1
0
Thursday 17 May 2012 12:20

ہم ایک مرجع تقلید رکھتے ہیں جو ہمیں تمام اختلافات سے بچا سکتا ہے، علامہ افتخار نقوی

ہم ایک مرجع تقلید رکھتے ہیں جو ہمیں تمام اختلافات سے بچا سکتا ہے، علامہ افتخار نقوی
علامہ سید افتخار حسین نقوی کا شمار پاکستان کی معروف مذہبی شخصیات میں ہوتا ہے، اپنے دور میں ہونیوالی مکتب تشیع کی تمام سرگرمیوں میں ہراول دستے کے طور پر شامل رہے۔ ایک مدت تک تحریک جعفریہ پنجاب کے صدر رہے، اسکے بعد آپکو تحریک جعفریہ پاکستان کے مرکزی جنرل سیکرٹری کے طور پر چن لیا گیا۔ ضلع میانوالی میں قائم مدرسہ امام خمینی رہ کے انچارج ہیں۔ آج کل اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبر ہیں اور اس کونسل میں ایک فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے علامہ صاحب سے قومیات پر تفصیلی گفتگو کی ہے، جس کا احوال پیش خدمت ہے۔

اسلام ٹائمز: ملت تشیع کا شیرازہ بکھیرنے میں کس کا ہاتھ دیکھتے ہیں؟
علامہ سید افتخار حسین نقوی: کسی بھی مسلک کے پیروکاروں میں مختلف گروپوں کا وجود نقصان دہ نہیں ہے جب تک کہ وہ آپس میں دست گریبان نہ ہوں اور ایک دوسرے کی کمزوریوں کو اچھالیں۔ ہم ایک مرجع تقلید رکھتے ہیں جو ہمیں ان اختلافات سے بچا سکتا ہے، اور اس سے بالا تر ولایت فقیہ کا نظریہ جس کے مطابق ہم ولایت فقیہ کو امامت کا تسلسل سمجھتے ہیں اور اس وقت ولایت فقیہ کی مسند پر حضرت آیت اللہ العظمٰی آقای سید علی خامنہ ای فائز ہیں۔ ان کی رائے کے سامنے سارے جھک جاتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسے افراد جن کا تعلق مرجعیت سے ہے اور وہ ولایت فقیہہ کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں ان کا مسلک آسان ہے۔ میں گروپ بنانے کو کمزوری نہیں سمجھتا، ظاہر ہے ہر کسی کے کام کرنے کا انداز اور سوچ مختلف ہے، لیکن ایک اصولی بات یہ ہے کہ ہمارے کسی اقدام سے من حیث القوم شیعہ مسلک یا پاکستان کو نقصان نہ پہنچے۔ پاکستان کی سالمیت اور بقا کے لئے ہمیں بہت کچھ برداشت کرنا پڑے گا۔

اسلام ٹائمز: شیعہ نسل کشی کے خلاف غیر موثر نوعیت کے الگ الگ احتجاج منعقد ہو رہے ہیں، ان کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
علامہ سید افتخار حسین نقوی: الگ الگ احتجاج میں کوئی حرج نہیں ہے، اپنے تنظیمی تشخص کو برقرار رکھیں، لیکن ایک دوسرے کے خلاف منفی پروپیگنڈا نہ کیا جائے۔ اگر میں کسی عالم کے خلاف کوئی بات کر رہا ہوں تو گویا میں اپنے متعلق بھی وہی بات کر رہا ہوں۔ ایک جوان، ایک تنظیم ایک گروپ اگر دوسری تنظیم کے نقائص بیان کرتا ہے تو گویا وہ اپنے نقائص بیان کر رہا ہے، کیونکہ کوئی بھی نقائص سے پاک نہیں ہے، اتنا بڑا ملک ہے تین کروڑ سے پانچ کروڑ شیعہ ہو گئے ہیں تو فقط ایک جماعت کہے کہ کسی اور کو حق حاصل نہیں ہے تو یہ غلط ہو گا۔
 
اسلام ٹائمز: کثیر تعداد میں ہونے کے باوجود ملت تشیع کی شنوائی نہیں ہے، گاجر مولی کی طرح کاٹا جا رہا ہے، کیا وجوہات ہیں۔؟ 
علامہ سید افتخار حسین نقوی: کراچی میں جو لوگ مولی گاجر کی طرح کٹ رہے ہیں ان میں سارے شیعہ نہیں ہیں، ان میں تمام پاکستانی شامل ہیں، سرحد میں روزانہ لاشیں گرتی ہیں، جو ہمارے ملک کی بدبختی ہے اور قانون کی بالادستی نہ ہونے کا نتیجہ ہے۔

اسلام ٹائمز: پارلیمان میں شیعہ آواز کا نہ ہونا، پس پردہ کیا محرکات ہیں۔؟
علامہ سید افتخار حسین نقوی: الیکشن میں سیاسی جماعتیں کامیاب ہو کر پارلیمنٹ میں پہنچتی ہیں اور یہ سیاسی جماعتیں مذہب کی بنیاد پر نہیں بنتیں، مذہب کی بنیاد پر وہ لوگ الیکشن لڑ سکتے ہیں جن کی حلقوں میں اتنی تعداد ہو کہ وہ جیت سکیں، جیسے جمعیت علماء اسلام، وہ بھی دیوبندی کے نام پر ووٹ نہیں لیتے بلکہ اسلام کے نام ووٹ حاصل کرتے ہیں، ہمارے ہاں بھی شیعہ پولیٹیکل پارٹی بنائی گئی اور اسی نظرئیے سے بنائی گئی کہ ہم بھی ایک سیاسی پارٹی ہوں گے، رجسٹریشن بھی کروائی گئی، ان کے بعد شہید قائد رہ کی قیادت میں تحریک نفاذ فقہ جعفریہ نے بھی سیاست میں حصہ لیا۔ مختلف پارٹیوں کے ساتھ الحاق بھی کیا گیا، جن میں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ شامل ہیں۔ 

اسی کے نتیجے میں قومی اسمبلی میں شیعہ مخالف بل پاس نہ ہونے دیا گیا، اس موقع پر لیاقت بلوچ نے کھڑے ہو کر شیعہ نمائندگی کی اور شریعت ایکٹ میں شیعہ تحفظات بیان کئے۔ سینیٹ میں ہم گئے یا گلگت بلتستان میں ہم اکثریت سے جیتے۔ ہماری جماعت اگر سیاسی میدان میں تنہا اترے تو ہمارے پاس ایک حلقہ بھی نہیں ہے جہاں مذہب کی بنیاد پر الیکشن لڑا جائے اور مذہب کی بنیاد پر الیکشن پاکستان کے حق میں نہیں ہے۔ پھر سیاسی جماعتوں میں ہم موجود ہیں، شیعہ ووٹر کو چاہیے کہ جس نمائندے کو ووٹ دیں اس سے بات کریں کہ ہم ذبح ہو رہے ہوں جب ہمارا قتل ہو رہا ہو تو ہمارے لئے بات کرنا۔ دراصل شیعہ ووٹر کو بیدار کرنے کی اشد ضرورت ہے، آپ اس کھاتے میں کہاں لگے ہیں کہ ہم سیاسی پارٹی بن جائیں اس سے کوئی تبدیلی نہیں آئے گی الٹا نقصان ہو گا۔

اسلام ٹائمز: کیا شیعہ ووٹ بینک کو یکجا کرنے کے لئے مشترکہ پلیٹ فارم کا قیام ممکن ہے۔؟
علامہ سید افتخار حسین نقوی: پاکستان کے موجودہ سیاسی ڈھانچے میں یہ ممکن نہیں ہے، چونکہ میں سینیٹ اور قومی اسمبلی کے الیکشن لڑ چکا ہوں اور اب رفاعی کام سرانجام دے رہا ہوں۔ پاکستان میں مذہب کے نام پر الیکشن لڑنا ٹھیک نہیں ہے۔ یہ ہر کسی کی خواہش ہے، قائد ملت جعفریہ دیوبندیوں کے ساتھ بیٹھتے ہیں تو وہ ایک شیعہ گروپ کے ساتھ کیوں نہیں ملیں گے یا وحدت مسلمین کے نام سے ایک جماعت اپنا تشخص بنا رہی ہے، مسلمین کی وحدت کا نعرہ لگا رہی ہے، خالی نعروں سے تو کچھ نہیں ہو گا، اور وہ کیوں نہیں چاہیں گے۔ اس کا عملی مظاہر ہ علماء کانفرنس میں ہوا ہے، جس میں مختلف الخیال شیعہ علماء جمع تھے۔ 

اس وحدت کو بزرگ علماء اور نوجوان خون مل کر عملی جامہ پہنائیں اور اس معاملے میں نوجوان علماء شہید قائد سے درس لیں اور پہل کریں، شہید قائد نے ہمیشہ وحدت تشیع کے لئے پہل کی اور بغیر کسی شرط و شروط کے اپنے مدمقابل کے ساتھ وحدت کی کوشش میں لگے رہے۔ کیا ہم نے اتحاد میں رکاوٹ بننے والی چیزوں کو ختم کیا ہے؟ اصل طاقت آئی ایس او ہے جس کے سر پر ہمارے نوجوان علماء ایک جماعت کھڑی کر رہے ہیں، لیکن انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ گروہ ایک محدود گروپ ہے، پورے ملک کا نمائندہ نہیں ہے، اگر آپ یہ سمجھیں کہ سارے شیعہ آپ کے پیچھے چلے گئے ہیں اور سارے علماء بھی آپ کے ساتھ ہیں تو یہ خام خیالی ہو گی۔ اس کے لئے ایک بڑا قد کاٹھ اور شہید کا حوصلہ اور سوچ درکار، ہماری دعا ہے، اس میں مجلس وحدت مسلمین کامیاب ہو۔

اسلام ٹائمز: کیا گلگت اور چلاس کے واقعات کسی عالمی سازش کا حصہ ہیں۔؟
علامہ: گلگت اور چلاس کے واقعات کو سطحی انداز سے نہیں دیکھنا چاہیے، پاکستان میں وقوع پذیر ہونے والے دوسرے واقعات سے جدا بھی نہیں کرنا چاہیے، یہ شیعہ کشی کے واقعات اس کا حصہ ہیں، ہمیں ادراک ہونا چاہیے کہ اس وقت پاکستان کو ختم کرنے کی منصوبہ بندی ہو، قتل چاہے ہزارہ قبیلے کا ہو، آئی ایس آئی والوں کا ہو یا سوات میں بے گناہ افراد کا ہو، ان تمام کے پیچھے ایک ہی دشمن کارفرما ہے، جو پاکستان کو ختم کرنا چاہتا ہے۔


اسلام ٹائمز: رہبر معظم سید علی خامنہ ای کس وحدت کی بات کرتے ہیں۔؟ کیا وہ ہمارے پیش نظر ہے۔؟
علامہ سید افتخار حسین نقوی: وہ تو پوری امت کی وحدت کی بات کرتے ہیں، افتراق سے بچنا چاہیے، پاکستان میں بھی وہ چاہتے ہیں کہ سارے مسلمان متحد ہوں اور فروعی اختلاف سے اجتناب برتیں، اہل سنت کے تمام مقدسات کا احترام واجب ہے، ازواج پیعمبر کی توہین حرام ہے، ہر وہ عمل جس سے مسلمانوں کے درمیان افتراق پھیلے شرعاً حرام ہے۔ ہم ویسے تو کہتے ہیں کہ ولی فقیہہ کو مانتے ہیں اور ان کی اطاعت میں ہیں، لیکن سیاسی عمل میں جب علامہ ساجد نقوی حفط اللہ کے پاس رہبر معظم کی نمائندگی ہے تو ہم اس کی تحویلیں کرتے ہیں۔
 
اس کی توجیہات کرتے ہیں ایسی توجیہات کہ جس کا خود رہبر کو بھی پتہ نہیں ہے، اس طرح ہم رہبر کی دیانت پر حملہ کر رہے ہوتے ہیں۔ یعنی اگر کوئی کہے کہ رہبر کسی کے دباؤ میں ہے، یا رہبر کو حقائق کا پتہ نہیں ہے، یا رہبر کو علامہ ساجد نقوی کی کمزوریوں کا پتہ نہیں ہے۔ یہ تو آقای خامنہ ای کی دیانت و بصیرت پر حملہ ہے۔ یہ سوچنا چاہیے ہمارے بعض عزیزوں کو کہ ایسا مت کہیں، جوان کام کریں، انہی جوانوں نے کام کرنا ہے، لیکن جوان اپنے حال پر رحم اور قوم کے حال پر رحم کریں، کام کریں زبان سے نہیں عملاً، یہاں زبان سے بہت کچھ ہو رہا ہے اور منفی باتوں کو زیر خاک کریں ان کو مت اچھالیں۔

اسلام ٹائمز: ایم ڈبلیو ایم ایک قومی اجتماع منعقد کروا رہی ہے، کیا آپ شرکت کریں گے۔؟
علامہ سید افتخار حسین نقوی: اس وقت دیکھیں گے کہ علماء کی کیا رائے ہے، کیونکہ جو اس کو بلا رہے ہیں کس مقصد کے لئے بلا رہے ہیں، وہ اہداف کیا ہیں، آیا اس کے وقت کا تعین ٹھیک ہے، اگر مجلس وحدت مسلمین علماء کے پاس دعوت لائے گی تو علماء شرکت کریں گے۔ اگر صرف جماعتی کنونشن ہے تو وہ آئی ایس اور آئی او ہر سال کرتی رہتی ہیں تو یہ بھی انہی کا ایک کنونش ہو گا۔ میں مجلس وحدت مسلمین کو آئی ایس او کا ایک دوسرا نام سمجھتا ہوں، ہمارے وہ بچے جو کالجوں میں نہیں ہیں یا ملازمتیں کر رہے ہیں یا مولانا بن گئے ہیں وہ اس میں ہیں۔ ماشاءاللہ وہ سارے اکٹھے ہوں تو پچاس ہزار اکٹھے ہو جائیں گے، لیکن انہیں سمجھنا چاہیے کہ ساری قوم وہ نہیں ہیں، یہ پانچ کروڑ شیعوں کی بات ہے، شیعہ سیاسی جماعتوں میں ہیں اور رہیں گے، تنظیمیں بھی اسی طرح ہیں اور رہیں گی۔ لہذا اپنے اہداف مشخص کریں، لیکن ایک دوسرے کی نفی نہ کریں۔

اسلام ٹائمز: کیا قیادت کی تبدیلی متوقع ہو سکتی ہے یا ایسی کوئی شخصیت سامنے آئے جسے پر تمام دھڑے متفق ہو سکیں؟
علامہ سید افتخار حسین نقوی: دیکھیں، علامہ صاحب کی جماعت پر پابندی ہے، نہ تو جماعتی کنونش ہو سکتا ہے نہ کارکنان کی تربیت ہو سکتی ہے، نہ کوئی عہدیدار بن سکتا ہے، کیونکہ اگلے دن فورتھ شیڈول میں گرفتار ہو جاتا ہے، یہ تو علامہ صاحب کی عقلمندی اور بصیرت تھی کہ انہوں نے شیعہ علماء کونسل کا نام دے کر تھوڑا بہت کام شروع کر رکھا ہے۔ اب یہ مسئلہ کہ وہ ہٹ جائیں اور کوئی دوسرا آجائے تو یہ عنوان اور یہ سلسلے ایک دو دنوں میں نہیں بنتے۔ علامہ ساجد نقوی اگر علامہ ساجد نقوی بنے ہیں تو اس کے پیچھے کئی سالوں کی جدوجہد ہے، ایسا نہیں ہے کہ علامہ ساجد نقوی کی جگہ کسی کو بٹھا دیں تو وہ قوم کے لئے وہ کچھ کر سکے گا جو قوم کے لئے وہ کر رہے ہیں۔
 
علامہ ساجد نقوی کو اگر ہٹانا ہے تو انہی بزرگ علماء نے ہٹانا ہے اور بزرگ علماء تو انہیں مضبوط کر رہے ہیں اور دوسروں کو بھی مان لینا چاہیے۔ چھوٹے علماء کو چاہیے کہ اگر دل نہیں مان رہا تو تعبداً ہی اس بات کو مان لیں، کیونکہ یہ حکم رہبر معظم ہے۔ ہم مایوس نہیں ہیں، آپ میرے ساتھ سندھ چلیں، ایک دفعہ میں کسی دیہات میں فاتحہ خوانی کے لئے بیٹھا تھا، وہاں ایک صاحب بولے کراچی میں ماشاءاللہ قائد صاحب نے بہت بڑا کام کر دیا ہے۔ میں نے کہا وہ کیا؟ بولے ناصر صاحب کو کراچی بھیجا، جنہوں نے بہت بڑا جلسہ کیا ہے۔ میں سن کے خاموش ہو گیا۔ لیکن عام آدمی ہمیں یکجا دیکھتا ہے۔ یہ چھوٹے چھوٹے گروپ ایک دوسرے کی طاقت بن جائیں۔
 
بڑے قومی کنونشن کی اس وقت ضرورت نہیں ہے، وہ ہمارے خلاف جائے گا۔ دنیا کی طاقتور ایجنسیاں موساد، راء اور سی آئی اے پاکستان کو ختم کرنے کے درپے ہیں، لیکن ہمیں خون دے کر بھی پاکستان کو بچانا ہے، اس موقع پر ہمیں عراق کی مثال کو اپنے سامنے رکھنا ہو گا کہ کس طرح عراق میں سنی شیعہ فسادات سے اجتناب برتا گیا اور وحدت کے لئے مرجعیت کا کردار اہم ہے۔ ہمیں افسوس ہے کہ جماعت اسلامی ان لوگوں کے ساتھ جا بیٹھی ہے جو آئے روز خودکش حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ 

یہ پاکستان کے قانون کی کمزوری ہے۔ اس کونسل کے بیانات اقوام متحدہ کی فورسز کو پاکستان میں بلانے کا ایک پلان ہے۔ چین اور ایران پاکستان کے دو دوست ہیں، انہی دو ممالک کے سرحدی علاقوں میں فسادات کئے گئے، تاکہ ان ممالک کے ساتھ تعلقات کو متاثر کیا جا سکے۔ گلگت اور بلتستان کے علماء نے حالیہ فسادات کے دوران انتہائی عقل و دانش کا ثبوت دیا اور عوام نے بھی انہی کے تابع رہ کر معاملات کو سلجھایا۔
خبر کا کوڈ : 162704
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
mashallah allah tofiqat mein izafa farmae ameen
ہماری پیشکش