0
Tuesday 26 Feb 2013 16:49

الطاف حسین شیعہ علمائے کرام کے خلاف دیا گیا بیان واپس لیں، علامہ مرزا یوسف حسین

الطاف حسین شیعہ علمائے کرام کے خلاف دیا گیا بیان واپس لیں، علامہ مرزا یوسف حسین
آل پاکستان شیعہ ایکشن کمیٹی کے مرکزی محرک اور نامور عالم دین علامہ مرزا یوسف حسین کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ حالیہ سانحہ کیرانی روڈ کوئٹہ کے بعد وہاں مومنین کی جانب سے دئیے گئے دھرنے اور اس کے بعد حکومت سے مذاکرات، مطالبات کو تسلیم کروانے اور دھرنے کے اختتام پذیر ہونے تک مومنین کوئٹہ کے ساتھ شانہ بشانہ ثابت قدم رہے۔ علامہ مرزا یوسف حسین سے اسلام ٹائمز نے سانحہ کوئٹہ، حکومت سے مذاکرات، مطالبات کی منظوری اور حکومتی عمل درآمد، مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی بطور سیاسی جماعت رجسٹرڈ ہونے، متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کی جانب سے اہل تشیع علمائے کرام کے خلاف دیئے گئے بیان اور دیگر حوالوں سے ان کے آفس میں ایک خصوصی نشست کی۔ اس موقع پر علامہ صاحب سے لیا گیا انٹرویو اسلام ٹائمز کے قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: سانحہ کیرانی روڈ کوئٹہ اور اس کے بعد علمائے کرام کی زیر سرپرستی کوئٹہ یکجہتی کونسل اور حکومت کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں آپ پیش پیش رہے، اس حوالے سے کیا کہنا چاہیں گے؟ آپ مطالبات پر حکومتی عمل درآمد سے مطمئن ہیں؟
علامہ مرزا یوسف حسین: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم، 10 جنوری کو ہونے والے سانحہ کوئٹہ کے شہداء کا چہلم جو کہ 17 فروری کو ہوا، اس سلسلے میں ہم کوئٹہ میں موجود تھے اور شہداء کے خانوادوں سے ان کے گھروں پر تعزیت کر رہے تھے کہ اسی دوران اس انسانیت سوز سانحہ کیرانی روڈ کی خبر ملی۔ ہم فوراََ سی ایم ایچ اسپتال پہنچے جہاں زخمیوں کو منتقل کیا جا رہا تھا۔ بعد ازاں ہم سانحہ کے مقام پر پہنچے اور دیکھا کہ اس اندوہناک سانحہ میں 113 افراد شہید ہوئے تھے، ان کے علاوہ ایسے شہداء بھی تھے کہ جن کا پتہ ہی نہیں چلا، بڑی تعداد میں گوشت کے لوتھڑے پڑے ہوئے تھے، نہیں پتہ کہ مرد کا ہے یا عورت کا، بچے کا ہے یا جوان کا۔ یوں سمجھ لیں کہ دھماکہ کے نتیجے میں ان کا قیمہ بن گیا تھا۔ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا دھماکہ تھا کہ جس میں 1000 کلو گرام سے زائد بارودی مواد استعمال کیا گیا تھا اور اتنا شدید تھا کہ لوہے کے موٹے موٹے پلر مڑ گئے تھے، عمارتوں میں جو شیشے لگے ہوئے تھے وہ دھماکے کی شدت سے تیر کی طرح دیواروں میں پیوست ہوگئے تھے۔ وہاں موجود اسکول میں بچوں کی کتابیں، کاپیاں اور دیگر سامان ویسے ہی بکھرا پڑا تھا۔

اسی دوران کوئٹہ کے مقامی مومنین اور شہداء کے لواحقین نے اس سانحہ کے خلاف دھرنا دینے کا فیصلہ کیا اور کہا کہ ہم شہداء کی تدفین نہیں کرینگے۔ سانحہ کوئٹہ کے خلاف پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہونے والے احتجاجی دھرنوں، مظاہروں، ریلیوں کے نتیجے میں حکومت حرکت میں آئی اور چند روز بعد وفاقی حکومت کے نمائندے آئے اور ان سے مطالبات تسلیم کرانے کیلئے ہونے والے کامیاب مذاکرات کے نتیجے میں یہ دھرنا ختم ہوا۔ کچھ مطالبات سابقہ دھرنے کے تھے اور جب وہ مطالبات دوبارہ شامل کئے گئے تو معلوم ہوا کہ ان پر اندرونی طور پر کام ہو رہا ہے اور ملت تشیع کیلئے باعث اطمینان تھا۔ ان سابقہ 9 مطالبات کو دوبارہ اٹھایا گیا تو اس میں مزید کئی شقیں نکلتی گئیں اور یوں اس بار 23 نکات پر مبنی مطالبات پیش کئے گئے۔ یہ وہ مطالبات تھے کہ جنہیں حکومت نے فوراََ تسلیم کر لیا کیوں کہ سارے مطالبات عقلی اور مبنی برحق تھے۔ کراچی میں پریس کلب پر ہیئت آئمہ مساجد امامیہ نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے میڈیا کو دوبارہ تمام تسلیم شدہ مطالبات جاری کئے تاکہ کسی قسم کی غلط فہمی اور پروپیگنڈہ نہ ہوسکے۔

اسلام ٹائمز: مذاکرات میں تسلیم شدہ مطالبات پر عمل درآمد کے حوالے سے آپ مطمئن ہیں؟
علامہ مرزا یوسف حسین: بہرحال اس حوالے سے ہم حکومتی کارکردگی سے مطمئن ہیں جو کچھ انہوں نے وعدے کئے ہیں اس پر انہوں نے عمل درآمد شروع کیا ہے۔ یہاں ایک بات بتاتا چلوں کہ اطلاعات کے مطابق پنجاب حکومت نے بھی دہشت گردوں کے خلاف اقدامات کرنا شروع کر دئیے ہیں، کچھ دہشت گردوں کو گرفتار اور کچھ کو نظر بند کیا ہے، اگر یہ صحیح ہے تو یہ خوش آئند بات ہے اور حکومتی ذمہ داری بھی ہے کہ وہ شہریوں کو دہشت گردی سے نجات دلائے، تحفظ فراہم کرے۔ ان اقدامات کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ کوئٹہ میں دیئے گئے دھرنے میں میری تقریر کی باری آئی تو اتفاق سے مسلم لیگی خاتون رہنماء ماروی میمن وہاں تشریف لائیں تو میں نے اس موقع پر احتجاج ریکارڈ کرنے کیلئے کہا کہ ہم پنجاب حکومت کی بھی مذمت کرتے ہیں اور سندھ حکومت کی بھی مذمت کرتے ہیں کیونکہ یہ دونوں حکومتیں دہشت گردوں کی سرپرستی کر رہی ہیں۔ اس پر ماروی میمن پریشان ہوگئیں اور وہاں موجود حاجی عبدالقیوم چنگیزی سے شکایت کرنے لگیں کہ یہ الزامات درست نہیں ہیں۔ ہم نہ کہا کہ ان الزامات کو ہم ثابت کرسکتے ہیں۔ اس پر ماروی میمن نے کہا کہ دہشت گردوں کے سرغنہ ملک اسحاق کو عدالت نے چھوڑا ہے۔ تو میں نے کہا کہ عدالت نے ایک دہشت گرد کو چھوڑا مگر آپ کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے اس دہشت گرد کا استقبال کیا، پھولوں کے ہار پہنائے، اس کو آپ نے کھلی چھوٹ دی۔ ملک اسحاق شیعہ اکثریتی آبادیوں میں جا کر جلسے کرتا ہے جس کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ شیعہ آبادیوں میں جا کر گھروں پر حملے کرتے ہیں، شیعہ کافر سمیت غلیظ نعرے بازی کرتے ہیں، وال چاکنگ کرتے ہیں۔ تو میں نے کہا کہ یہ سب پنجاب حکومت کی سرپرستی میں ہو رہا ہے کیونکہ ایک کالعدم دہشت گرد تنظیم کیسے کھلے عام جلسے جلوس کر سکتی ہے، سرگرمیاں سرانجام دے سکتی ہے۔

ان کی سرگرمیاں اس بات کا ثبوت ہے کہ پنجاب حکومت ان کی سرپرستی کر رہی ہے۔ اس پر ہماری اطلاعات کے مطابق ماروی میمن وہیں سے بیٹھے بیٹھے موبائل پر میسجز کے ذریعے نواز شریف کو عوامی ردعمل سے آگاہ کر رہی تھیں۔ اس کا نتیجہ آپ نے دیکھا کہ اگلے روز ہی پنجاب حکومت نے تین روزہ سوگ اور قومی پرچم سرنگوں رکھنے کا اعلان کیا۔ یہ ہماری اس تقریر کا نتیجہ تھا ورنہ تو پنجاب حکومت خاموش تماشائی بنی بیٹھی تھی۔ تو بہرحال اب پنجاب حکومت کی جانب سے بھی دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں کی اطلاعات ہم تک پہنچ رہی ہیں۔ تو وفاقی حکومت کی جان سے پیش رفت تو ہو رہی ہے مطالبات پر عملدرآمد کے حوالے سے۔ جہاں تک بات ہے کوئٹہ سمیت بلوچستان میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کی تو فوج کے زیر نگرانی ایف سی آپریشن کر رہی ہے، اس میں حقیقت ہے۔ موجودہ گورنر بلوچستان نواب ذوالفقار مگسی احساس ذمہ داری کرنے والے ایک شریف اور نفیس شخص ہیں۔ مشاہدے میں بھی آیا ہے وہ دیگر حکومتی لوگوں کی طرح باتیں نہیں کرتے، انہوں نے ہم سے کہا کہ میں اس کا وعدہ کروں گا کہ جو میرے اختیار میں ہوگا، جو میں کر سکتا ہوں، میں صرف سیاسی وعدے نہیں کروں گا کہ سب کچھ ہو جائے گا آپ دھرنا ختم کر دیں۔ میں آپ سے اس چیز کا وعدہ کروں گا کہ جو میں کر سکتا ہوں۔ تو میں سمجھتا ہوں کہ فی الحال مطالبات پر عمل درآمد کے حوالے سے ہم مطمئن ہیں اور آپریشن بھی ہو رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: مطالباتی فہرست اور دھرنا ختم کرنے کے اعلان میں شہداء کے لواحقین کی رضا مندی شامل تھی یا ان کے مرضی کے بغیر یکطرفہ طور پر دھرنا ختم کیا گیا؟
علامہ مرزا یوسف حسین: میں خود شروع سے آخر تک معاملات میں شامل تھا، شہداء کے لواحقین تمام تر معاملات میں سو فیصد شامل تھے اور دھرنا شروع کرنے سے لیکر اس کے اختتام پزیر ہونے تک تمام فیصلہ جات ان کی مرضی سے ہوئے، کسی تنظیم یا عالم دین نے کوئی یکطرفہ فیصلہ نہیں کیا۔ بالکل لواحقین کی رضا مندی تھی اور وہاں کوئٹہ یکجہتی کونسل موجود تھی جس میں اٹھارہ سے زائد تنظیمیں شامل تھیں سوائے ایک ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی HDP کے، وہ اس کونسل میں شامل نہیں تھی۔ لہٰذا ایچ ڈی پی الگ سے نمائندگی کے طور پر شرکت کرتی رہی۔ حکومت سے آخری جو مذاکرات ہوئے جس کے بعد یہ دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا گیا، اس میں جب کوئٹہ کو فوج کے حوالے کرنے کی بات کی گئی تو خود ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی نے وہاں صاف انکار کیا کہ یہ مطالبہ ہمارا نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم آپریشن چاہتے ہیں مگر فوج بلانے کا مطالبہ ہمارا نہیں ہے۔

یہاں ایک بات بتاتا چلوں کہ فوج کو بلانے کے حوالے سے وہاں کے لوگوں کا یہ خیال تھا کہ فوج اگر وہاں آتی ہے اور ہمارے مطالبے سے ہٹتے ہوئے علیحدگی پسندوں کے خلاف کوئی کارروائی کرے اور اس کی وجہ سے ہمارے بلوچ بھائی، وہ لوگ ہم سے ناراض ہوں کہ تمہاری وجہ سے ہمارے خلاف کارروائی ہو رہی ہے۔ ویسے بھی وہاں کہا گیا تھا کہ ایف سی کے کور کمانڈر جو کہ آرمی کا حصہ ہیں کی زیر نگرانی آپریشن کیا جائے گا، جو کہ شروع ہوچکا ہے۔ بہرحال تمام معاملات میں شہداء کے لواحقین سو فیصد شامل رہے اور پریس کانفرنسز اس کا واضح ثبوت ہے۔ ایچ ڈی پی خود بھی مذاکراتی عمل کا حصہ تھی اور تمام فیصلہ جات میں بھی اس کی رضا مندی شامل تھی۔

اسلام ٹائمز: تدفین کے عمل کو کچھ عناصر نے سبوتاژ کرنے کی کوشش کی، آیا کیا وہ لواحقین تھے؟ کیا حقائق ہیں؟
علامہ مرزا یوسف حسین: نہیں، قطعاََ وہ شہداء کے لواحقین نہیں تھے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ہر جگہ کچھ لوگ ہوتے ہیں جو لاشوں کی سیاست کرتے ہیں، عام انتخابات بھی قریب ہیں۔ اس لئے بھی شاید یہ حرکت کی گئی کہ سیاسی مقاصد حاصل کرنے کیلئے۔ ورنہ اعلان کے بعد جب یہ صورتحال سامنے آئی تو ہم لوگ رات ساڑے گیارہ بجے واپس گئے علمدار روڈ اور وہاں لواحقین کے نمائندوں سے بات کی۔ وہاں ایک شخص تھا جنہوں نے ہمیں کہا کہ میرے خاندان کے سترہ جنازے ہیں، ایک مولانا تھے انہوں نے کہا کہ میرے دو جنازے ہیں، ایک شخص نے کہا کہ میرے سات جنازے ہیں، وہاں اور بھی شہداء کے وارثین موجود تھے، تو یہ اصل وارثین تھے شہداء کے۔ وہاں ان میں سے عالم دین نے کھڑے ہوکر کہا تھا کہ ہمارے پاس اب شرعی، اخلاقی اور قانونی طور پر کوئی جواز نہیں رہتا ہے کہ جب مقامی اور پاکستان بھر سے نمائندہ علماء کرام کی سرپرستی میں حکومت سے کامیاب مذاکرات ہوگئے ہیں اور انہوں نے ہمارے مطالبات بھی تسلیم کر لئے ہیں۔ تو ان عناصر کا اصل لواحقین سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ جن خواتین کے بارے میں یہ کہا گیا تھا کہ وہ قبروں میں لیٹ گئی ہیں تو ان خواتین کو انہی شہداء کے اصل ورثاء نے وہاں سے مار کر نکالا اور بھگا دیا تھا۔

اسلام ٹائمز: آپ ملکی اور عالمی حالات پر گہری نگاہ رکھتے ہیں، کیا سمجھتے ہیں کہ یہ واقعات عالمی سازش کا حصہ ہیں؟
علامہ مرزا یوسف حسین: اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ تمام واقعات عالمی امریکی و صیہونی اسرائیلی سازشوں کی ناپاک سازشوں کا نتیجہ ہیں جس میں ان کے مقامی نمک خوار ایجنٹ ملوث ہیں۔ چونکہ ایران پاکستان کا پڑوسی برادر اسلامی ملک ہے، امریکہ انقلاب اسلامی ایران کے پاکستان میں پھیلتے ہوئے اثرات کو روکنا چاہتا ہے، فرقہ واریت پھیلانا چاہتا ہے، یہ بھی وجہ ہے کہ وہ اپنے مقامی ایجنٹوں کے ذریعے اس قسم کے واقعات کرا رہا ہے، امریکہ پاکستان اور چین کے درمیان ہونے والے گوادر پورٹ معاہدے کے خلاف ہے، پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کے خلاف ہے اور گزشتہ دنوں امریکہ نے پاکستان کو براہ راست دھمکیاں بھی دیں کہ وہ ایران سے معاہدے کرنے سے باز رہے ورنہ اس پر پابندیاں عائد کر دی جائیں گی۔ یہ بھی وجہ ہے موجودہ خراب صورتحال کی۔ دیکھیں پوری دنیا میں امریکہ نفرت کا نشان بنا ہوا ہے کہ جس کا دعویٰ ہے کہ وہ سپر پاور ہے اور اس کی حاکمیت کو ساری دنیا تسلیم کرے۔ پھر ہم اس کے اس دعوے کے مقابلے میں دیکھتے ہیں کہ کوئی اس کو سپر پاور تسلیم کرے یا نہ کرے مگر اسلامی ایران اسے سپر پاور تسلیم نہیں کرتا اور اس کے عالمی اہداف کے سامنے ڈٹا ہوا ہے۔

ایران کا موقف ہے کہ سپر پاور صرف اللہ کی ذات ہے۔ تم صرف ایک حکومت ہو اور کچھ نہیں، جیسے ہم بھی ایک ملک ہیں لہٰذا اگر اقوام عالم سے بات کرنی ہے تعلقات قائم رکھنے ہیں تو برابری کی بنیاد پر رکھنے ہونگے نہ کہ بدمعاشی کی بنیاد پر، جیسا کہ حال ہی میں اس نے اسلامی ایران سے براہ راست مذاکرات کی بات کی ہے۔ جس پر ایران نے کہا کہ امریکہ پہلے پوری دنیا میں جاری اپنی بدمعاشی کا خاتمہ کرے، انسانیت کے دائرے میں آئے پھر بات کرے اور وہ بھی برابری کی بنیاد پر۔ اسلامی ایران کی بالادستی اور اس کے مثبت عالمی کردار کو تمام مسلم امہ اور ممالک نے تسلیم کر لیا ہے کہ ایران نے اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے دشمنان اسلام کی سازشوں کے مقابلے میں قیام کیا اور کامیابی حاصل کی۔ آج ایران تمام تر عالمی پابندیوں کے باوجود تیزی سے ہر میدان میں ترقی کر رہا ہے۔ حال ہی میں رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کے مشیر اعلیٰ برائے عالمی امور اور سابق ایرانی وزیر خارجہ ڈاکٹر علی اکبر ولایتی پاکستان کے دورے پر آئے تھے تو انہوں نے حکومت پاکستان اور عوام سے کہا کہ ایران کے ہوتے ہوئے پاکستان کو جدید ٹیکنالوجی کے حصول کیلئے کسی دوسرے کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں ہے، پاکستان کو امریکہ و دیگر ممالک کا محتاج ہونے کی ضرورت نہیں، پاکستان ایران سے جدید ٹیکنالوجی حاصل کر سکتا ہے۔ خطے میں ایرانی بالادستی سے بھی امریکہ پریشان ہے۔

دوسری جانب میں نے تذکرہ کیا کہ امریکہ نہیں چاہتا کہ گوادر پورٹ کے انتظامات چین کے حوالے کئے جائیں، کیونکہ وہ خود گوادر پورٹ پر قبضہ کرنا چاہتا ہے، خود اس پورٹ میں آپریشن شروع ہونے سے امریکہ کا ہمنوا دبئی اور دیگر عرب ریاستیں پریشان ہیں کیونکہ اس سے ان کی اہمیت ختم ہو جائے گی۔ گوادر پورٹ سے امریکہ مخالف بلاک بھی مضبوط ہوگا۔ لہٰذا امریکہ بلوچستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے کی سازشوں میں مصروف ہے۔ اس وقت سعودی عرب کو ایران کی طرح پاکستان سمیت سارے عالم اسلام کی سربلندی کیلئے مثبت کردار ادا کرنا ہوگا اور امریکی کیمپ سے باہر آنا ہوگا۔ افسوس ناک بات ہے کہ اس نے بلوچستان سمیت پاکستان کی ترقی خصوصاََ اقتصادی ترقی کیلئے کوئی اقدامات نہیں کئے سوائے خیراتی کاموں کے، قربانی کے جانور کا گوشت بانٹنے کے، تنظیموں اور اداروں کو فنڈز کی فراہمی کے۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ شیعہ مکتب فکر میں قوم پرستی کی کوئی گنجائش ہے؟
علامہ مرزا یوسف حسین: شیعہ مکتب فکر ہی کیا کسی بھی مکتب فکر میں قوم پرستی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اگر کوئی مسلمان ہونے کا دعویدار ہے تو اسے صرف مسلمان ہونا چاہئیے۔ ہر مسلمان کو قرآن و سنت کے تابع ہونا ہے، اسے کسی زبان کے، صوبے کے، کسی علاقے سے بالاتر ہونا چاہئیے، اسے قوم پرستی یا اس جیسے کسی اور حوالے سے اپنی شناخت نہیں کرانی چاہئیے۔ 

اسلام ٹائمز: متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے اپنے بیان میں کہا کہ شیعہ علماء و اکابرین نے شہدائے سانحہ کوئٹہ کے ورثاء کی مرضی کے بغیر یکطرفہ طور پر دھرنا ختم کیا تھا۔ آپ اس بیان کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
علامہ مرزا یوسف حسین: میں یہ سمجھتا ہوں کہ الطاف حسین نے بیان دینے میں جلد بازی کی ہے، انہیں پہلے حقائق معلوم کرنا چاہئیے تھا پھر اس طرح کا بیان دینا چاہئیے تھا۔ اس قسم کے بیان کی مثال ہم ایسے دے سکتے ہیں کہ ہم کرکٹ کھیلنے والے پر یا فٹ بال، ہاکی کھیلنے والے پر ہم ٹی وی پر بیٹھ کر تبصرہ کرتے ہیں کہ انہیں یوں کھیلنا چاہئیے تھا یا ایسے نہیں ویسے کھیلنا چاہئیے یا یوں مارنا چاہئیے۔ جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے کیونکہ جو کھیل رہا ہوتا ہے وہ بہتر جانتا ہے کہ کیسے کھیلنا چاہئیے، کیسے مارنا چاہئیے۔ تو یہ اس قسم کی بلاجواز تنقید ہے۔ جو لوگ وہاں موجود تھے، انہوں نے وہاں سانحہ کے متاثرین، شہداء کے ورثاء، لواحقین کی مرضی کے عین مطابق تمام فیصلہ جات کئے۔ کوئی فیصلہ شہداء کے لواحقین کے اوپر مسلط نہیں کیا گیا ہے۔ لہٰذا الطاف حسین صاحب نے یہ بیان دینے میں جلد بازی کی یا پھر ان کو یہاں سے بہکایا گیا ہے۔ کیونکہ ظاہر ہے کہ ان کے بیانات کا یہاں اثر ہوتا ہے لہٰذا یہاں سے کسی ان کو misguide کرکے یہ بیان دلوایا ہے۔

اسلام ٹائمز: علمائے ملت تشیع نے بھی اس بیان کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایم کیو ایم سمیت ہر سیاسی جماعت ملت تشیع کے معاملات میں دخل اندازی سے پرہیز کرے، کیا کہیں گے۔
علامہ مرزا یوسف حسین: یہ بھی صحیح ہے کہ یہ ایک ملت کا مسئلہ ہے، مناسب نہیں ہے کہ کوئی سیاسی جماعت کسی بھی ملت کے معاملات میں مداخلت کرے، میں نے ابھی آپ سے کہا ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ الطاف حسین کی طرف سے جلد بازی ہوئی ہے، اگر وہ جلد بازی نہ کرتے تو شاید یہ بات سامنے نہیں آتی۔

اسلام ٹائمز: ایک بڑے اور معتبر حلقہ کا کہنا ہے کہ کیونکہ مجلس وحدت مسلمین جو گزشتہ دنوں بطور سیاسی جماعت رجسٹرڈ ہو چکی ہے، وہ پاکستان خصوصاََ شہر کراچی میں ملت تشیع میں سیاسی و ملی حوالے سے اپنا اثر و رسوخ اور اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہوچکی ہے جبکہ ایم کیو ایم ملت تشیع میں اپنی ساکھ کھو چکی ہے اور بوکھلاہٹ کا شکار ہے اور الطاف حسین کے حالیہ بیان کو بھی اسی تناظر میں دیکھنا چاہئیے، آپ کا کیا خیال ہے؟
علامہ مرزا یوسف حسین: بہرحال یہ مسائل ہیں، کیونکہ ظاہر ہے کہ اب مجلس وحدت مسلمین عام انتخابات کی جانب پیش رفت کر رہی ہے۔ جیسا کہ خبریں ہیں اس کی الیکشن کمیشن سے بطور سیاسی جماعت رجسٹرڈ ہونے کی۔ پھر اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ملت تشیع پاکستان میں جو ایک کمی پائی جا رہی تھی قیادت کی، سیاسی، ملی و قومی مسائل کے حل کے حوالے سے، اس تناظر میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان نے گزشتہ ڈھائی تین سالوں میں اپنی حیثیت کو، قیادت کو منوا لیا ہے۔ قوم کا مورال گر چکا تھا، ملت تشیع کے اس مورال کو مجلس وحدت مسلمین نے ملکی سطح پر بلند کر دیا ہے۔ پاکستان کے ہر علاقے سے ایم ڈبلیو ایم کو مثبت رسپانس ملا ہے اور رسپانس بھی صرف زبانی دعوے پر نہیں بلکہ practically ایم ڈبلیو ایم نے جو اجتماعات کئے، کانفرسنز کیں، احتجاجی تحریکیں چلائیں، تو اس کے نتیجے میں ملت تشیع مجلس وحدت کی طرف متوجہ ہوئی ہے۔ لہٰذا اس توجہ کی بنیاد پر ہو سکتا ہے کہ آئندہ آنے والے عام انتخابات میں ایم ڈبلیو ایم کراچی سمیت پورے پاکستان میں problem کا باعث بنے اور سیاسی جماعتیں اسے اپنے لئے خطرہ محسوس کریں۔ تو آپ نے جس نکتہ نظر کی طرف اپنے سوال میں اشارہ کیا اس سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: علماء کرام نے متحدہ کے قائد الطاف حسین سے شیعہ علماء کے خلاف دئیے گئے بیان کو واپس لینے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ان کا یہ بیان واپس لینا ایک اچھا اقدام ہوگا؟
علامہ مرزا یوسف حسین: میرا خیال ہے کہ الطاف حسین کیلئے اس بیان کو واپس لینے میں کوئی سبکی نہیں ہے۔ وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ بہرحال جلد بازی ہوئی ہے اور حقائق سامنے آنے کے بعد یہ بات واضح ہوئی ہے کہ مذاکراتی عمل اور مطالبات کے تسلیم کئے جانے اور دھرنا ختم ہونے تک تمام فیصلے شہداء کے ورثاء کی مرضی سے ہوئے ہیں لہٰذا میں یہ بیان واپس لیتا ہوں۔ اس میں ان کیلئے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اس میں ان کی سبکی نہیں بلکہ بڑائی ہے۔ اس طرح ایک اچھا پیغام جائے گا اگر وہ یہ بیان واپس لیتے ہیں۔ جیسا کہ ان کے بارے میں لوگوں کا خیال ہے کہ وہ ایک بہترین سیاستدان ہیں۔ تو اس طرح خود ان کیلئے بھی اچھا پیغام جائے گا۔

اسلام ٹائمز: مجلس وحدت مسلمین کے سیاست میں عملاََ وارد ہونے سے ملت تشیع کو فائدہ ہوگا؟
علامہ مرزا یوسف حسین: اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ملت تشیع پاکستان کی ہر سیاسی جماعت سے مایوس ہو چکی ہے۔ ایسی صورتحال میں اگر ایم ڈبلیو ایم ملت تشیع کے اعتماد پر پورا اترتی ہے تو اس کا فائدہ یقینا ہوگا۔

اسلام ٹائمز: پاکستان سنی تحریک نے ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکہ براستہ سعودی عرب پاکستان میں فرقہ واریت پھیلا رہا ہے۔ کیا کہنا چاہیں گے؟
علامہ مرزا یوسف حسین: بہرحال ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس بیان میں کافی حد تک صداقت ہے، کیونکہ امریکہ بحیثیت غیر مسلم ملک کھل کر تو مداخلت نہیں کر سکتا ہے، حالانکہ امریکہ یہ بھی کر رہا ہے۔ بلیک واٹر اور اس جیسی لاتعداد دہشت گرد گروہ اس نے مسلم ممالک میں پال رکھے ہیں۔ پاکستان میں بھی یہ سب ہمارے حکمرانوں کی نااہلی کا نتیجہ ہے۔ ہمارے حکمرانوں نے اپنا ایمان، ضمیر، ملک سب بیچ دیا ہے امریکہ کے ہاتھوں صرف مادی مفاد کیلئے۔ ورنہ اگر ہمارے حکمران اللہ ان کو توفیق دے، استقامت کا مظاہرہ کریں تو امریکہ میں جرات ہی نہیں ہو سکتی کہ وہ پاکستان میں مداخلت کرے۔ لہٰذا پاکستان میں ایک جری، نڈر، محافظ اسلام حاکم و قیادت و جماعت کی ضرورت ہے، جو پاکستان سے امریکی مداخلت کا خاتمہ کر سکے۔

اسلام ٹائمز: آپ نے پاکستان سے امریکی مداخلت کے خاتمہ کی بات کی، تو کیا پاکستان کی سنی شیعہ دینی جماعتوں کو نہیں چاہئیے کہ اس سلسلے میں مل کر الیکشن میں حصہ لیں اور صالح افراد کو اسمبلیوں اور پارلیمنٹ میں پہنچائیں تاکہ داخلہ و خارجہ پالیسی میں اثر انداز ہو سکیں؟
علامہ مرزا یوسف حسین: بالکل ایسا ہونا چائیے، ضروری ہے، کیونکہ اتحاد میں برکت ہے اور اگر سنی شیعہ مسلمان مل کر کوئی کام کریں چاہے وہ الیکشن میں حصہ لینا ہو یا کوئی اور قومی و ملی کام، اس سے بہتر کیا ہوگا۔ اس اتحاد کے سامنے کوئی بھی سیاسی جماعت میدان میں نہیں رہ سکتی۔ مگر بدقسمتی سے امریکی آلہ کاروں نے خود دینی جماعتوں کے اندر تفرقہ ڈالا ہوا ہے، دینی جماعتیں اس مسئلہ سے محفوظ نہیں ہیں۔ اگر علماء امریکہ کے خلاف کھڑے ہو جائیں، مثلاََ مولانا فضل الرحمان کھڑے ہو جائیں، مولانا سمیع الحق کھڑے ہو جائیں، سنی تحریک والے کھڑے ہو جائیں، جمعیت علماء پاکستان کھڑی ہو جائے اور ادھر سے شیعہ کھڑے ہو جائیں تو امریکہ کی سازشوں کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے اور امریکہ کو پاکستان سے نکالا جا سکتا ہے، بھگایا جا سکتا ہے۔ مگر معذرت کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ امریکہ کو بھگانے میں بہت سے دینی جماعتوں کا مفاد نہیں ہے۔ لہٰذا وہ اپنے اپنے مفادات کیلئے کام کر رہی ہیں۔ خدا ہم سب کو اسلام کی سربلندی کیلئے جدوجہد کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
خبر کا کوڈ : 242466
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش