0
Monday 28 May 2012 09:33

اتحاد بین المسلمین کے ذریعے ہی قتل و غارت گری کو روکا جاسکتا ہے، علامہ ہاشم موسوی

اتحاد بین المسلمین کے ذریعے ہی قتل و غارت گری کو روکا جاسکتا ہے، علامہ ہاشم موسوی
علامہ سید ہاشم موسوی کوئٹہ کے نواحی علاقے علمدار روڈ محلہ حیدری سے تعلق رکھتے ہیں، ایک مذہبی گھرانے میں آنکھ کھولنے کی وجہ سے آپ کا بچپن ہی سے مذہب کی طرف لگائو زیادہ تھا۔ ابتدائی تعلیم علاقے کے پرائمری سکول سے حاصل کی اور بعد میں کوئٹہ کے مشہور اسلامیہ ہائی سکول میں زیر تعلیم رہے۔ آپ نوجوانی کے دوران ہی ملت تشیع کی خدمت کے لئے اس وقت کی مذہبی تنظیم آئی ایس او سے وابستہ ہوگئے۔ اور قائد شہید علامہ سید عارف حسین الحسینی کی شاگردی کا شرف بھی حاصل کیا۔ آپ نے ابتدائی دینی تعلیم پارا چنار میں علامہ سید عارف حسین الحسینی کے مدرسے سے حاصل کی۔ جس کے بعد آپ قم المقدس میں اعلٰی دینی تعلیم کے لئے 1988ء میں مشرف ہوئے، اور وہاں تقریبا ً 22 سال تک تعلیم حاصل کرتے رہے۔ جس کے بعد کوئٹہ میں امام جمعہ کے منصب پر فائز ہوئے، اور اس کے بعد مجلس وحدت مسلمین میں شامل ہوگئے، آپ کا شمار ایم ڈبلیو ایم کے ابتدائی بنیاد گزاروں میں ہوتا ہے۔ آپ فی الوقت مجلس وحدت مسلمین کے شوریٰ عالی کے رکن ہیں۔ اسلام ٹائمز نے علامہ ہاشم موسوی کے ساتھ ایک انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔

اسلام ٹائمز: ملک کے موجودہ حالات کے بارے آپ کی رائے کیا ہے۔؟
علامہ سید ہاشم موسوی: موجودہ حالات میں جو قتل و غارت اور بدامنی ہو رہی ہے یہ سب اسلام دشمن طاقتیں کر رہی ہیں، وہ اس طرح کی سازشیں اس لئے کر رہی ہیں کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ اسلام دین فطرت ہے اور یہ روز بروز طاقتور ہوتا جا رہا ہے اور دنیا کے گوشہ گوشہ میں پہنچ چکا ہے۔ جو آنے والے وقتوں میں پوری دنیا میں اسلامی حکومت قائم کرے گا۔ عالمی طاقتوں خصوصاً امریکہ، اسرائیل، برطانیہ اور ان کے حواریوں کو یہ بات ہضم نہیں ہوتی تو اس لئے یہ شیطانی طاقتیں اس قسم کی گھنائونی سازشیں مسلمانوں کو آپس میں دست بہ گریباں کرکے کمزور کرنے کے لئے کرتے ہیں، اس سے وہ اسلام کو دنیا کے سامنے تشدد پسند کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں، تاکہ وہ لوگوں کو دین اسلام سے دور کرکے اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کرسکیں۔ 

اسلام ٹائمز: کوئٹہ میں تشیع خصوصاً ہزارہ کا جس طرح سے قتل عام کیا جا رہا ہے ،اس مسئلہ کا آپکی نظر میں حل کیا ہے۔؟
علامہ سید ہاشم موسوی: قتل و غارت کا یہ سلسلہ مکمل طور پر رک جائے یہ تو مشکل دکھائی دیتا ہے، کیونکہ اس کے درپردہ عالمی طاقتیں ہیں۔ ان عالمی طاقتوں کی جب تک سازشیں رہیں گی، اس سلسلے کو روکنا مشکل ہوگا۔ لیکن ان حالات میں مسلمانوں کو ہوشیاری برتنی ہوگی، اور ان سازشوں کو بھانپ کر آپس میں اتحاد و اتفاق اور بھائی چارے کی فضاء کو برقرار رکھ کر اسلام دشمن سازشوں کو ناکام بنانا ہوگا، اور یہی ایک بہترین راہ حل ہے۔ 

اسلام ٹائمز: علامہ صاحب تشیع ان حالات کا کس طرح مقابلہ کر سکتی ہے۔؟
علامہ سید ہاشم موسوی: موجودہ حالات سے مقابلہ کرنیکا ایک طریقہ اتحاد بین المسلمین اور اس سے بھی بڑھ کر بہترین طریقہ اتحاد بین المومنین ہے۔اس سلسلے میں جو کوئٹہ یکجہتی کونسل کی تشکیل پچھلے دنوں عمل میں آئی ہے۔ یہ ایک خوش آئند اقدام ہے اور اسی سے اہل تشیع کا حوصلہ بلند ہوا ہے۔ اسی اتحاد کے ذریعے ہم آپس میں مل بیٹھ کر مسئلہ کا حل بات چیت کرکے نکال سکتے ہیں، اور اسی طرح دہشتگردی کا مقابلہ بھی ہم اچھی طرح کر سکتے ہیں۔ 

اسلام ٹائمز: کہا جاتا ہے کہ دہشتگردی میں امریکہ اور ہمارے ریاستی عناصر ملوث ہیں۔ اگر ایسا ہے تو اسکے سدباب کے لئے کیا اقدامات درکار ہیں۔؟
علامہ سید ہاشم موسوی: ایک جمہوری ریاست میں جمہوری طرز کی حکومت ہی ہونی چاہئیے۔ اگر جمہوری حکومت مضبوط ہوگی تو لامحالہ حکومت عوامی نمائندے کی حیثیت سے ملک کو چلائے گی۔ جس میں عوام کی بہتری، بھلائی اور ان کی فلاح و بہبود کے لئے حکومت اور ریاستی ادارے مصروف عمل ہونگے۔ حقیقی جمہوری حکومت امن و امان کو ہر قیمت پر قائم کرے گی، اور کسی قسم کے عوام دشمن عناصر کو پنپے نہیں دے گی۔ عوام میں نفرتوں، انتشار، قتل و غارت گری کرنے والے دہشتگردوں کا قلع قمع کرے گی۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں جمہوری حکومت برائے نام ہے۔ پاکستان میں کچھ ایسی طاقتیں اپنے عروج پر ہیں، جو حقیقی جمہوریت پر بوجھ ہیں۔
 
جو جمہوریت کو کمزور کر رہی ہیں۔ یہ جمہوریت مخالف طاقتیں پاکستانی اداروں پر مسلط ہیں۔ یقیناً ان میں ایسے افراد بھی ہیں جو محب وطن اور عوام دوست ہیں۔ لہٰذا ان کو چاہیے کہ جو بھی پاکستان اور پاکستان کے عوام کے نقصان میں کام کرتا ہو اس کو روکیں اور پاکستان اور عوام مخالف اقدامات نہ کرنے دیں۔ امریکی اور دیگر اسلام دشمن عوام دشمن افراد کو بے نقاب کرکے کیفر کردار تک پہنچائیں۔ ایسے افراد جو ریمنڈ ڈیوس جیسے خطرناک مجرم اور امریکی جاسوس، جس نے دن دھاڑے تین پاکستانیوں کو قتل کیا تھا اور پاکستانی دہشتگردوں سے اس کے روابط تھے، کو رہا کراتے ہیں، یہ ایک مثال ہے کہ کس حد تک شیطانی طاقتوں نے پاکستان میں اپنا جال بچھا رکھا ہے۔ لہٰذا پاکستان کی حکومت اور اداروں کے ساتھ پاکستانی عوام کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ایسی شیطانی طاقتوں کے جال میں نہ آئیں، تاکہ پاکستان میں امن وامان قائم ہو۔ 

اسلام ٹائمز: پاکستان کے موجودہ حالات خصوصاً کوئٹہ کےحالات کو مزید خراب ہونے سے بچانے کے لئے اتحاد بین المسلمین کے سلسلے میں آپ کا کیا لائحہ عمل ہے۔؟
علامہ سید ہاشم موسوی: موجودہ حالات میں اتحاد اور بھائی چارے کی فضاء کو برقرار رکھنا ازحد ضروری ہے۔ اس سلسلے میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی سطح پر کوششیں کر رہی ہے، ہم اس سلسلے میں ملک بھر میں علماء سے رابطے میں ہیں۔ میری ذاتی رائے بھی یہی ہے کہ ہم ان حالات کو اتحاد کے ذریعے کنٹرول کر سکتے ہیں۔ اسی سلسلے میں بلوچستان میں بھی ہمارا رابطہ علماء اہل سنت سے بہت مضبوط ہے۔ امام کے نام سے بلوچستان میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء کا ایک پلیٹ فارم قائم ہے۔ جس میں بڑی بڑی مذہبی سیاسی جماعتیں شامل ہیں۔ اس میں ہمارا ایک اچھا پروگرام ہے، جس میں تمام مکاتب فکر کے علماء سب مل کر کوئٹہ کی کسی مشہور جگہ پر ایک بڑے جلسے کا انعقاد کرینگے۔ 

جس کا مقصد مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور بھائی چارے کی فضاء کو برقرار رکھ کر دہشتگردوں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملانا ہے۔ اسی سلسلے میں مشترکہ وفد تشکیل دے کر اس کو بلوچستان کے مختلف علاقوں کا دورہ کرایا جائے گا، جو لوگوں میں دشمن کی سازشوں اور اتحاد و اتفاق کو مضبوط بنانے کے بارے میں آگاہی دے گا۔ مجلس وحدت مسلمین ہمیشہ اس سلسلے میں پیش پیش رہی ہے، اور اس طرح کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے گی۔ ہماری ہی جانب سے پچھلے دنوں ہزاروں کی تعداد میں پمفلٹ تقسیم کئے گئے تھے، جن میں آیت اللہ العظمٰی جناب سید علی خامنہ ای کا فتویٰ لکھا ہوا تھا کہ اہل سنت کے مقدسات کی توہین حرام ہے اور خاص کر ازواج رسول ص کی شان میں بے حرمتی قطعاً حرام ہے۔ 

اسی کے جواب میں جامعہ الازہر مصر کے سب سے بڑے عالم شیخ محمد الطیب کا فتویٰ بھی شامل ہے جس میں کہ شیعہ مسلمانوں پر حملہ کرنا اور ان کے جان و مال کو نقصان پہنچانے کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ اس پمفلٹ کو تمام سکولوں، کالجوں اور دیگر برادر اقوام کے دفاتر کو پوسٹ کیا گیا ہے۔ اسے عوامی مقامات پر بھی تقسیم کیا گیا ہے، تاکہ مسلمانوں میں جو شکوک و شبہات پیدا کئے گئے تھے، ان کو ختم کیا جاسکے۔ 

اسلام ٹائمز: اتحاد کے لئے سیاسی جماعتوں سے رابطے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے۔؟
علامہ سید ہاشم موسوی: اس وقت کوئٹہ میں اہل تشیع کی قتل و غارت کا جو مسئلہ ہے وہ مذہبی دکھائی دیتا ہے، لیکن پھر بھی ہمارا تعلق کسی بھی سیاسی پارٹی سے ہو۔ ہمارا مذہب سے ضرور تعلق ہے۔ لہٰذا ہم اس سلسلے میں تمام مذہبی و سیاسی قوم پرست جماعتوں پر مشتمل جلسہ کرانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ 

اسلام ٹائمز: یہاں کوئٹہ میں مذہبی اور قوم پرست سیاسی جماعتوں میں کھل کر ایک دوسرے کے خلاف بیانات آ رہے ہیں، اس بارے میں آپ کا کیا کہنا ہے۔؟
علامہ سید ہاشم موسوی: سیاسی بیانات کی حد تک تو سیاسی و مذہبی جماعتوں کا ایک دوسرے پر تنقید کا سلسلہ جاری رہے گا۔ یہ تو جمہوری نظام کا حصہ بھی ہے اور صحیح ہے۔ لیکن اگر بات خدا نخواستہ حد سے بڑھ جائے تو اس سلسلے میں ہم علماء اس کو اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ معاملے کو حل کریں۔ اہل سنت، اہل تشیع جو امام کے نام سے ایک پلیٹ فارم پر متحد ہیں۔ کسی بھی گھمبر مسلئے پر ضرور اپنا مثبت کردار ادا کریں گے۔ 

اسلام ٹائمز: ہزارہ کے خلاف کوئٹہ میں دہشتگردی کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے، اس کے بار ے میں آپ کیا کہیں گے۔؟
علامہ سید ہاشم موسوی: ہزارہ اہل تشیع ایک ہوشیار، سمجھدار قوم ہے۔ دیندار پیرو اہل بیت ع بھی ہیں۔ ان جیسے حالات کا اس قوم پر آنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ قوم خدائی احکامات پر عمل کرتی ہے۔ ان حالات میں قوم اپنے ایمان کو مزید مضبوط و مستحکم کرکے آپس کے اتحاد کا مظاہرہ کرے، کیونکہ اتحاد ہی کے ذریعے ہم ہزارہ حالات و مشکلات کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ 

اسلام ٹائمز: کوئٹہ یکجہتی کونسل کی اہمیت کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے۔؟
علامہ سید ہاشم موسوی: چونکہ ہمارے ہزارہ اہل تشیع نے سردار سعادت علی ہزارہ پر اعتماد کا اظہار کیا ہے، اس لئے ہزارہ قوم کے تمام افراد کو سردار سعادت علی ہزارہ کے زیر سایہ اتحاد کرنا ہوگا۔ سردار صاحب کو اس سلسلے میں مشاورتی بازو کی ضرورت تھی، لہٰذا اس مشاورتی بازو میں سیاسی شخصیات، علماء اور دانشور حضرات کی ایک ٹیم تشکیل دی گئی، اس کا اشارہ میں نے اپنے تقرر میں کیا تھا۔ مشاورتی کمیٹی جو کوئٹہ یکجہتی کونسل کے نام سے جانی جاتی ہے، وہ معاملات کو سوچ سمجھ کر حل کرنے کے لئے فیصلہ کرتی ہے۔ الحمد اللہ کوئٹہ یکجہتی کونسل کے بننے سے ہزارہ قوم اور علاقے کے دیگر اہل تشیع کا مورال بلند ہوا ہے، لوگوں کی طرف سے بہت اچھی پذیرائی ملی ہے۔ جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بارش کے باوجود لوگوں کی  بڑی تعداد عیدگاہ علمدار روڈ پر جلسہ میں تھی۔

اسلام ٹائمز: موجودہ حالات میں کوئٹہ کے عوام خوف زدہ ہیں، آپ یہاں کے عوام کے لئے کیا پیغام دینگے۔؟
علامہ سید ہاشم موسوی: خوف اللہ تعالٰی کی طرف سے امتحان ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالٰی کا قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ تمہیں خوف اور دیگر امتحانوں میں مبتلا کیا جائیگا۔ قرآن مجید میں ایک اور جگہ ارشاد باری تعالٰی ہے کہ خدا کے مقرب بندے نہ تو خوفزدہ ہوتے ہیں اور نہ غمگین ہوتے ہیں۔ ان جیسے حالات کا اس آخری زمانے میں ہونا یقینی ہے۔ اس سلسلے ہمیں اپنے ایمان کو مستحکم کرنا چاہئیے۔ ایمان کو مضبوظ کرکے ہم اپنے معاشر ے کو برائیوں سے روک سکتے ہیں، اور اس جیسے امتحانات میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ مگر موجودہ بدامنی میں یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ اگر خدانخواستہ قتل و غارت گری کا یہ سلسلہ جاری رہا تو عوام کو کنٹرول کرنا ناممکن ہوگا اور بدامنی کی یہ لہر کوئٹہ شہر کو جلا کر رکھ دیگی۔
خبر کا کوڈ : 165831
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش