0
Wednesday 16 May 2012 23:19

امریکہ اور اسرائیل کیخلاف لڑنے کیلئے پاکستان میں سیز فائر کرنا ہو گا، علامہ شفقت شیرازی

امریکہ اور اسرائیل کیخلاف لڑنے کیلئے پاکستان میں سیز فائر کرنا ہو گا، علامہ شفقت شیرازی
علامہ سید شفقت شیرازی کا تعلق سرگودہا سے ہے، بائیس سال کی عمر میں بی کام کرنے کے بعد دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے بیرون ملک روانہ ہوئے۔ زمانہ طالبعلمی میں امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان میں فعال رہے اور ڈویژنل صدر کے فرائض سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے شانہ بشانہ میدان عمل میں مصروف رہے۔ آج کل دمشق میں ایک حوزہ علمیہ کے سرپرست کے طور پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ آپ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سرگرم رہنما اور سیکرٹری خارجہ امور ہیں۔ اسلام ٹائمز نے قومیات کے موضوع پر دمشق میں علامہ صاحب سے گفتگو کی ہے، جو اسلام ٹائمز کے قارئین کے لئے پیش خدمت ہے۔ 

اسلام ٹائمز: عملی زندگی میں کیسے آنا ہوا۔؟
علامہ شفقت شیرازی: زمانہ طالبعلمی میں آئی ایس او میں فعالیت تھی، اس کے بعد تحریک سے وابستہ رہا، یہ وہم و گمان میں نہ تھا کہ مولوی بننا ہے۔ شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی کا آخری دورہ دمشق اور لبنان کا تھا۔ یہاں سے قائد واپس گئے تو انہوں نے دوستوں کے ساتھ مشورہ کیا کہ کچھ لوگوں کو شام روانہ کیا جائے، تو قرعہ میرے نام نکلا۔ جس دن قائد شہید ہوئے میں اس دن پاکستان سے دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے روانہ ہوا۔ اس وقت بی کام کرکے فارغ ہوا تھا اور ایک سروس جوائن کی تھی، اس سروس کو Resign کئے بغیر ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کے حکم پر روانہ ہوا۔

اسلام ٹائمز: تنظیمی سیٹ اپ سے حوزہ علمیہ کی طرف آنے والے طلاب میں زیادہ جذبہ ہوتا ہے، مثلاً علامہ حسنین گردیزی کو دیکھ لیں ان کی فعالیت مثالی ہے، اس کی کیا وجہ ہے۔؟
علامہ شفقت شیرازی: یہ ہمارا جو سیشن تھا تقریباً ایک ہی تھا، حسنین بھائی ہمارے زمانے میں آئی ایس او کے ڈویژنل صدر تھے اور بعد میں مرکز میں گئے، ان سے پہلے تصور نقوی تھے، پھر راشد عباس نقوی آئے۔ امتیاز رضوی سے لیکر اقرار شاہ جی اور راشد عباس تک یہ شہید قائد کی قیادت کا دور تھا اور یہی عرصہ ہمارا تنظیمی عرصہ تھا۔ ہم 1982۔83 میں آئی ایس او میں آئے تھے اور قائد شہید عارف حسین الحسینی نے 1984ء میں قیادت کی باگ ڈور سنبھالی۔ 1986ء میں آئی ایس او کی سرگرمیوں سے فراغت ملی اور 1987ء میں میرے پاس تنظیم کی ذمہ داری تھی۔ 

کامرس کالج میں ہم نے یونٹ کا آغاز کیا اور بعد ازاں ڈویژن تک کی مسؤلیت سنبھالی۔ اس زمانے میں کوئی تقسیم نہیں تھی اور ڈاکٹر شہید جو حزب اللہ والی سوچ رکھتے تھے ہمارے استاد تھے اور اکثر ان کے ساتھ نشست ہوتی تھی۔ اس زمانے کی منظم ترین جماعت جمعیت بھی آئی ایس او کا مقابلہ نہیں کر پاتی تھی۔ اس زمانے میں جب سپاہ صحابہ کی بنیاد ڈالی جا رہی تھی اور جھنگوی کو لایا جا رہا تھا، اعظم طارق معروف نہیں تھا، وہ کراچی میں بیٹھا ہوا تھا، ہمارے دوستوں کی نظریں اس وقت ان سب پر تھیں، پاکستان کا سیاسی سسٹم ہمارے موافقت میں نہیں تھا اور پاکستان کی روحانی لیڈرشپ کے اندر اتنی لمبی چوڑی آگاہی نہیں تھی۔ 

کسی بھی اسلامی تحریک میں نوجوان قیادت نہیں کر سکتے، قیادت علماء نے کرنی ہوتی ہے، اس وقت قائد شہید کے پاس ٹیم نہیں تھی، اس وقت ان کے دو اہم ساتھی تھے علامہ سید جواد ہادی اور علامہ افتخار نقوی۔ علامہ افتخار نقوی انقلابی فکر رکھتے تھے اور انہوں نے نوجوانوں کے اندر شہید مطہری کے افکار کو عام کیا، انقلابی نوجوان انہیں پسند کرتے تھے، لیکن مولویوں کے Caliber کے لحاظ سے انکا قد بہت چھوٹا تھا، اسلام آباد کی پیش نمازی سے مجمع امام خمینی تک ہم نے ان کی زندگی کو بغور دیکھا۔ لیکن قحط الرجال کا دور دورہ تھا۔
 
علامہ محی الدین کاظم اتنی بڑی شخصیت نہیں تھی، لیکن کافی مقام بنا گئے تھے، کہنے کا مطلب یہ ہے کہ روحانیت نے پاکستان کے اندر کوئی خاص رول ادا نہیں کیا، آج جس طرح سو ڈیڑھ سو انقلابی مولوی مل جاتے ہیں، یہ اگر اس وقت ہوتے تو پاکستان اس وقت حزب اللہ سے آگے ہوتا، اس وقت لبنانی عوام اختلافات کا شکار تھی، امام موسی الصدر کو غائب کر دیا گیا تھا، حرکت العمل بےدین لوگوں کے کنٹرول میں جا چکی تھی، شہید عباس موسوی اور شہید راغب حرب قربانی دے چکے تھے، ان حالات میں سید مقاومت سید حسن نصراللہ نے حزب اللہ کی قیادت کا بیڑہ اٹھایا۔

اسلام ٹائمز: مجلس وحدت مسلمین کو حزب اللہ بنتا ہوا کب دیکھ رہے ہیں۔؟
علامہ شفقت شیرازی: دیکھیں مجلس کے دستور کا اگر مطالعہ کریں تو اندازہ ہو جائے گا کہ جو خطوط معین کئے گئے ہیں وہ سب حزب اللہی ہیں، مثلاً دستور کے اندر ولایت فقیہ کا ذکر کرنا وغیرہ۔ مجلس وحدت مسلمین شہید قائد کے کام کو ہی لیکر آگے چل رہی ہے۔ اس لئے لوگ خود جذب ہوتے چلے جا رہے ہیں، آپ نے دیکھا کہ ہمارا مرکزی دفتر ایک گھر سے دوسرے گھر میں منتقل ہو رہا تھا کہ اسی دوران پاکستان کے مختلف شہروں میں مجلس کے دفتر خود بخود ہی بن گئے، جہاں بھی حزب اللہ کی فکر رکھنے والے لوگ تھے، وہ خود ہی جذب ہوتے چلے گئے اور کاروان بڑھتا گیا۔ مجلس میں کام کرنے والے لوگ تجربہ کار ہیں، یہ الگ بات ہے کہ لوگ انہیں بچے کہیں۔

اسلام ٹائمز: علامہ ساجد علی نقوی صاحب کو کب جذب کر رہے ہیں۔؟
علا مہ شفقت شیرازی: دیکھیں کاروان کے اندر اگر جاذبیت ہو گی، اس کے اندر خوبیاں ہونگی اور ایسی چیزیں ہونگی، جس سے لوگ اسے اپنے لئے خطرہ اور شخصی انانیت نہیں سمجھیں گے، ہمارے کام کو دیکھ کر لوگ خاموش ہو جائیں گے یا ہمارے ساتھ شامل ہو جائیں گے، بہت سے لوگ شامل نہیں ہو سکیں گے، لیکن آپ کے سامنے آنے کی ان میں ہمت نہیں ہو گی، کیونکہ عوام انہیں معاف نہیں کرے گی۔ عوامی حمایت اور عوامی طاقت کی وجہ سے آپ بڑے بڑے لیڈروں کو خاموش کروا سکتے ہیں۔ 

ان لوگوں نے اپنے کردار سے اپنا لوہا منوایا ہے، آپ حسنین گردیزی کو دیکھیں، جو بندہ 1985ء میں آئی ایس او کا مرکزی صدر تھا اور اب تک قومیات میں موجود ہے، اسی طرح باقی لوگ بھی تجربہ کار ہیں، اسی طرح ہمارے ساتھ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے قم میں شہید قائد کا اس وقت ساتھ دیا جب شہید قائد کا ساتھ دینا جرم شمار ہوتا تھا۔ مولوی صاحبان انہیں قائد ماننے کے لئے تیار نہ تھے، بعد میں وہ اس حوالے سے لائے تھے کہ ہم جس طرح چاہیں گے اسے استعمال کریں گے اور بادشاہی کریں گے۔ چونکہ انہیں اردو زبان تک نہیں آتی تھی۔ لیکن ان کی توقعات کے بالکل برعکس ہوا۔

اسلام ٹائمز: علامہ شہنشاہ نقوی نے کہا تھا کہ علامہ ناصر عباس جعفری ایسی شخصیت ہیں جن کے ساتھ علامہ ساجد نقوی بیٹھ سکتے ہیں، اس سلسلے میں ایم ڈبلیو ایم کا کیا موقف ہے۔؟
علامہ شفقت شیرازی: جس نے امریکہ اور اسرائیل سے جنگ لڑنی ہے اس نے پاکستان کے اندر سیز فائر کرنا ہے، بین المسلمین اور بین المومنین کسی بھی ایشو پر اس نے جنگ نہیں لڑنی۔ جب سے ہم نے کام شروع کیا ہے ہم پر اندر سے ہر روز فائرنگ ہو رہی ہے، ہم پاکستان میں بیٹھے ہوتے ہیں تو ہمیں کہا جاتا ہے کہ ایرانیوں کے ایجنٹ ہیں اور پاکستانی حکومت کو یہ بات باور کروائی جاتی ہے کہ یہ ایران کے لئے کام کر رہے ہیں، یعنی وہ پاکستانی ہیں اور ہم ایرانی ایجنٹ۔ نمائندہ ولی فقیہ علامہ ساجد نقوی کا ایران کے ساتھ کوئی تعلق ہے، نہ رہا ہے۔ جب ہم ایران جاتے ہیں تو وہاں یہ خبر سنتے ہیں کہ ان کو پاکستان کی ایجنسیاں چلا رہی ہیں۔
 
دوسری طرف یہ کہتے تھے کہ حکومت ایران کو یہ لوگ مطلوب ہیں اور ان کے خلاف علماء و فقہا فتویٰ دے چکے ہیں۔ حال ہی میں سندھ سے علامہ شہنشاہ نقوی کا انٹرویو چھپا، اس میں اس انداز میں ہمارے دوستوں کو تعارف کروایا گیا کہ یہ لوگ علامہ ساجد نقوی کے سامنے بچے ہیں۔ انہوں نے اس انٹرویو کو پوری دنیا میں پھیلایا۔ یہاں دمشق میں چہلم کے موقع پر مومنین و زائرین کے درمیان اس انٹرویو کی سی ڈی بنا کر تقسیم کی گئی۔ ہم یہاں طاقت میں ہیں، لیکن ہم نے ری ایکشن نہیں کیا۔ آج کل موسوی گروپ بھی ہمارے خلاف متحرک ہے جو پہلے بالکل خاموش تھے، اب از سرنو ان کو چھیڑ دیا گیا ہے۔
 
اسلام ٹائمز: کیا آپ اتفاق کرتے ہیں کہ آپ کے میدان میں آنے سے تمام لوگوں میں تحرک پیدا ہوا ہے۔؟ علامہ شفقت شیرازی: بالکل، ہم کہتے ہیں کہ پاکستان ایک بہت بڑا ملک ہے، ہم جیسی دس تنظیمیں بھی کام کریں تو وہاں کام کرنے کی گنجائش موجود ہے۔

اسلام ٹائمز: وہ تو کہتے ہیں کہ ان کی ڈائریکٹ ڈائلنگ ہے رہبر معظم و  سید حسن نصراللہ سے، آپ اس بارے کیا کہیں گے۔؟
علامہ شفقت شیرازی: ان کے مرکزی لوگوں سے ہماری دوستیاں ہیں، میں سریا و لبنان میں تحریک کی نمائندگی کرتا رہا ہوں، سید محمد دہلوی سے لیکر آج تک قومیات میں جتنا کام ہوا ہے اسے ہم جانتے ہیں، لیکن دوستوں کے اندر برداشت اور وسعت قلبی ہے، حالانکہ یہ صفت بزرگوں کے اندر ہوتی ہے، میں آپکو ایک مثال دوں، کچھ عرصہ پہلے مجمع جہانی اہلبیت ع کا پروگرام تہران میں ہوا، اس پروگرام میں علامہ ناصر عباس جعفری، علامہ امین شہیدی، علامہ مبارک اور میں بھی موجود تھا۔ مجلس وحدت مسلمین کے وفد کے علاوہ آئی او کا چیئرمین آیا ہوا تھا۔ علامہ ساجد نقوی صاحب، علامہ افتخار نقوی صاحب، علامہ تقی شاہ صاحب، علامہ غفاری صاحب اور انکی پوری ٹیم آئی ہوئی تھی۔ تشیع کا یہ اجتماع ہر چار سال بعد ہوتا ہے، مجمع جہانی اہلبیت ع کے زیراہتمام تہران میں ہوتا ہے، جس میں 116 ممالک کی نمائندگی موجود تھی۔ یہ ایک اچھا موقع تھا کہ تشیع پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے دنیا تک حقائق پہنچائے جائیں۔
 
علامہ ساجد نقوی مجمع جہانی اہلبیت کی مرکزی شوریٰ کے ممبر ہیں اور مجلس وحدت مسلمین کا وفد محض ایک مبصر کے طور پر شرکت کر رہا تھا۔ ہم نے ایک رائے دی، علامہ ناصر عباس جعفری نے بھی علامہ سلمان نقوی سے کہا کہ آقا صاحب آپ ہمارے بھی دوست ہیں ان کے بھی دوست ہیں۔ آپ ان بزرگوں سے جا کر کہیں کہ ہم آپ کے ساتھ بیٹھنے کیلئے تیار ہیں، آئیں مل کر بیٹھیں اور کچھ مشترکہ نکات پر اتفاق کر لیں، اس کے بعد علامہ ساجد نقوی تقریر کر لیں، علامہ افتخار نقوی یا علامہ تقی نقوی تقریر کریں، ہمیں اس سے غرض نہیں ہے۔ لیکن وہاں تشیع پاکستان کی مظلومیت اور اہم مسائل دنیا جہاں کے تشیع تک ہم اچھے انداز میں پہنچا سکیں، ہمیں ایک دن کے بعد یہ جواب ملا کہ آقا صاحب آپ بہت وسعت قلبی کا مظاہرہ کرتے ہیں، لیکن طرف مقابل کے اندر اتنی برداشت نہیں ہے۔
 
انہوں نے اس تجویز کو مسترد کر دیا اور صاف انکار کر دیا۔ لیکن مجلس وحدت مسلمین اب بھی انکے ساتھ بیٹھنے کے لئے تیار ہے۔ پاکستان کے اندر تشیع کی نمائندگی سیاسی لحاظ سے پاکستان پیپلز پارٹی کیا کرتی تھی، مذہبی سیاست کا رجحان نہیں تھا۔ جب مذہبی سیاست کا رجحان پیدا ہوا تو پنجاب میں یہ کام دو خاندانوں کے پاس تھا، جن کو ہماری اصطلاح میں یار شاہی اور گلاب شاہی کہتے ہیں، علامہ قبلہ یار شاہ کی اولاد میں علامہ حافظ ریاض حسین، علامہ قاضی نیاز حسین، علامہ حافظ سبطین اور علامہ حافظ ثقلین وغیرہ اس میں آتے ہیں۔ دوسری سائیڈ پر علامہ ساجد نقوی، علامہ سید تقی نقوی اور دیگر علماء کرام آتے ہیں۔ پھر علامہ شیخ محسن صاحب نے آکر تیسرا دھڑا شروع کیا، جنہوں نے پنجاب کے اندر اپنے مدارس بنائے۔ یہ لوگ اپنے آپ کو شیعہ قوم کا وارث سمجھتے ہیں۔
 
ان لوگوں میں ایک روش ہے کہ جس کو عالم کہیں وہ عالم ہوتا ہے، جسکو جاہل کہیں وہ جاہل ہوتا ہے۔ دوسرا ان کی عمریں 35 سال ہوں تو بزرگ علماء ہوتے ہیں۔ اب مثلاً میری عمر 48 سال ہے جب سے آنکھ کھولی ہے ان کے ساتھ بزرگ علماء کی اصطلاح سنی ہے۔ اپنے گھر کی اصطلاحیں ہیں، جس کو دیں۔ لیکن ادھر سفید ریش بھی ہیں، نانے اور دادے بن چکے ہیں، یہ نوجوان اور بچے ہیں۔ یہ اصطلاح عموماً استعمال ہوتی ہے۔ تحریک تحفظ تعلیمات آل محمد ص ایک زمانے میں تھی، جو تحریک تحفظ تعلیمات آل محمد ص کم لیکن علامہ محمد حسین ڈھکو صاحب کی تحریک زیادہ تھی، یعنی ان کا کام تھا کہ علامہ ڈھکو صاحب جو کتابیں لکھتے تھے، وہ ان کا دفاع کرتے تھے۔
 
اسی دوران انقلاب اسلامی ایران آتا ہے۔ اب ایک گروہ انقلاب کی حمایت کرتا ہے ایک گروہ مخالفت کرتا ہے۔ شہید حسینی کی قیادت میں یہ مسائل ختم ہو چکے تھے، شہید نے آ کر وحدت کی بات کی، لیکن دینی مدارس کے رویّے کے باعث شہید قائد کو کئی بار استعفٰی دینا پڑا اور انہیں کہنا پڑا کہ میں افغانستان میں جا کر شہید ہو جاؤں گا۔ کبھی وہ نعرہ لگاتے کہ ہم نمائندہ ولی فقیہ کو نہیں ولی فقیہ کو بدلیں گے، یہ نعرے صوبائی جعفریہ کونسل سندھ کے اجلاس میں لگائے گئے۔ اس طرح شہید پاکستان میں بالکل ہی اجنبی ہو گئے اور فکر امام رہ کو بھلا دیا گیا، بعض رہبر معظم کی مرجعیت ماننے کو تیار نہ تھے۔

اسلام ٹائمز: ایران پاکستان کے حالات پر گہری نظر رکھتا ہے، پھر کس وجہ سے علامہ ساجد نقوی کو قائد ملت جعفریہ کی حیثیت سے پروٹوکول جاری رکھے ہوئے ہے۔؟
علامہ شفقت شیرازی: ولایت کا مقام پدری مقام ہے۔ جو پدر ہوتا ہے اس کے لئے سب اولادیں ایک جیسی ہوتی ہیں، جس نے امریکہ و اسرائیل سے جنگ لڑنی ہے اس نے اپنے عناصر میں سے کسی ایک کو بھی ضائع نہیں کرنا۔ رہبر معظم کا موقف کچھ اور ہے اور ہمارا موقف کچھ اور۔ ہمیں دیکھنا یہ چاہیئے کہ عکس رہبر کس میں نظر آ رہا ہے، کون ہمیں رہبر تک پہنچا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں آقای بہاؤ الدینی بیس سال سے اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور مرجعیت نیابت عامہ ہے۔ 

اسلام ٹائمز: جیسا کہ آپکا شعبہ خارجہ امور کا ہے، کیا اس سلسلے میں دنیا کی دیگر اسلامی تحریکوں سے آپ نے تعلقات استوار کئے ہیں۔؟
علامہ شفقت شیرازی: ایم ڈبلیو ایم کے خارجہ امور کے سلسلے میں دمشق، مشہد اور قم کے اندر ہم نے دفاتر قائم کئے ہیں۔ اسے ہماری کوتاہی سمجھ لیں کہ اسلامی تحریکوں سے اس وقت ہمارے روابط نہیں ہیں۔ اسی سلسلے میں ہم نے آیت اللہ مجتبٰی حسینی نمائندہ رہبر معظم سوریہ کا چھ روزہ دورہ پاکستان کروایا تھا اور بیداری اسلامی کی کانفرنس منعقد کی گئی۔

اسلام ٹائمز: دمشق کو کس بات کی سزا دی جا رہی ہے۔؟
علامہ شفقت شیرازی: مقاومت اور انتفاضہ کی تحریکوں کا ساتھ دینے کی سزا دمشق کو دی جا رہی ہے، حماس کے مختلف رہنماؤں کو دمشق میں شہید کیا گیا۔ شام کے اندر اسرائیل کو شکست ہوئی ہے، اسرائیل نے شام کے حالات کو خراب کرنے کے لئے اسلحہ یہاں بھجوایا ہے۔ یہاں قوم بیدار ہے، ہر جمعے کو حکومت کی حمایت میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔ یہاں صیہونیت کو بہت بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔
خبر کا کوڈ : 162006
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش