0
Saturday 10 Sep 2011 22:18

کیا اب نیٹو شام پر چڑھائی کا ارادہ رکھتا ہے؟

کیا اب نیٹو شام پر چڑھائی کا ارادہ رکھتا ہے؟

تحریر:ثاقب اکبر
امریکی قیادت میں نیٹو دنیا کے مختلف محاذوں پر سرگرم عمل ہے۔ یو این او کی سلامتی کونسل دامے، درہمے، قدمے، سخنے نیٹو کو مواقع اور جواز فراہم کرتی چلی آرہی ہے اور جہاں کہیں سلامتی کونسل کا کوئی رکن امریکہ سے روٹھنے کی کوشش کرتا ہے تو امریکہ اسے راہ راست پر لانے کے لیے اور راستے نکال لیتا ہے۔ جیسا اس نے عراق کے معاملے میں کیا۔ عراق پر چڑھائی میں اگرچہ فرانس اور جرمنی نے امریکہ کی تائید نہیں کی لیکن بعد ازاں امریکہ نے ان کے لیے ایسے حالات پیدا کر دیے کہ وہ دونوں ہر محاذ پر اس کی تلافی کرتے نظر آتے ہیں۔ ایران کے جوہری توانائی کے مسئلہ پر پابندیاں عائد کرنے کا معاملہ ہو یا لیبیا پر فضائی حملوں کا فیصلہ نیٹو کے تمام اتحادی بڑھ چڑھ کر امریکہ کا ساتھ دے رہے ہیں۔ لیبیا میں کسی حد تک اپنے مقاصد پورے کرنے کے بعد نیٹو کی نظر میں اگلا اہم محاذ شام کا معلوم ہوتا ہے۔
شام کو امریکہ نے پہلے ہی ”بدی کا محور “ قرار دے رکھا ہے۔ امریکہ اور یورپی یونین نے شام کے خلاف طرح طرح کی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ ان پابندیوں کے نفاذ میں انھیں سعودی عرب، اردن، مراکش، قطر اور متحدہ عرب امارات جیسی ریاستوں کا تعاون بھی حاصل ہے۔
لاطینی امریکہ کی ریاستوں کے اتحاد جسے( Latin America's Bolivarian Alliance for the People of our America ALBA) کہا جاتا ہے نے وینزویلا کے دارلحکومت Caracas میں منعقد ہونے والے اپنے ایک حالیہ اجلاس میں نیٹو کو شام کے خلاف فوجی کارروائی سے باز رہنے کا کہ کر یہ ظاہر کیا ہے کہ نیٹو اس سلسلے میں کوئی سنجیدہ فیصلہ کرنے ولا ہے۔ ALBA کے بیان میں لیبیا کے خلاف نیٹو کی کارروائی کی مذمت بھی کی گئی ہے۔ 9 ستمبر کی میٹنگ میں ALBA کے وزرائے خارجہ نے اپنے اجلاس کے موقع پر ایک بیان جاری کیا جس میں لیبیا کے خلاف نیٹو کی کارروائی کو ایک خطرنا ک مثال قرار دیا گیا ہے۔ لاطینی امریکا کے اس اتحاد نے مغرب کے فوجی اتحاد نیٹو کو خبردار کیا ہے کہ وہ شام کے داخلی سیاسی معاملات کو اپنی فوجی جارحیت کے لیے جواز نہ بنائے۔ بیان میں نیٹو کے ہاتھوں لیبیا کے بیس ہزار باشندوں کے قتل پر شدید افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔ وینز ویلا کے راہنما ہو گو شاویز نے اس موقع پر ALBA کے اراکین سے تقاضا کیا کہ وہ اپنے وزرائے خارجہ پر مشتمل ایک کمیشن دمشق روانہ کریں کیونکہ ان کی رائے میں اب نیٹو شام کے خلاف اقدام کا ارادہ رکھتا ہے۔ یاد رہے کہ ALBA جو 2004 میں قائم ہوا میں وینز ویلا کے علاوہ کیوبا، بولویا، نکاراگوا، ایکواڈور اور لاطینی امریکہ کی متعدد دیگر ریاستیں شامل ہیں۔
قبل ازیں روسی صدر دیمتر میدیدوف نے بھی کہا تھا کہ وہ شام کے خلاف کسی بھی فوجی کارروائی کی حمایت نہیں کریں گے۔ برطانوی اخبار کو دیے گئے ایک انٹرویو میں روسی صدر کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ میں شام کے خلاف فوجی کارروائی کی کوئی بھی قرارداد پیش کی گئی تو اسے ویٹو کر دیا جائے گا۔ روسی صدر نے شام کے صدر بشار الاسد کے لیے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس وقت ایک بہت مشکل صورت حال سے دوچار ہیں۔ دریں اثنا روسی سفارتخانہ شام میں حکومت اور اپوزیشن کے مابین مذاکرات کے لیے مثبت کوششیں کر تا رہا ہے جن کے نتیجے میں ایمرجنسی کا خاتمہ ممکن ہوا اور بعض دیگر اصلاحات کا عمل بھی شروع ہوسکا۔
دوسری طرف شام کے اندر امریکہ اور اس کے حامیوں کی کھلی مداخلت کی خبریں پوری دنیا میں گشت کر رہی ہیں۔ اس سلسلے میں وکی لیکس کے انکشافات بہت اہم ہیں۔ وکی لیکس کی جاری کردہ خفیہ دستاویزات کے مطابق امریکی حکومت شام کی اپوزیشن جماعتوں او ر حکومت مخالف سیٹیلائٹ ٹی وی چینلز کو ساٹھ لاکھ ڈالر فراہم کر چکی ہے۔ شام میں حکومت مخالف سیاسی جماعتوں اور ٹی وی چینلز کو رقم کی فراہمی سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے دور میں ہی شروع ہو گئی تھی۔ اس وقت امریکا نے شام سے سفارتی تعلقات منقطع کر دیے تھے۔ وکی لیکس سے جاری ہونے والی خفیہ امریکی دستاویزات کے مطابق رقم کی فراہمی اوباما انتظامیہ کے دور حکومت میں بھی جاری ہے۔ امریکی حکام نے ان دستاویزات پر تبصرے سے انکار کر دیا ہے۔
شام میں شروع ہونے والے مظاہروں کے حوالے سے بعض انٹیلی جنس ایجنسیوں اور وکی لیکس کی رپورٹ کے مطابق یہ سب کچھ ایک طے شدہ بڑے منصوبے کا حصہ ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ایک اسرائیلی اخبار ہارتیز کے مطابق یہ ہے کہ شام فلسطینی تحریکوں کو اسلحہ فراہم کر تا ہے۔ اخبار کے مطابق حماس اور اسلامی جہاد کے مجاہدین کی تربیت کے لیے بھی لبنان اور شام ہی بیس کیمپ قرار پایا ہے۔ امریکہ اور اسرائیل کی نظر میں شام کا دوسرا بڑا جرم ایران اور حزب اللہ کے انقلابی موقف کی تائید ہے۔ آس پاس کی ہمسایہ عرب ریاستوں کے برعکس شام اسرائیل کے خلاف خم ٹھونک کر کھٹرا ہے۔ 1967ء سے شام کا جولان کی پہاڑیوں کا علاقہ اسرائیل کے قبضے میں چلا آرہا ہے۔ شام اسرائیل کی قانونی حیثیت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔
عراق پر فوجی قبضے کے بعد امریکا نے شام پر دباﺅ بڑھانے کے لیے مختلف ہتھکندے اختیا کیے۔ 2005ء میں لبنان کے سابق وزیراعظم رفیق حریری کا قتل بھی شام پر ڈال دیا گیا اور شام پر اچانک اس قدر دباﺅ بڑھایا گیا کہ اسے لبنان سے اپنی افوج نکالنا پڑیں جو اسرائیلی جارحیت روکنے کے لیے لبنانی حکومت کی درخواست پر وہاں داخل ہوئی تھیں۔ شامی افواج کے انخلا کے بعد اسرائیل نے حزب اللہ کے خلاف کارروائی کے لیے موقع غنیمت جانا۔ لبنان پر اسرائیل کی طرف سے 2006ء میں مسلط کی گئی جنگ اسرائیل کے اسی زعم کا نتیجہ تھی۔ شمالی افریقہ اور مشرق وسطی میں عوام کی انقلابی اٹھان نے جب امریکی گماشتوں کے برج الٹنے شروع کیے تو امریکا نے نیٹو اور اپنے علاقائی اتحادیوں کے ساتھ مل کر نئی حکمت عملی تشکیل دی جس کے مطابق جہاں ایک طرف امریکی اتحادیوں کی حتی الوسع حفاظت کا اصول اپنایا گیا وہاں دوسری طرف جہاں امریکا مخالف حکومتیں ہیں وہاں عوام کو حکومتوں کے خلاف اٹھانے اور اسے خطے کی عوامی بیداری سے جوڑنے کی پالیسی اپنائی گئی۔ بحرین میں بادشاہت کا تحفظ اور عوام کا قتل عام جبکہ شام میں مظاہروں کا برپا کرنا اور انھیں جمہوری جدوجہد قرار دے کر ہر طرح کا تعاون مہیا کرنا اسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔
شام میں سال رواں کے ماہ مارچ میں اردن کے بارڈر پر واقع ایک شہر ” درعہ“ سے مظاہروں کا آغاز کیا گیا۔ یہ ایک ہمہ گیر منصوبے پر عمل درآمد کا آغاز تھا جس کے بارے میں واشنگٹن پوسٹ نے وکی لیکس کے حوالے سے لکھا کہ اس تمام منصوبے کے لیے رقم کی فراہمی سعودی عرب کے ذمے تھی جبکہ امریکا نے بھی اس میں کئی بلین ڈالر کا حصہ ڈالا۔ شام مسلسل اپنے ملک میں امریکہ اور اس کے حواریوں کی مداخلت پر احتجاج کر رہا ہے۔ شام کی وزارت خارجہ نے کئی مرتبہ امریکی اور فرانسیسی سفیروں کو سفارتی امور سے متعلق جنیوا کنونشن کی شق نمبر41 کی خلاف ورزی پر متنبہ کیا ہے اور انھیں شام کے داخلی امور میں مداخلت سے باز رہنے کے لیے کہا ہے۔ رپورٹس کے مطابق دونوں سفیروں نے شام کی حکومت کی اجازت کے بغیر مظاہرین سے ملاقاتیں کی ہیں اور دمشق سے باہر دیگر شہروں میں جاکر حکومت کے مخالفین سے رابطے کیے ہیں اور انھیں اپنی حمایت کی یقین دہانی کروائی ہے۔ حکومت کے احتجاج کے باوجود دمشق میں امریکی سفیر رابرٹ فورڈ نے کہا ہے کہ وہ حکومت کے مخالفین سے ملاقاتیں جاری رکھیں گے۔
مشرق وسطی کے حالات پر نظر رکھنے والے مبصرین سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ خطے میں عوامی بے چینی کی بنیادی وجہ علاقے میں موجود آمروں اور بادشاہوں کی عوام اور اسلام دشمن پالیسیاں ہیں۔ مصر کا عوامی انقلاب اس کی سب سے نمایاں مثال ہے کیونکہ خطے میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک مصر ہے جہاں کے عوام آج بھی اسرائیلی سفارت خانے پر دھاوے بول رہے ہیں اور کیمپ ڈیوڈ کے معاہدے کے خاتمے اور اسرائیل سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے لیے مظاہرے کر رہے ہیں۔ شام کے عوام بھی اسرائیل کے بارے میں یہی جذبات رکھتے ہیں لہذا جمہوریت کی حمایت کا مطلب ہر گز یہ نہیں لیا جانا چاہیے کہ شامی عوام اسرائیل کی حمایت کرنے والی کسی حکومت کو حق حکمرانی تفویض کرنا چاہتے ہیں تاہم سعودی عرب کی کوشش یہ ہے کہ معاملے کو امریکہ اور اسرائیل کے خلاف لے جانے کے بجائے فرقہ وارانہ رنگ دیا جائے۔ جیسا کہ وہ بحرین میں کر رہا ہے اور اس کے ہم فکر گروہ مصر میں کر رہے ہیں۔
مصر کے عوام کا انقلاب اگر اپنے رخ پر آگے بڑھتا رہا تو یقینی طور پر شام میں ہی نہیں دیگر عرب ملکوں میں بھی امریکہ نواز، رجعت پسند اور فرقہ پرست قوتوں کو شکست ہوگی۔ عراق نئی کروٹیں لینے والا ہے۔ سال رواں کے آخر تک عراق سے امریکی افواج کے مکمل انخلا کے بعد ایک نیا عراق منصہ شہود پر آسکتا ہے۔ ترکی اگرچہ نیٹو کا حصہ ہے اور شام کے ایک مضافاتی صوبے کے بارے میں اس کے سرحدی تنازعات بھی ہیں البتہ اسرائیل کے بارے میں اس کا رویہ تبدیل ہو رہا ہے۔ ایران پہلے ہی اسرائیل کو ایک ناجائز ریاست قرار دیتا ہے ان حالات میں آل سعود اور دیگر ہمنواﺅں کے سہارے امریکہ کہاں تک اور کب تک اسرائیل کے تحفظ کے لیے اور اپنی استعماری پالیسیوں کے فروغ کے لیے خطے میں موجود رہ سکتا ہے۔ اس کا جواب حاصل کرنے کے لیے شاید نسلوں کا انتظار نہیں کرنا پڑے بلکہ فصلوں کی تبدیلی ہی کسی بڑے تغیر کی پیغامبر ہو سکتی ہے۔

مصنف : تنویر حیدر سید
خبر کا کوڈ : 97818
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش