0
Thursday 11 Aug 2011 18:01

لندن سے اٹھنے والے شعلوں کا پیغام

لندن سے اٹھنے والے شعلوں کا پیغام
تحریر:ثاقب اکبر
کمیونیزم اور مارکسزم نے سرمایہ دارانہ نظام (Capitalist) کو ایک عجیب اضطراب اور خوف کی کیفیت میں مبتلا کر رکھا تھا۔ سرمایہ دار مزدوروں کے انقلاب کے ڈر سے انھیں کچھ نہ کچھ حقوق دیے جا رہے تھے، تاہم جیسے ہی کمیونیزم کا جوا اترا، سرمایہ دار تو جیسے آزاد ہو گئے۔ مزدوروں کے انقلاب کا خوف جاتا رہا۔ انھوں نے کارکنوں کے ساتھ وہی سامراجی ہتھکنڈے اپنانے شروع کر دیئے جو کمیونیزم کے خوف سے کم ہو چلے تھے۔ لوگوں کی آمدن اور حقوق پر دوبارہ شب خون مارا جانے لگا۔ ریاستی ادارے پہلے ہی اُن کی گرفت میں تھے۔ اپنا سرمایہ مزید بڑھانے کے لیے انھوں نے ریاستی قوت کا بے محابا استعمال کیا۔ ریاست بجائے اس کے کہ عوام کے حقوق کی محافظت کی ذمہ داری ادا کرتی، دن بدن اس سے دست کش ہوتی چلی گئی۔ انہی سرمایہ داروں کا حصہ ہونے کے سبب یا ان کی معاونت سے اقتدار میں آنے کے سبب ملک کے سیاسی راہنما اس ظلم پر شریک اور خاموش رہے۔
آج یہ کیفیت ہے کہ جب بھی ریاست پر کسی قسم کی کوئی آفت پڑتی ہے، چاہے معاشی ہو یا اقتصادی اس کا تمام تر نزلہ انہی غریبوں پر گرتا ہے۔ انہی کی قلیل آمدنیوں پر حکومت ٹیکس لگا دیتی ہے، انہی کو ملنے والی ریاستی مراعات کو ختم کر دیا جاتا ہے۔ کبھی صحت کے اخراجات پر کٹوتی کے بل سامنے لائے جاتے ہیں تو کبھی سرپلس ملازمین کو نوکریوں سے بے دخل کر کے ان کے گھرانوں کو بھوک ا ور افلاس کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ قرضوں کا بوجھ جب ریاست کی کمر کو دہرا کر رہا ہو تو اس کا سارا بار دراصل انہی غریبوں کے نحیف کندھوں پر آتا ہے، جو مغربی معاشرے کی آب و تاب کے پیچھے ایک خاموش پرزے کی مانند کام کر رہے ہیں۔ 
ہم نے ہمیشہ مغربی میڈیا پر مغرب کے زرق برق کو دیکھا، انھوں نے غربت دکھائی بھی تو صومالیہ اور تیسری دنیا کے ممالک کی۔ آج جب لندن کے علاقے ٹوٹنہم میں مظاہرے اور توڑ پھوڑ کا سلسلہ شروع ہوا تو دنیا کو پتہ چلا کہ ان سامراجی ریاستوں کی زرق برق کے پیچھے جو مزدور ہاتھ کار فرما ہیں ان کی حالت تیسری دنیا کے کسی بھی ملک کے باسیوں کی حالت سے بہتر نہیں۔ NBC نیوز کی لندن میں ہونے والے ہنگاموں پر نشر کی جانے والی رپورٹ کے دوران ٹوٹنہم کے ایک نوجوان سے جب یہ پوچھا گیا کہ ان فسادات کا کوئی فائدہ بھی ہوا یا نہیں، تو رپورٹر کو جواباً اس لڑکے نے کہا:
ہاں ! اگر آج ہم فساد نہ کرتے تو آپ مجھ سے بات نہ کر رہے ہوتے۔ ہم میں سے دو ہزار افراد نے دو ماہ قبل بھی سکاٹ لینڈ یارڈ کی جانب مارچ کیا تھا، ہمارا یہ احتجاج مکمل طور پر پرامن تھا، تاہم ملکی خبر رساں اداروں نے اسے قابل اعتنا نہ جانا۔ ابھی تو کل رات تھوڑے سے مظاہرے اور توڑ پھوڑ ہوئی ہے جس کے نتائج آپ کے سامنے ہیں۔
اس وقت لندن کے علاقے ٹوٹنہم سے شروع ہونے والے مظاہرے اور فسادات پورے برطانیہ میں پھیل چکے ہیں۔ ان مظاہروں میں ایک سیاہ فام اور تین پاکستانی برطانوی شہری مارے جا چکے ہیں۔ بیچارے پاکستانی تو اپنی املاک کی حفاظت کرتے ہوئے ایک تیز رفتار گاڑی کی زد میں آ کر جاں بحق ہو گئے، یا انھیں کچل دیا گیا۔ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے ملک میں ہونے والے ان مظاہروں کے کنٹرول کے لیے انتہائی سخت اقدامات کا عندیہ دیا ہے۔ اپنے ایک بیان میں ڈیوڈ کیمرون نے مظاہرین کو مخاطب کر کے کہا کہ اگر آپ اتنے بڑے ہو چکے ہیں کہ جرم کریں تو آپ کو اس کی سزا کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔ ہم ملک میں کسی قسم کی بدامنی برداشت نہیں کریں گے۔
مظاہرین کو کنٹرول کرنے کے لیے لندن پولیس کی چھ ہزار نفری کو بڑھا کر سولہ ہزار کر دیا گیا ہے۔ نیز ملک کے مختلف اداروں اور افراد کی جانب سے مزید سخت اقدامات کرنے کا مطالبہ بھی سامنے آیا ہے۔ جن میں بعض افراد کا خیال ہے کہ شہروں میں حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے فوج کو بلایا جائے، جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ کرفیو لگا دینا چاہیے۔ بہر حال اب تک سینکڑوں نوجوان گرفتار کیے جاچکے ہیں۔ ایک نوجوان کو تو فسادات کا آغاز کرنے کے جرم میں چار ماہ کی قید کی سزا بھی سنائی جا چکی ہے۔ مظاہرین کو روکنے کے لیے سی سی وی ٹی وی کیمروں کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ میڈیا مظاہرین کی حوصلہ شکنی کرنے میں پیش پیش ہے۔ فیس بک، ٹوئیٹر، یاہو، گوگل پر بنے ہوئے صفحات پر لوگوں کے تاثرات کی بنا پر گرفتاریاں کی جا رہی ہیں اور طرفہ تماشہ تو یہ کہ دنیا بھر میں انسانی حقوق کی علمبرداری کے دعویدار اور ان حقوق کی بزور شمشیر بازیابی کے لیے دندنانے والے آج جب خود پر پڑی ہے تو یہ کہ رہے ہیں:
"چار روز کی ہنگامہ آرائی کو سختی سے کچلنے سے کچھ فرق پڑا ہے۔ نیز یہ کہ انسانی حقوق کے بارے میں جعلی فکرمندی کو رکاوٹ نہیں بننے دیا جائے گا اور لوٹ مار کرنے والوں کو تصاویر سے پہچان کر ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔" ڈیوڈ کیمرون نے مزید کہا کہ برطانیہ کی سڑکوں پر خوف کے راج کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
برطانیہ کے لندن سکول آف اکنامکس کے پروفیسر روڈنی بارکر نے مظاہرین کے حوالے سے حکومتی اور میڈیا کے بیانات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ: "ہم نے دنیا بھر میں ہونے والے حالیہ واقعات میں دیکھا ہے کہ جب بھی عوام میں تھوڑی بہت بےچینی پائی جاتی ہے حکومت اس کی ذمہ داری کچھ فسادیوں، مجرموں اور دہشت گردوں کے سر تھوپ دیتی ہے۔ حکومت کا ہمیشہ یہی موقف ہوتا ہے، تاہم یہ کوئی مجرمانہ سازش نہیں ہے۔ معاشرتی طور پر پریشان مجمع ہر قسم کے لوگوں پر مشتمل ہو سکتا ہے، جن کے اپنے اپنے محرکات ہوتے ہیں۔"
پروفیسر روڈنی بارکر کا کہنا ہے کہ:
"برطانیہ میں فسادات کا سبب برطانوی معیشت کی زبوں حالی ہے۔ حکومت اپنے اخراجات میں بہت وسیع پیمانے پر کٹوتیاں کر رہی ہے جبکہ ٹیکس میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔"
لندن اکنامسٹ انٹیلیجنس یونٹ کے ماہر معاشیات نیل پروتھیرو نے حالیہ مظاہروں اور فسادات پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ برطانوی قرضہ جات میں کمی کے لیے کیے جانے والے عوام دشمن اقدامات مقامی سطح پر ظاہر ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ابھی تو ابتداء ہے اس کے بہت دور رس نتائج وقوع پذیر ہونے والے ہیں۔
تغیر زمانہ دیکھیے کہ کل تک مغربی ممالک جو گڑھے مسلمان ممالک اور دنیا کی کمزور اقوام کے لیے کھود رہے تھے آج وہ خود ان کے دہانے پر آ کھڑے ہوئے ہیں۔ امریکا اور یونان دیوالیہ ہوتے ہوتے بچے، سپین اور اٹلی کے دیوالیہ پن کی خبریں اخبارات کی زینت بن رہی ہیں۔ معاشی بحران کے علاوہ ان ممالک میں پلنے والا سماجی اور ذہنی بحران بھی لائق تشویش ہے۔ تجوریاں سرمایہ داروں کی بھرتی رہیں اور عوام محروم سے محروم تر ہوتے رہیں تو قرضوں کا حجم بڑھتا بڑھتا ریاستوں کو اس مرحلے پر لے آئے گا جہاں کہنا پڑتا ہے:
ع جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں
بالکل اسی طرح جیسے سوویت یونین کو بالآخر کئی ریاستوں کا بوجھ اُتارنا پڑ گیا۔ معاشرے میں پیدا ہونے والی معاشی خلیج اسی صورتحال کا شاخسانہ ہے۔ ایک طرف اتنا ہے کہ گننا مشکل اور دوسری جانب اتنا بھی نہیں کہ پیٹ بھر کر رات بسر کی جا سکے۔ مغربی ممالک کی کچی آبادیاں اور ان کے باسی جو آج تک دنیا سے چھپائے گئے اب پھٹنے کے قریب ہیں۔ حقوق و مراعات سے محروم یہ مزدور یا بے روزگار طبقہ جن کے خون پسینے سے سامراج اور سرمایہ داری نظام سانسیں لے رہا ہے اب خودکشی کے دہانے پر ہے۔ ان کی آواز سرمایہ داروں کی موت کا نقارہ ہے جسے وہ نہ بھی سننا چاہیں تو اس سے فرار ممکن نہیں رہا۔ آج انہیں وقت کی آواز کو سننا ہو گا۔ 
انہیں انسانوں کو قوموں، نسلوں، فرقوں اور طبقوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ انسانیت کی بنیاد پر دیکھنا ہو گا۔ یہ ممکن نہیں کہ وہ اپنی کرنسیوں کو مضبوط کرنے کے لیے دوسرے ممالک کی کرنسیوں کو نقصان پہنچائیں، اپنے بینکوں کی ترقی کے لیے دوسروں کے بینکوں پر قبضے کریں، دوسروں کے وسائل کو بے دردی سے لوٹیں اور پھر اپنے لیے امن کی خواہش بھی رکھیں۔ امیر المومنین علی مرتضی کرم اللہ وجہہ سے بڑا معنی خیز قول منسوب ہے:
حکومتیں کفر سے تو قائم رہ سکتی ہے ظلم سے نہیں
لندن میں بلند ہوتی آگ کے اندر سے اٹھنے والی آہوں سسکیوں اور انتقامی صداﺅں میں سے یہ کلمات آسانی سے سنے جا سکتے ہیں:
ظلم رہے اور امن بھی ہو
کیا ممکن ہے تم ہی کہو
خبر کا کوڈ : 91096
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش