے والے اس قسم کے آشوب اور مظاہروں کو وہ اپوزیشن کی تحریک اور عوام کا حکام کے خلاف احتجاج قرار دیتے رہے ہیں۔
 دوسال قبل ایران میں صدراتی انتخابات میں مغرب کے من پسند امیدواروں کی شکست کے بعد مغرب نے جسطرح دن رات ایک کر کے ایران کو بدامنی کی آگ میں دھکیلنے کی کوشش کی وہ میڈیا کے حافظے میں محفوظ ہے۔ البتہ مغرب والوں کو اپنے من پسند امیدواروں کی شکست کا زیادہ صدمہ نہیں تھا، بلکہ صدارتی انتخابات کے حوالے سے جو چیز ان کی رسوائی کا سبب بنی وہ ان انتخابات میں لوگوں کی شراکت تھی۔ 85 فیصد ٹرن آؤٹ کے ساتھ ڈاکٹر احمدی نژاد کی دوبارہ جیت نے امریکہ،برطانیہ، جرمنی اور فرانس سمیت جمہوریت کا دعوی کرنے والے سبھی ملکوں پر اوس گرا دی نتیجتاً پہلے مغربی میڈیا خصوصاً بوڑھے برطانوی سامراج کے زیر انتظام چلنے والے ادارے بی بی سی اور اس کے سرپرستوں نے انتخابات میں دھاندلی کا پروپیگنڈا کر کے، عالمی رائے عامہ کی توجہ 85 فیصد ٹرن آؤٹ کے موضوع سے ہٹانے کی کوشش کی اور اس کے بعد یورپ اور امریکہ میں موجود اسلامی انقلاب کے مخالفین، سابق شاہی نظام کی باقیات، اور منافقین کو منظم کر کے دارالحکومت تہران کو مسلسل کئی دنوں تک جلاؤ گھیراؤ اور توڑ پھوڑ سے دوچار کئے رکھا۔
البتہ چونکہ ایران میں اسلامی انقلاب کی برکت سے عوام اور حکومت ایک دوسرے سے الگ نہیں ہیں لہذا زیادہ دیر چلا نہیں اور ان کا جاسوسی نظام عوامی طاقت کے سامنے ڈھیر ہو گیا۔ مجرمین پکڑے گئے، کھلی عدالتوں میں ان پر مقدمات چلے، ان کے اعترفات سامنے آئے تو نہ صرف بی بی سی کو سانپ سونگھ گیا بلکہ آزادی اور غیرجانبداری کا ناٹک رچنے والا مغربی میڈیا بھی بوکھلاہٹ کا شکار ہو گیا اور انتخابات میں دھاندلی کے دعوے کو چھوڑ کر یہ کہنا شروع کر دیا کہ مجرمین کے اعترافات کی کوئی قانونی حثیت نہیں کیوں کہ یہ دوران حراست لئے گئے ہیں۔ 
اب آزادی کا دم بھرنے والوں سے کوئی پوچھے کہ کیا مغرب میں مجرمین، اقبال جرم اپنی گرفتاری سے پہلے کر لیتے ہیں؟ بہرحال اس وقت برطانیہ مجبور ہے کہ وہ لندن میں ہونے والے مظاہروں کو آشوب اور مظاہرین کو بدمعاش اور اسمگلر قرار دے، تاکہ سرکاری فورسز کی جانب سے روا رکھے جانے والے تشدد کو جائز بتا سکے، البتہ تشدد تو تشدد ہوتا ہے اور اسکا کسی صورت میں کوئی جواز نہیں ہوتا۔ اسی چیز کے پیش اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر احمدی نژاد نے مظاہرین کے ساتھ برطانوی پولیس کے پرتشدد رویے پر تنقید کی اور مظاہرین کو برطانوی اپوزیشن کا قرار دیا۔ 
ادھر برطانیہ کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے پارلیمان میں کہا کہ برطانیہ میں ہونے والے فسادات کے منصوبے سماجی میڈیا کے ذریعے بنائے گئے۔ انھوں نے کہا کہ پولیس، خفیہ اداروں اور صنعت کی مدد سے سوچ رہی ہے کہ آیا سماجی نیٹ ورکنگ پر پابندی ہونی چاہیے یا لگ سکتی ہے، اگر اس کا استعمال فسادات پھیلانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ برطانوی وزیراعظم کی سماجی میڈیا سے مراد سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک، ٹوئٹر اور دیگر ٹیکسٹ میسجنگ کرنے والی سہولیات ہیں، بہرحال برطانوی حکومت اور پولیس مظاہرین کے ساتھ وہی سلوک کر رہی ہے جس پر برطانوی حکام دیگر ممالک کو ہدف تنقید بناتے رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سماجی میڈیا پر پابندی اور عوام کے خلاف پولیس کے تشدد آمیز سلوک پر آزادی اور جمہوریت کے دعویدار یوں ہی خاموش رہتے ہیں یا عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کے لئے کوئی ظاہری قدم اٹھاتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 91341
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش