0
Friday 25 May 2012 04:12

اسلامی بیداری کی حالیہ لہر امام خمینی کی مرہون منت ہے، اسد اللہ بھٹو

اسلامی بیداری کی حالیہ لہر امام خمینی کی مرہون منت ہے، اسد اللہ بھٹو

سکھر میں پیدا ہونے والے اسداللہ بھٹو امیر جماعت اسلامی سندھ ہیں۔ آپ بیس سال پہلے کراچی منتقل ہوچکے ہیں۔ آپ پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں اور مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کے افکار سے متاثر ہو کر 70 کی دہائی میں جماعت اسلامی میں شامل ہوئے۔ آپ کا کبھی بھی طلباء کی سیاست سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ آپ جماعت اسلامی میں سکھر ڈویژن کے امیر، سندھ کے نائب امیر کے علاوہ جماعت اسلامی کے مرکزی نائب امیر بھی رہ چکے ہیں۔ آپ جماعت اسلامی کی مرکزی شوریٰ کے سن 1980ء سے ممبر ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ متحدہ مجلس عمل سندھ کے بھی صدر ہیں۔ اسد اللہ بھٹو صاحب کراچی کے حلقہ این اے 253 سے قومی اسمبلی کے ممبر بھی رہ چکے ہیں۔ آپ سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں، اسلام ٹائمز نے اسد اللہ بھٹو سے ایک خصوصی انٹرویو کیا ہے کہ جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔

اسلام ٹائمز: حال ہی میں ملی یکجہتی کونسل بحال کی گئی ہے، اس کی بحالی کی ضرورت کیوں پیش آئی اور آپ سمجھتے ہیں کہ یہ اپنے مطلوبہ مقاصد حاصل کر پائے گی۔؟
مولانا اسداللہ بھٹو: ملی یکجہتی کونسل کی بحالی کی ضرورت اس لئے پیش آئی ہے کہ ایک اتحاد کی ضرورت تھی کہ جو یہاں کے مسائل ہیں ان پر جسم واحد بن کر اپنا کردار ادا کرسکے اور اس وقت وحدت اور یکجہتی ملک کی سب سے بڑی ضرورت ہے، کیونکہ بھارتی خفیہ ایجنسی را، اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد، امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے اور نیٹو اتحاد میں شامل ممالک کی خفیہ ایجنسیاں اس ملک میں فسادات کرانا چاہتی ہیں۔ ان فسادات کی متعدد شکلوں میں سے ایک شکل مذہبی فساد ہے اور اس مذہبی فساد میں امریکی مفاد اس لئے ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ ملک میں شیعہ سنی فساد ہو جائے، بریلوی دیوبندی فساد ہو جائے اور وہ ہمارے پڑوسی اسلامی ملک ایران پر حملہ کر دے اور یہاں پاکستان سے کسی قسم کی مزاحمت نہ ہو۔ اس لئے ایک مذہبی اتحاد کی ضرورت ہے، جو اس کا مقابلہ کر سکے۔

یہاں ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ لوگ اسلامی نظام کے لئے سوال پوچھتے ہیں کہ ہم کون سا اسلامی نظام لائیں؟ شیعوں والا، بریلویوں والا، دیوبندیوں والا یا اہلحدیث والا؟ یہاں جو بے دینی اور مغربی تہذیب کی یلغار ہے اور یہاں جو افراد ان کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں ان کا راستہ روکنے کے لئے دینی جماعتیں مل کر کوئی راستہ اختیار کریں۔ یہ ریاست اسلامی ریاست ہے اور یہ ملک خالصتاً اسلام کے لئے بنا تھا۔ یہ صرف ہم مسلمان نہیں کہتے، بلکہ خود ہندو کراچی سے، حیدرآباد سے، سکھر سے، نوابشاہ سے، پشاور سے، لاہور سے، غرض یہ کہ ملک کے ہر کونے سے حتٰی کہ دیہاتوں سے بھی نکل کر بھارت چلے گئے، حالانکہ وہ خوشحال تھے۔ ان کی زمینیں تھیں، بنگلے تھے، کاروبار تھے، اب بھی شہروں مین بہترین بلڈنگز بنیوں کی بنی ہوئی ہیں، لیکن وہ اس لئے چلے گئے کہ یہ مسلمانوں کا ملک ہے، اس سے ان کا کہا واسطہ؟ ایک بنیادی تصور ہے کہ یہ ملک اسلام کے لئے بنا تھا اور اس کو اسلامی ریاست بنانا ہمارا فرض ہے، کیونکہ اللہ رب العالمین نے قوانین دئیے ہیں اور ریاست کے اسلامی ہونے کا بھی حکم دیا ہے۔ اس پس منظر کے ساتھ ملی یکجہتی کونسل کی ضرورت تھی اور الحمدللہ سب نے اس ضرورت کو محسوس کیا ہے اور یہ وجود میں آئی ہے۔

اسلام ٹائمز: ملی یکجہتی کونسل پہلے کن وجوہات کی بنا پر غیر فعال ہوئی تھی اور کیا وہ محرکات دوبارہ پیدا نہیں ہو سکتے۔؟
اسد اللہ بھٹو: کوئی مشکل آتی ہے تو اس کے مقابلے میں ایک چیز شروع کر دی جاتی ہے، پھر حالات کی تبدیلی کے ساتھ دوسری چیزیں شروع ہو جاتی ہیں۔ اس وقت حالات کچھ ایسے تھے کہ امریکہ نے ایک بہت بڑی جنگ مسلط کر دی تھی اور نائن الیون کے بعد حالات جنگ کی طرف چلے گئے تھے، اس لئے وہاں پر دوسری چیزوں کی ضرورت تھی۔ اب ملک میں جمہوری نظام واپس آیا ہے تو اس کو ٹھیک کرنے کے لئے ملی یکجہتی کونسل کی ضرورت تھی، جیسی ضرورتیں ہوتی ہیں ویسا ہی نظام لایا جاتا ہے۔

اسلام ٹائمز: ملی یکجہتی کونسل کی بحالی سے کیا یہ سمجھا جائے کہ اب ایم ایم اے بحال نہیں ہو گی۔؟
اسد اللہ بھٹو: ایم ایم اے ایک سیاسی پلیٹ فارم ہے اور ملی یکجہتی کونسل ایک غیر سیاسی پلیٹ فارم، اس لئے دونوں کا دائرہ کار الگ الگ ہے۔

اسلام ٹائمز: اس کا مطلب ایم ایم اے کی بحالی کے امکانات ابھی بھی موجود ہیں۔؟
اسد اللہ بھٹو: ایم ایم اے کی بحالی کے نہ صرف امکانات موجود ہیں بلکہ قوم بہت جلد اس کی بحالی کی خوشخبری سنے گی۔

اسلام ٹائمز: بعض لوگ اور خود اس اتحاد میں شامل دوسری دینی جماعتیں یہ کہتی ہیں کہ ایم ایم اے کی بحالی میں منور حسن صاحب رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے آپ کیا کہیں گے۔؟
اسد اللہ بھٹو: میرے خیال میں ایسی تو کوئی رکاوٹ نہیں ہے، اب جو کہنے والے ہیں ان کی زبانیں تو نہیں روکی جا سکتی ہیں۔ ہماری ہمیشہ سے یہی کوشش یہی رہی ہے کہ مل کر اسلامی نظام کے لئے جدوجہد کی جائے اور ہماری مرکزی شوریٰ کی بھی پالیسی یہی ہے اور جماعت اسلامی کے بیانات بھی اسی حوالے سے آتے ہیں۔ اصل میں صرف اتنی سی بات ہے کہ ہم یہ کہتے ہیں کہ متحدہ مجلس عمل کی بحالی سے قبل اس بات کا تعین کر لیا جائے کہ ہمارا آئندہ کا لائحہ عمل کیا ہوگا، تاکہ جب ہم ایم ایم اے بحال کریں تو لوگوں کو ایسی خوشخبری ملے کہ جس کے لئے راستہ پہلے سے طے شدہ ہو اور دوسرا یہ کہ ہم چاہتے ہیں کہ یہ بات بھی طے کر لی جائے کہ سیٹوں کی تقسیم کس طرح ہو گی؟ کیونکہ سیٹوں کی تقسیم کے جو معاملات ہیں یہ قوم کے لئے پریشانی کا باعث ہوں گے۔ ہم چاہتے ہیں کہ پہلے ان باتوں کا تعین کر لیا جائے، لیکن ساری جماعتیں مل کر فیصلہ کریں گی تو جو سب کا فیصلہ ہو گا، وہی ہمارا بھی فیصلہ ہوگا۔

اسلام ٹائمز: پاک ایران گیس پائپ لائن اور دیگر وجوہات کی بنا پر امریکہ نے پاکستان کی 58 فیصد امداد روک دی ہے اور اب وہ مزید اقدامات کرنے جا رہا ہے۔ ہم کس طرح پاک ایران دوستی کے رشتے کو مزید مضبوط کر سکتے ہیں اور کس طرح ایران کے خلاف امریکی عزائم کو ناکام بنا سکتے ہیں۔؟
اسد اللہ بھٹو: میں سمجھتا ہوں کہ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ امریکہ نے ہماری امداد بند کر دی ہے یا کم کر دی ہے۔ اس کی دو وجوہات ہیں، ایک تو یہ جو سب ہوتا رہا ہے ہمیں غلام بنانے کی سازش، فحاشی، عریانیت، بے دینی وغیرہ۔ یہ سب نام نہاد امداد کی بدولت ہے۔ اس کی بندش سے پاکستان کی خودمختاری میں بھی اضافہ ہو گا اور یقیناً پاکستان کی اپنی پالیسی بنے گی۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ والے جو یہ امداد دیتے ہیں ان میں سے ذیادہ تر تو واپس لے لیتے ہیں، ان کے ایڈوائزرز وغیرہ آتے رہتے ہیں تو ان پر اچھی خاصی رقم خرچ ہوتی ہے اور یہ جو اتحادی ہونے کے ناطے ہمیں پیسے ملتے تھے وہ تو ان کے بل پر خرچ ہوتے تھے، اس کے مقابلے میں ہم نے اس کا دس گنا زیادہ خرچ کیا ہوا ہے، امریکہ اب بھی ہمارا گیارہ ارب ڈالر کا مقروض ہے۔

یعنی ہم خرچ تو کرتے تھے روپیہ اور ملتے ہمیں چار آنے تھے۔ 75 فیصد تو پاکستان خرچ کرتا تھا اور لوگ بھی ہمارے مرتے تھے۔ ایساف کے کمانڈر نے خود اعتراف کیا ہے کہ پورے نیٹو کے جتنے دس سال میں فوجی مرے ہیں اتنے پاکستان کے صرف دو سال میں مرے ہیں، اس لئے ہمیں تو خوشی ہوئی ہے اور ہمارے وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ 2011ء میں ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف نے ہمیں روپیہ بھی نہیں دیا ہے، لیکن ہم الحمدللہ چل رہے ہیں اور انشاللہ آئندہ بھی چلیں گے۔ اللہ کرے امریکہ ہمیں ایک پیسہ بھی نہ دے، کیونکہ یہ جتنا حرام کا پیسہ آئے گا اتنا ہی ہمارے ہاں سے برکت اٹھ جائے گی، ہمارے عوام کا جائز پیسہ ہو گا تو اللہ اسی میں برکت دے گا اور ہم ترقی کریں گے۔

اسلام ٹائمز: آج کل اسلامی بیداری کی تحریکیں چل رہی ہیں، ان ممالک میں پیدا ہونے والی حرکت میں امام خمینی رہ کی عظیم فکر کی وجہ سے آنے والے انقلاب اسلامی کا کتنا کردار ہے۔؟
اسد اللہ بھٹو: انقلاب اسلامی ایران نے ساری دنیا کو ایک فکر بھی دی ہے اور ان کے اندر ایک حرکت بھی پیدا کی ہے۔ امام خمینی رحمة اللہ علیہ نے اسلامی انقلاب کی بات بڑی جرات کے ساتھ کی ہے، کیونکہ جب اسلامی انقلاب آیا تو سارے لوگوں نے کوشش کی کہ اسے ایرانی انقلاب کہا جائے اور امام خمینی رحمة اللہ علیہ ایرانی انقلاب کے دعویدار بن جائیں، لیکن امام خمینی رہ نے ان کی یہ بات رد کر دی۔ حتٰی کہ "احرام" کے ایڈیٹر محمد حسین ہیکل امام خمینی رہ سے ملنے گئے اور کہا کہ یہ تو ایران کا انقلاب ہے، تو انہوں نے کہا کہ نہیں یہ اسلامی انقلاب ہے۔ امام خمینی رہ نے بیسویں صدی میں ایک عظیم کارنامہ سر انجام دیا اور دنیا کو پیغام دیا کہ اسلامی انقلاب بھی آ سکتا ہے اور یہی ہماری نجات کا ذریعہ ہے۔

دوسری بات یہ کہ امام خمینی رہ جمہوریت کے بہت بڑے علمبردار ہیں اور انہوں نے جمہوری اور عوامی جدوجہد کے ذریعے انقلاب برپا کیا، مسلح جدوجہد کے ذریعے نہیں اور پھر وہ اس جمہوریت پر قائم رہے۔ محمد علی رجائی جب وہاں کے صدر تھے اس وقت بم دھماکہ کرکے پوری پارلیمنٹ کو اڑا دیا گیا، جس میں پارلیمنٹ کے اکثر اراکین شہید ہو گئے، ایک بم دھماکے میں وہاں کے صدر اور وزیراعظم کو شہید کر دیا گیا، لیکن ان سب کے باوجود وہاں کوئی فوجی انقلاب نہیں آیا، وہاں امام خمینی رہ نے ایمرجنسی نافذ کرکے سارے اختیارات اپنے ہاتھ میں نہیں لے لیے، بلکہ امام خمینی رہ نے وہاں انتخابات کرائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ امام خمینی رہ نے ثابت کیا کہ وہ دنیا کے بہت بڑے جمہوری رہنما ہیں اور قوموں کو پیغام دیا کہ قوموں کی ترقی جمہوریت اور جمہوری حدود سے وابستہ ہے۔ اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ دنیا بھر میں جو یہ بیداری کی تحریکیں چل رہی ہیں، اس میں امام خمینی رہ کا بہت بڑا کردار ہے۔

امام خمینی، مولانا سید ابوالاعلٰی مودودی اور حسن البنا شہید ایک ہی وقت میں پیدا ہوئے تھے اور ایک دوسرے کے ساتھی تھے اور ایک ہی منزل کے راہی تھے اور ایک ہی پیغام دنیا کو دے کر گئے ہیں۔ اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ یہ جو ٹرائیکا ہے پاکستان، ایران اور عرب ممالک کا، یہ دنیا کے لئے نوید لے کر اٹھے ہیں اور انشاءاللہ دنیا میں شاندار بابرکت اسلامی انقلاب آئے گا۔

اسلام ٹائمز: اس وقت اسلام کے خلاف سازشیں زور پکڑ رہی ہیں، امریکہ، صیہونی اور یورپی ممالک نے مل کر اسلام کے خلاف گٹھ جوڑ کر لیا ہے، کیا کوئی تیسری عالمی جنگ ہونے جا رہی ہے۔؟
اسد اللہ بھٹو: کوئی تیسری عالمی جنگ نہیں ہونے جا رہی ہے، یہ امریکہ تباہ ہونے جا رہا ہے۔ جس طرح روس ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا، اسی طرح اب امریکہ تباہ ہو گا، جس طرح روس اقتصادی بدحالی کا شکار ہو گیا، اسی طرح اب امریکہ اقتصادی بدحالی کا شکار ہو گا۔ گزشتہ رمضان میں ہمیں یہ خوشخبری سننے کو ملی تھی کہ اوبامہ نے خود کہا تھا کہ اگر امریکہ کو قرضے نہ ملے تو امریکہ کی معیشت تباہ ہو جائے گی۔ انشاءاللہ امریکہ کی معیشت تباہ ہو گی،کیونکہ افغانستان کی جنگ نے اسے بالکل نچوڑ دیا ہے اور اس کے نتیجے میں اور تباہی آئے گی اور امریکہ ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا۔ ہم امریکہ کے عوام کے خلاف نہیں ہیں، ہم امریکہ کے عوام کو دوستی کا پیغام دیتے ہیں اور ہم ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہیں کہ وہ بیچارے تو مظلوم ہیں اور ان کا ٹیکس کی مد میں دیا گیا پیسہ امریکی حکومت یہودی ایجنڈے کی تکمیل اور اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔

اسد اللہ بھٹو نے اسلام ٹائمز کی جانب سے کراچی میں اٹھنے والی مہاجر صوبے کی آواز پر اپنا مؤقف دینے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ جو اسلامی بیداری کی باتیں کی گئی ہیں، یہی کافی ہیں۔

خبر کا کوڈ : 165218
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش