1
0
Monday 2 Apr 2012 10:35

نوجوان علمی لحاظ سے ترقی کریں تو بہت سارے مسائل وہ خود ہی حل کر سکتے ہیں، علامہ غلام عباس رئیسی

نوجوان علمی لحاظ سے ترقی کریں تو بہت سارے مسائل وہ خود ہی حل کر سکتے ہیں، علامہ غلام عباس رئیسی
علامہ غلام عباس رئیسی کا شمار پاکستان کے متدین علماء میں ہوتا ہے، بنیادی طور پر ان کا تعلق پاکستان کے شمالی علاقہ بلتستان سے ہے، بقول اُن کے کہ والد بزرگوار اُن کی پیدائش سے پہلے ہی انتقال کر گئے تھے، والدہ محترمہ کے ہمراہ نجف اشرف چلے گئے، تاہم وہاں پہنچے پر والدہ محترمہ کا سایہ بھی زیادہ دیر ساتھ نہ رہا۔ بڑے بھائی کی فیملی کے ساتھ نجف میں سکول کی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ 1975ء میں نجف سے نکال دیئے گئے اور یوں وطن واپس آ کر کراچی میں مدرسہ جعفریہ میں داخلہ لیا۔ چار سال تک وہاں لمعہ تک تعلیم حاصل کی، اس کے ساتھ ساتھ کالج کی بھی تعلیم حاصل کی۔ 1979ء میں انقلاب اسلامی ایران کے بعد اسی سال کے آخر میں قم المقدس چلے گئے اور یوں ایران میں درس و تدریس میں مصروف رہے۔ 1989ء سے 2003ء تک مدرسہ امام خمینی رہ ایران میں پڑھاتے رہے۔ علامہ غلام عباس رئیسی اب گزشتہ ڈیڑھ سال سے جامعہ عروۃ الوثقٰی لاہور میں پڑھا رہے ہیں۔ ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے علامہ صاحب سے ایک اہم انٹرویو کیا ہے، جو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: آج کل پاکستان جن مسائل سے دوچار ہے، خاص طور پر فرقہ واریت کو ابھارا جا رہا ہے؟ آپ نظر میں اس کا اچھا اور بہتر حل کیا ہو سکتا ہے؟ قوم کو کس طرف توجہ دینی چاہیے اور اس بحران سے کیسے نکلنا چاہیے۔؟

علامہ غلام عباس رئیسی: دیکھیں، مذہبی اختلافات تو چودہ صدیوں سے چل رہے ہیں، لیکن اب یہ شدت اختیار کر چکے ہیں۔ اس میں سیاسی عوامل کے ساتھ ساتھ مذہبی عوامل بھی کارفرما ہیں۔ یعنی مذہب کے نام پر کفر کے فتوے دیئے جاتے ہیں۔ مذہب اور اسلام کے نام پر دہشتگردی کی جا رہی ہے اور یہ ثابت بھی ہو چکا ہے کہ ان کو سپر طاقتیں استعمال کرتی ہیں۔ ہمارا سب سے پہلا جو فرض بنتا ہے وہ یہ ہے کہ ہم اتحاد اسلامی کے حوالے سے کام کریں اور وحدت کو تقویت دیں، تاکہ مشترک اہداف کے لیے تمام مسلمان مل کر آگے بڑھیں۔ ہمارا قرآن، پیغمبر ص، کعبہ، مدینہ، سنت و اہل بیت علیہ السلام، آخرت اور احکام دین سمیت کئی چیزیں جو مشترک ہیں اور ان کو سب مانتے ہیں۔ ہمارے اتحاد کے بہت سے عوامل ہیں، پس اگر ان پر زور دیا جائے تو اپنائیت محسوس ہو گی اور دہشتگردی بھی بند ہو جائے گی۔

دوسرا علمائے کرام کو چاہیے کہ وہ آپس میں بیٹھ کر گفتگو کریں تاکہ کفر و شرک کے فتوؤں کو روکا جا سکے اور ان پر علمی کام کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ ان فتوؤں کی بنیادوں کو باطل ثابت کر سکیں۔ جب آپ انہی فتویٰ دینے والے علمائے کرام سے دلائل مانگیں گے تو ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہو گی۔ ایسے علمائے کرام جو کفر و شرک کے فتوے دیتے ہیں ان کو حکومت، میڈیا یا پھر کسی اور ذرائع کے ذریعے ایک جگہ جمع کیا جائے اور پھر اسلامی اصولوں کے مطابق کفر و شرک کے معیاروں پر گفتگو کی جائے تاکہ ان کے ہاتھ سے فتوؤں کے اسلحہ کو چھینا جا سکے۔

حکومت کی ذمہ داری یہ بھی بنتی ہے کہ تعلیمی اداروں میں دینی تعلیم کیساتھ ساتھ اتحاد پر کام کیا جائے اور بچوں کے ذہنوں میں اس کی اہمیت کا احساس دلایا جائے۔ خود علمائے کرام کی ذمہ داری یہ ہے کہ جب کوئی مسلمان دہشتگردی یا تفرقہ میں مارا جاتا ہے تو واقعاً صریح فتویٰ میں کہا جائے کہ یہ شرعاً ناجائز ہے، شیعہ سنی مکاتب فکر کی رو سے کسی کا بھی قتل حرام ہے، دہشتگردی کا کوئی بھی واقعہ پیش آئے اس پر تمام مکاتب فکر کے علماء کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اسے حرام قرار دیا جانا چاہئے، تاکہ وہ عناصر جو جعلی فتووں کی دکانیں کھولے ہوئے ان کے نرغے میں عام مسلمان نہ آسکیں اور کوئی دھوکہ نہ کھائے۔

علمائے کرام کو سیاسی بیان بازی کی بجائے اپنا شرعی وظیفہ ادا کرنا چاہیے، بعض لوگ ڈھکے چھپے الفاظ میں واقعات کی مذمت کرتے ہیں یا پھر اس کا جواز تراشنے کی کوشش کرتے ہیں جو ملک اور اسلام کے خلاف ہے۔ اسی طرح میڈیا کی بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ اس طرح کی خبریں نشر نہ کرے، جس سے لوگوں کے جذبات مشتعل ہوں۔ وحدت کے لیے کام کم ہوتا ہے جبکہ اختلاف کے لیے کام زیادہ ہوتا ہے۔ پس میڈیا یہ کام آسانی سے کر سکتا ہے کہ وحدت کو زیادہ سے زیادہ پھیلائے۔ میڈیا اپنے ٹاک شو میں دونوں پارٹی کے علمائے کرام کو بلا کر پروگرام کرائے اور دونوں کے دلائل سنے اور فیصلہ کرے۔ اسی طرح تعلیمی اداروں، سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹی میں بھی اتحاد پر کام ہونا چاہیے کہ وحدت کن کے ساتھ ہونی چاہیے، کیسے ہونی چاہیے اور کیوں ہونی چاہیے۔

اسلام ٹائمز: ملک میں قتل غارت جاری ہے، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس سارے معاملے میں اعلٰی عدلیہ اپنی ذمہ داری نبھا رہی ہے۔؟

علامہ غلام عباسی رئیسی: ہم سمجھتے ہیں کہ اس حوالے سے کوئی اپنی ذمہ داری ادا نہیں کر رہا، آپ نے عدلیہ سے متعلق سوال کیا ہے کہ وہ بھی اپنی ذمہ داری ادا نہیں کر رہی، عدلیہ میں جو افراد ہیں وہ دو افراد کے جھگڑوں کا تو ازخود نوٹس لیتے ہیں لیکن ہمارے ہزاروں لوگ مارے گئے اور مارے جا رہے ہیں، اس حوالے سے کوئی بات کرنے کو تیار نہیں۔ درحقیقت اس دہشتگردی سے نقصان سب کو یکساں ہو رہا ہے کیونکہ جب جنگل کو آگ لگتی ہے تو سارے درخت اس آگ کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں اور جل کر راکھ ہو جاتے ہیں۔ جب قتل کرنا آسان ہو جائے تو باپ بیٹے کو اور بیٹا باپ کو قتل کرے گا، اس سے قتل کرنے کی قباحت ختم ہو جائے گی اور کسی کو کسی کا ڈر نہیں رہے گا۔
 
مغربی ممالک نے خود آزمایا، مسیحی برادری میں خانہ جنگی ہوئی، یہ سب دین سے نفرت کرنے لگے، یہاں تک کہ انہوں نے تفرقے اور خانہ جنگی سے نجات کا راستہ ترک دین کو منتخب کیا۔ یہی تجربہ عالم اسلام میں بھی کرنا چاہتے ہیں۔ دہشتگردوں کے ذریعے اسلام کے نام پر ان لوگوں کو تنگ کیا جائے، خون خرابہ کیا جائے، تاکہ سب دین سے متنفر ہوں، دین سے جدا ہوں۔ اغیار کی یہ حتی المقدور کوشش ہے کہ دین اسلام کو اتنا بدنام کر دیا جائے کہ بالآخر لوگ اس دین سے تنگ آ جائیں اور یہ سمجھیں کہ یہ دین اسلام ہی ہمارے لیے وبال جان ہے، ہمارا سکون برباد کرتا ہے اور ہمارے ملک کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے، یہ دین اسلام ہماری دنیا و آخرت دونوں کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ 

جو ترک دین کا واقعہ مغرب میں پیش آیا، اسی واقعہ کو اب اغیار عالم اسلام میں دیکھنا چاہتا ہے۔ اس مقصد کے لیے خود استعمار اور استعمار کے پٹھو ممالک و پٹھو علماء، دہشتگرد سب مل کر کام کر رہے ہیں، لیکن جو اہل درد ہیں اور ملت کے لیے درد رکھتے ہیں ان کی یہ ذمہ داری بنتی ہے علمی حوالے سے قرآن و سنت کے ذریعے سے ان کے ہاتھوں سے اسلحے کو چھین لیں۔ عوام اور علمائے کرام متحد ہو جائیں۔

اسلام ٹائمز: ہم آپس میں بٹے ہوئے ہیں، وحدت کیسے ممکن ہے۔؟

علامہ غلام عباسی رئیسی: جی بالکل ایسا ہی ہے کہ قرآن میں اہل کتاب سے فرمایا کہ ایسی بات کی طرف آجاؤ جو ہم دونوں کے درمیان مشترک ہے۔ یعنی آپ اتحاد کی طرف دعوت اس وقت دے سکتے ہیں جب آپ کے درمیان چیزیں مشترک ہوں گی۔ ہمارے مسائل کا حل اسی میں ہے کہ تمام گروہ اکٹھے ہو کر قوم و ملت کے لیے کام کریں اور اپنا اپنا حصہ ڈالیں۔ جیسا کہ عاشورا کا جلوس ہے، سب کا ہدف یہی ہے کہ اس جلوس کو کامیاب کریں، ہر تنظیم، ہر انجمن کے اپنے اپنے دستے ہوتے ہیں، اپنا گروہ ہوتا ہے لیکن وہ اپنے تشخص کے ساتھ آتے ہیں اور سب مل کر عاشورہ کو کامیاب بناتے ہیں۔ اسی طرح قومی مسائل میں ہر گروہ کو چاہیے کہ وہ اس کے حل کے لیے اپنا اپنا حصہ ڈالیں، مشترکات میں اپنی ذمہ داری پر عمل کریں۔
 
قرآن پاک یہودیوں کے بارے میں فرماتا ہے کہ ان کو آپ متحد سمجھتے ہیں لیکن ان کے دل پراکندہ ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ عقل نہیں رکھتے۔ اگر عقل نہ ہو تو اتحاد کے تمام تر وسائل ہوتے ہوئے بھی استفادہ نہیں ہو سکتا۔ گروہ کا اپنا مسئلہ تو گروہ خود اٹھاتا ہے لیکن قوم کے مسئلے کو بھی قومی سطح پر اٹھانا چاہیے، تاکہ ساری قوم مل کر اس کے حل کے لیے کوششیں کرے۔ جس طرح اگر عاشورہ کو گروہ کے نام سے منائیں تو صرف وہی گروہ آئے گا چونکہ عاشورہ کو گروہ کے نام سے نہیں بلکہ ایک امت کے طور پر منایا جاتا ہے اسی لیے سارے لوگ اس کو مل کر مناتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: وحدت کی طرف نہ آنے کی پاکستان میں سب سے بڑی مشکل کیا دیکھتے ہیں۔؟

علامہ غلام عباس رئیسی: جو میں سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ پاکستان کی قوم میں شعور کی کمی ہے۔ دینی اور دنیاوی دونوں لحاظ سے ہماری قوم میں شعور کی بہت زیادہ کمی ہے۔ کسی چیز کی صحیح معرفت نہیں، اسی لیے دین کے نام پر بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے۔ دنیاوی لحاظ سے بھی یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ ہم اتنے بے شعور ہیں کہ ملک کو نقصان پہنچانے والوں کو ہی ووٹ دیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ قوم کے پاس شعور نہیں ہے۔ ہماری قیادت بھی اتنی قابل اعتماد نہیں اور اس کے ہم بارہا تجربے کر چکے ہیں۔ جو بھی اب تک اقتدار میں آیا ہے اس نے سب سے پہلے اپنی ذات کو مقدم رکھا، بعد میں اس نے ملک کی طرف دیکھا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قوم کی تربیت کی جائے، تاکہ وہ مخلص لوگوں کو ووٹ دیں اور اچھی پارٹیوں کا ساتھ دیں۔

اسلام ٹائمز: آئے روز شیعہ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات بڑھ رہے ہیں، کیا مختلف شیعہ جماعتیں، گروہ، تنظیمیں آپس میں اتحاد نہیں کر سکتیں؟ کیا دفاع تشیع ایسا مشترکہ ایجنڈا نہیں ہو سکتا کہ ہم اپنے اتحاد کے ذریعہ دشمن کی سازشوں کو سمجھیں اور انہیں ناکام بنا دیں۔ کیا ایسا ممکن ہے۔؟

علامہ غلام عباس رئیسی: اتحاد ناممکن تو نہیں لیکن عملاً ایسا ہے کہ قوم کی طرف سے ایسی تحریک ہونی چاہیے جو اوپر والے علماء کرام کو متحد ہونے پر مجبور کرے، جس طرح ایران میں امام خمینی رہ نے سب لوگوں کو متحد ہونے پر مجبور کیا تھا۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہم میں کام کرنے کی تربیت نہیں۔ دشمنوں کے ظلم و ستم کو دیکھتے ہوئے ہم اپنے گروہوں کو متحد ہونے پر مجبور کریں لیکن یہ سب عوام کی طرف سے ہی ہو سکتا ہے۔ خود رہبران کو بھی چاہیے کہ وہ صرف باتوں کی حد تک نہ رہیں بلکہ عملاً کچھ کام کر لیں۔ 

تمام گروہوں کو اپنے تشخص کو بالائے طاق رکھ کو مشترکات پر رہ کر قوم و ملت کے لیے کام کرنا چاہیے۔ پہلے قوم ایک مسئلے کے حل کے لیے اٹھے اور آہستہ آہستہ تمام مسائل کے حل کے لیے مل کر کام کرے تو یہ قوم اس طرح مل کر کام کرنے کی عادی ہو جائے گی۔ مل کر کام کرنے میں سب کا خیال رکھنا پڑتا ہے کیونکہ تنہاء کام کرنے میں اس آدمی کو کوئی روکنے والا نہیں ہوتا ہے۔ ان مسائل کے حل کے لیے وہی انسان متحرک ہوتا ہے جو اہل درد ہو۔ علاوہ ازیں عوام کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایسے علمائے کرام کا ساتھ دیں جو قوم و ملت کے لیے کام کرتے ہیں اور گروہ بندی کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ لوگوں کو اسی طرح قومی مسائل کو حل کرنے میں دلچسپی لینے چاہیے جس طرح وہ اپنے کاموں میں دلچسپی لیتے ہیں۔ عوام کو چاہیے کہ وہ اپنے ذاتی مسائل سے بڑھ کر قومی مسائل پر توجہ دیں اور نااہل لوگوں کے ہاتھ میدان نہ دیں۔

اسلام ٹائمز: یہ نکتہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ولایت و رہبریت کے ماننے والے کیوں بکھر گئے ہیں اور ایک جگہ جمع کیوں نہیں ہوتے۔؟
علامہ غلام عباس رئیسی: ہم سب ایک ہیں، کام ایک ہیں لیکن طریقہ کار مختلف ہے۔ ہمارا ہدف ایک ہے اور اس ہدف و مقصد تک پہنچنے کے لیے ہر فرد جو حکمت عملی سمجھتا ہے اس میں اختلاف ہے۔ حکمت عملی جگہ کے حوالے سے، علاقے کے حوالے سے مختلف ہو سکتی ہے، آدمی کی سوچ کے حوالے سے اختلاف ہو سکتا ہے کیونکہ ہر آدمی جو سوچتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس حکمت عملی کے ذریعے سے ہی ہدف و مقصد تک پہنچا جا سکتا ہے۔ اس میں سب سے اہم چیز یہ ہے کہ ہمیں مل کر مشورہ کرنا چاہیے۔ باہمی مشورہ کرنے سے بھی اختلافات میں کمی آ سکتی ہے اور مشورے سے مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔
 
انسان کی طبیعت میں ریاست طلبی ہے۔ سب کا ہدف ایک ہے لیکن تقویٰ میں کم و زیادتی ضرور ہے۔ عرفاء کا ایک مشہور جملہ ہے کہ صالحین کے دل میں سے جو برائی سب سے آخر میں نکلے گی وہ ریاست طلبی ہے۔ پس دوسروں کی بات ماننا بہت مشکل ہے اور یہ مشکلات ہر قوم کے لیے ہیں۔ باقی اقوام سے ہمارے ہاں ایسے مسائل و مشکلات کم ہونی چاہیں کیونکہ ہمارا مذہب حق کا مذہب ہے اور ہم پیروان اہل بیت ع ہیں اور ہمیں اپنی ذمہ داری کا احساس دوسرے لوگوں سے زیادہ کرنا چاہیے۔ پھر بھی ہماری مشکلات دوسروں سے زیادہ ہیں اور وہ اس لیے کہ ہم اقلیت میں ہیں اور ایک دوسرے سے ملنا بہت مشکل ہے اور ناپاک ہاتھ ہمیں آپس میں متحد ہونے نہیں دیتے ہیں۔ پس ہمیں تربیت کی بھی ضرورت ہے، تاکہ ہم کسی بھی موقع پر کسی قربانی سے دریغ نہ کر سکیں۔

اسلام ٹائمز: نوجوانوں کو کیا پیغام دیں گے؟

علامہ غلام عباس رئیسی: ہم دین کے نظریے کے مطابق بات کرتے ہیں، اس لیے یہ پیغام اپنا پیغام نہیں بلکہ دین کا ہی پیغام ہے، اپنے پیغام کے لیے باعمل ہونا بہت ضروری ہے۔ نوجوان اپنی جوانی کو محفوظ رکھیں، اپنے عزم و جرات کو محفوظ رکھیں۔ دین کی حقیقی معنوں میں معرفت حاصل کریں تاکہ دھوکہ نہ کھا سکیں، کیونکہ ہمارے نوجوان اکثر دین کے نام پر استعمال ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ نوجوانوں کو چاہیے کہ دنیاوی لحاظ سے بھی اپنے آپ کو جدید علوم سے آراستہ کریں کیونکہ تعلیم یافتہ افراد ہی دین کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں اور وہی ملک و قوم کی بہتر طور پر خدمت بھی کر سکتے ہیں۔ اگر شیعہ نوجوان علمی لحاظ سے ترقی کریں تو بہت سارے مسائل وہ خود ہی حل کر سکتے ہیں۔ 

انقلاب اسلامی ایران کا اثر پاکستانی نوجوانوں پر زیادہ ہونا چاہیے تھا کیونکہ پاکستانی جوانوں میں جذبات بہت زیادہ ہیں، اتنے جذبات شاید ہی کسی اور ملک کے جوانوں میں ہوں، لیکن اس کے برعکس پاکستانی نوجوانوں نے اس کا اثر کم لیا اور لبنانی جوانوں میں اس کا اثر و رسوخ زیادہ ہے، اس لیے کہ وہ تعلیم یافتہ زیادہ ہیں۔ وہاں کے علماء بھی زیادہ علم رکھنے والے تھے اور عوام بھی زیادہ تعلیم یافتہ تھے۔ عرب ممالک میں سب سے زیادہ تعلیم یافتہ لبنان ہے۔ لبنان نے سب سے زیادہ اس پیغام کو سمجھا اور سب سے زیادہ عمل کرنے کی ان میں صلاحیت آ گئی۔ پس یہ ہمارے لیے باعث نمونہ ہے کہ اگر ہم دین اور دنیا دونوں کی معرفت رکھتے ہوں تو ہمیں بہتر طریقے سے پتہ چلے گا کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے، کن کا ساتھ دینا چاہیے اور کن کا ساتھ نہیں دینا چاہیے۔ اس طرح ہمارے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 149490
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

سبحان اللہ۔ اس سایٹ کے ارباب اختیار سے گزارش ہے کہ اس طرح کے فکر انگیز انٹرویوز uploud کریں۔
ہماری پیشکش