0
Tuesday 29 Oct 2013 19:17

پاکستانی آئین اور دین اسلام کے باغی طالبان سے ہرگز مذاکرات نہ کئے جائیں، شاہد غوری

پاکستانی آئین اور دین اسلام کے باغی طالبان سے ہرگز مذاکرات نہ کئے جائیں، شاہد غوری
پاکستان سنی تحریک کے سینئر مرکزی رہنماء محمد شاہد غوری 1994ء سے سنی تحریک سے وابستہ ہیں۔ بنیادی طور پر آپ کا تعلق حیدرآباد سے ہے۔ سینئر مرکزی رہنماء کی حیثیت سے آپ پاکستان سنی تحریک میں انتہائی فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے وزیراعظم کے دورہ امریکا، کراچی آپریشن، پاکستان میں بیرونی مداخلت، او آئی سی کا کردار، طالبان کا طرز عمل، حکومت طالبان مذاکرات سمیت مختلف ایشوز پر محمد شاہد غوری کے ساتھ پاکستان سنی تحریک کے کراچی میں واقع مرکزی دفتر ’مرکز اہلسنت‘ میں ایک مختصر نشست کی، اس حوالے سے کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: وزیراعظم پاکستان کے حالیہ دورہ امریکا کے حوالے سے کیا کہیں گے؟ کیا مثبت نتائج برآمد ہونگے؟
محمد شاہد غوری: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو حکمران امریکا، برطانیہ وغیرہ کا دورہ کرتے ہیں، اس کے پیچھے انکے ذاتی مفادات ہوتے ہیں، اپنی حکومتوں کو مستحکم کرنے کیلئے بھی ان کیلئے ایسے دورہ جات ضروری ہوتے ہیں۔ نواز شریف سے قبل زرداری سمیت دیگر تمام شخصیات نے ایسے دورے کئے ہیں۔ بات یہ ہے کہ عالمی سطح پر پاکستان کئی عشروں سے مغربی ممالک کے دباﺅ میں چلا آ رہا ہے۔ تو حکمران بھی ایسے دوروں کو اپنے لئے ضروری سمجھتے ہیں۔ پھر حکومتیں چاہتی ہیں کہ انہیں بیرونی امداد ملے، قرضے ملیں، جس طرح موجودہ نواز حکومت نے آئی ایم ایف سے قرضے لئے، تو ایسے دورے اب ایک دستور سے بن گئے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ دورے کے اصل اہداف تو حاصل نہیں ہوئے ہیں، بلکہ ڈرون حملوں کو روکنے کا مطالبہ کیا گیا ہے جبکہ امریکا نے کہا ہے کہ وہ 2015ء تک ڈرون حملے جاری رکھے گا۔ اگر میں مختصراَ کہوں تو دیکھیں کسی بھی ملک کے دورے کے مثبت نتائج تو جب حاصل ہونگے جب ہماری بات کو اہمیت دی جائے گی، مگر اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پاکستان میں جاری موجودہ دہشت گردی کی وجہ سے ملک کا وقار عالمی سطح پر اتنا خراب ہو چکا ہے کہ ہماری کسی بھی بات کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔ عالمی سطح پر خصوصاَ مغربی ممالک ہمیں دہشت گردی کا گڑھ سمجھتے ہیں، پاکستان کو دہشت گرد بننے کی فیکٹری سمجھتے ہیں کہ جہاں سے دنیا بھر میں دہشت گرد ایکسپورٹ کئے جاتے ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ صرف تنقید نہیں کرنی چاہیئے، حکمرانوں اور اپوزیشن کو پاکستان کے مفاد میں عملی اقدامات کرنے چاہیئے، پاکستان کے امیج کو بہتر بنانے کیلئے مل جل کر پالیسی بنانی چاہیئے اگر یہ تمام ملکی مفاد میں مل کر کام کریں تو ڈرون حملے سمیت تمام مسائل پر قابو پانا انتہائی آسان ہو جائے گا۔

اسلام ٹائمز: کراچی میں جاری دہشت گردوں و جرائم پیشہ لوگوں کے خلاف آپریشن سے پرامید ہیں؟
محمد شاہد غوری: کم از کم دوعشروں سے کراچی دہشت گردی کی مکمل لپیٹ میں ہے، اس دہشت گردی کا شکار ہم بھی ہوئے ہیں، دیگر تمام جماعتیں بھی اس کی لپیٹ میں آئی ہیں، اس کے علاوہ بھی لوگ اس کا شکار ہوئے ہیں چاہے وہ گروہوں کی شکل میں ہوں، چاہے ہو لسانیت و مذہب کی بنیاد پر ہوئے ہوں۔ دیکھیں دہشت گردی میں جماعتوں سے وابستہ لوگوں کے کہیں زیادہ عام آدمی اس دہشت گردی کا شکار ہوا ہے کہ جس کیلئے کوئی آواز بلند کرنے والا نہیں ہے، جبکہ جماعتوں اور تنظیموں تو اپنے کارکنان کیلئے ہڑتالیں بھی کرتی ہیں، احتجاج و مظاہرے بھی کرتی ہیں۔ ہم نے کئی بار یہ بات کی ہے کہ حکومت کو سنجیدہ رہنا چاہیئے، کراچی میں جاری اس آپریشن کے نام پر سیاست نہیں ہونی چاہیئے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ کراچی میں دہشت گردی اور جرائم میں جو بھی ملوث ہے، چاہے وہ پاکستان سنی تحریک کا کارکن ہو یا متحدہ قومی موومنٹ کا، وہ اے این پی کا کارکن ہو یا پیپلز پارٹی کا یا اس کا تعلق کسی کالعدم گروہ سے ہو یا جماعت سے ہو، ایسے تمام عناصر کے خلاف بلاامتیاز سخت ترین کارروائی ہونی چاہیئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ حکومت و قانون نافذ کرنے والے اداروں کو آپریشن سے متعلق ابھی مزید موقع دینا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: کیا کراچی بدامنی کی ایک بڑی وجہ بیرونی مداخلت بھی ہو سکتی ہے؟ چاہے وہ امریکی سی آئی اے کی جانب سے ہو یا موساد اور بھارتی را کی جانب سے ہو۔
محمد شاہد غوری: بالکل مداخلت ہے۔ دیکھیں بلوچستان کی مثال ہمارے سامنے ہے، وہاں بھارتی مداخلت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، واضح ہو چکا ہے کہ بھارت بلوچستان میں مداخلت کر رہا ہے، وہاں دہشت گردی کو پروموٹ کر رہا ہے، لوگوں کو دہشت گردی کیلئے پیسے دے رہا ہے، وہاں سے بھارتی فوجی اسلحہ پکڑا جا رہا ہے، بھارتی لوگ بھی پکڑے گئے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ وہ کون لوگ ہیں جنہیں بھارت یا دیگر ممالک استعمال کر رہے ہیں، بدقسمتی کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وہ ہمارے پاکستانی لوگ ہیں، وہاں کے شہری ہیں، وہاں کی جماعتیں ہیں، تنظیمیں ہیں۔ اس حوالے سے حکومت اور ملکی حساس اداروں پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ لوگ جو غیر ملکی ایجنٹ ہونے کا کردار ادا کر رہے ہیں، انہیں اور انکے سرپرستوں کو عوام کے سامنے بےنقاب کیا جائے۔ خود بھارتی عوام کو بھی معلوم ہے کہ بھارت بلوچستان میں مداخلت کر رہا ہے۔ اسی طرح کراچی میں بھی بیرونی مداخلت ہے، کسی طرح اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیئے اور ممکن ہے کہ مذہبی، سیاسی، لسانی اور دیگر حوالوں سے دونوں طرف سے لوگوں کو قتل کیا جاتا ہو۔ ہم یہ کہتے ہیں بشمول سنی تحریک تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں کے بیرونی روابط کو چیک کیا جائے، کون بیرونی آقاﺅں کیلئے کام کر رہا ہے اور جو کوئی بھی بیرونی ایجنٹ کا کردار ادا کر رہا ہے، دہشت گردی، قتل و غارتگری کر رہا ہے اسے منظر عام پر لایا جائے، کٹہرے میں کھڑا کیا جائے، انہیں لگام دی جائے۔ اس حوالے سے حکومت اور ملکی سلامتی کے ذمہ دار حساس اداروں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے، انہیں سنجیدہ اقدامات کرنے ہونگے۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو درپیش مسائل کی ایک بڑی وجہ پاکستان کے اندر بیرونی مداخلت کا ہونا ہے؟
محمد شاہد غوری: پاکستان کو عالم اسلام میں نمایاں مقام و حیثیت حاصل ہے اور اس کی نمایاں حیثیت کو ختم کرنے کیلئے، اس کی طاقت کو ختم کرنے کیلئے پاکستان میں بیرونی مداخلت جاری ہو جس کے نتیجے میں یہاں دہشت گردی پروان چڑھ رہی ہے، پاکستان معاشی طور پر کھوکھلا ہوتا جا رہا ہے، اور ان تمام مداخلت میں ہمارے اپنی پاکستانی لوگ ہی استعمال ہوتے ہیں، چاہے وہ پیسوں کیلئے ہوں، اقتدار کیلئے استعمال ہوتے ہوں، یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے اور پاکستان کا نقصان ہے۔ پاکستان کو توڑنے کیلئے یہود و نصاریٰ سازشیں ہر پل یہاں جاری ہیں اور ہمارے لوگ ہی اس میں استعمال ہو رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: اقوام متحدہ پر تنقید تو کی جا رہی ہے مگر اسلامی ممالک کی نمائندگی کی دعویدار او آئی سی ہی اسلامی ممالک کو درپیش مسائل کے حل میں کسی بھی قسم کا کردار ادا کرتی نظر نہیں آتی، کیا کہیں گے اس حوالے سے؟
محمد شاہد غوری: او آئی سی کا کردار تو شروع سے ہی مشکوک ہے، عراق و افغانستان کو تباہ کر دیا گیا، لیبیا و لبنان پر حملے ہوئے، کشمیروں پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں، پاکستان بیرونی مداخلت کے نتیجے میں تباہ کاری کا شکار ہے، او آئی سی نے کسی بھی مسئلے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ او آئی سی مسلسل بےغیرتی و ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر رہی ہے، اسے اسلامی ممالک کو درپیش مسائل سے کوئی واسطہ نہیں۔ بلکہ صورتحال اس کے برعکس ہے کہ جب بھی جہاں بھی مسلمانوں کی سلامتی کو کوئی خطرہ درپیش ہوتا ہے تو وہاں او آئی سی کا ایسا گھناﺅنا کردار نظر آتا ہے کہ جس کی کوئی حد نہیں، او آئی سی اس وقت اپنا کردار ادا کرنے کے بجائے اپنی آنکھیں بند کر لیتی ہے۔

اسلام ٹائمز: اسلام تو بلاتفریق مذہب ،رنگ و نسل کسی بھی انسان کے ناحق قتل کی اجازت نہیں دیتا مگر دوسری جانب ہم طالبان کو دیکھتے ہیں کہ اسلام کے نام پر غیر مسلم تو کیا مسلمانوں کو بھی قتل کر رہے ہیں، طالبان کے اس طرز عمل کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
محمد شاہد غوری: یہ میرے پاس قرآن پاک کی سورة المائدة کی آیت 33 کا ترجمہ ہے جو کہ میں چاہتا ہوں اس حوالے سے بیان کروں کہ ”جو لوگ خدا اور اسکے رسول سے لڑائی کریں اور ملک میں فساد کرنے کو دوڑتے پھریں انکی یہی سزا ہے کہ قتل کر دیئے جائیں یا سُولی چڑھا دیئے جائیں یا انکے ایک ایک طرف کے ہاتھ اور ایک ایک طرف کے پاﺅں کاٹ دیئے جائیں یا ملک سے نکال دیئے جائیں، یہ تو دُنیا میں انکی رسوائی ہے اور آخرت میں ان کیلئے بڑا عذاب (تیار) ہے"۔ یہ قرآن پاک کہہ رہا ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے، تو یہ طالبان اور ان جیسے دیگر بہت سارے عناصر دین اسلام کو استعمال کر رہے ہیں اور ہمارا یہ موقف کوئی آج کا نہیں ہے بلکہ بیس سالوں سے ہم اس موقف کو دہرا رہے ہیں کہ جس کی وجہ سے ہماری تنظیم کی بنیاد پڑی۔ دین اسلام کے نام پر، مذہب کے نام پر، جہاد کے نام پر جو قتل و غارتگری کر رہے ہیں، دہشت گردی، انتہاءپسندی، شرپسندی کر رہے ہیں یا فرقہ واریت پھیلانے کی سازشیں کر رہے ہیں۔ انہیں دہشت گردوں کی وجہ سے آج دنیا بھر میں مسلمان مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ پوری دنیا میں مسلمان متاثر ہیں، چاہے وہ مغربی ممالک میں بسنے والے مسلمان ہوں یا افریقی ممالک میں، ان تمام کو جس رسوائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہ ان نام نہاد اسلام پسندوں اور جہاد کے نام پر دہشت گردی کرنے والوں کی وجہ سے کرنا پڑ رہا ہے۔ 

اب تو پاکستان کو ایک دہشت گرد ملک کہا جاتا ہے کہ جہاں دہشت گرد بنانے کی فیکٹریاں ہیں جہاں سے دنیا بھر میں دہشت گرد و دہشت گردی ایکسپورٹ کی جا رہی ہے۔ ان دہشت گردوں کی جانب سے دین اسلام کو دہشت گردی جوڑنے کی ناپاک سازش کی گئی ہے۔ ہمارے لوگوں نے جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور دہشت گردی اور قتل و غارتگری کرتے پھرتے ہیں، تو ان کی وجہ سے آج امت مسلمہ دنیا بھر میں مشکلات کا شکار ہو چکی ہے۔ آج خود پاکستان کو بھی ان طالبان دہشت گردوں کی جانب سے بدترین دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پاکستان سنی تحریک نے جو وزیراعظم پاکستان نواز شریف کو سفارشات بھیجی ہیں، دیگر حکمرانوں کو خط لکھے، ہم اس حوالے سے عوام میں شعور پیدا کرنے کیلئے کوشاں ہیں، وزیراعظم کو بھیجی گئی سفارشات میں ہم نے لکھا ہے کہ ان دہشت گردوں کو جو جہاد کے نام پر دہشت گردی و قتل غارتگری کر رہے ہیں، پھر اگر ان سے پوچھا جائے، ان جماعتوں سے پوچھا جائے کہ جو جماعتیں ان دہشت گردوں کو سپورٹ کر رہی ہیں، براہ راست بھی سپورٹ کر رہی ہیں اور بلاواسطہ بھی۔ تو ان سے جب پوچھا جاتا ہے کہ یہ طالبان دہشت گردی کر رہے ہیں اسلام کے نام پر، جہاد کے نام، تو ان کا کہنا یہ ہوتا ہے کہ یہ دہشت گردی امریکی مداخلت کی وجہ سے ہو رہی ہے، امریکی ڈرون حملوں کا ردعمل ہیں۔ میرا سوال ان لوگوں سے یہ ہے، اور میں یہ حکمرانوں سے بھی سوال کرتا ہوں کہ بازاروں میں جو دھماکے طالبان کر رہے ہیں، اس کی ذمہ داری قبول بھی کر رہے ہیں، وہاں کون سے امریکی موجود ہیں۔
 
مساجد، مزارات، امام بارگاہوں، درگاہوں اور دیگر مقدس مقامات میں دھماکے کرکے لوگوں کو شہید کیا جا رہا ہے، وہاں کون سے امریکی موجود ہیں، وہاں کون سی امریکی پالیسیوں پر بات ہو رہی ہوتی ہے، نشتر پارک میں جشن عید میلاد النبی (ص) کے موقع پر دھماکہ کیا جاتا ہے تو ہمیں بتایا جائے کہ وہاں کونسے امریکی موجود تھے، وہاں کون سی امریکی پالیسی بیان کی جا رہی تھی، عاشورا کے جلوسوں پر دھماکہ کیا جاتا ہے تو وہاں کون سے امریکی موجود تھے، تو یہ سب دین اسلام کے نام پر، مذہب کے نام پر یہ دہشت گردی ہے اور اس دہشت گردی کو روکنے کی ذمہ دار پاکستانی حکومت ہے، ملکی سلامتی کے حساس ادارے ہیں، ان طالبان کو لگام دی جائے، اپنی نام نہاد خود ساختہ شریعت کو نافذ کرکے طالبان و دیگر دہشت گرد عناصر یہ بتانا چاہتے ہیں جبکہ قرآن پاک اس بات کو کہہ رہا ہے کہ کچھ لوگ ایسے ہونگے جو قتل و غارتگری کر رہے ہونگے، لوگوں کو مار رہے ہونگے، اور امن تباہ کر رہے ہونگے اور جب ان سے پوچھا جائے گا کہ یہ کیا کر رہے ہو تو وہ کہیں گے کہ ہم تو دین کا کام کر رہے ہیں۔ تو یہ طالبان دہشت گرد وہی لوگ ہیں کہ جن کے بارے میں قرآن پاک نے واضح فرما دیا ہے کہ جس کا تذکرہ شروع میں سورة المائدة کی آیت 33 کے ترجمہ میں بیان کیا گیا ہے جو کہ بہت واضح ہے۔

اسلام ٹائمز: تو کیا طالبان سامراجی قوتوں کے اسلام دشمن ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں؟ نیز کیا یہ ایک خاص نکتہ نظر کو پاکستان میں بسنے والے تمام مسلمانوں پر تھوپنا چاہتے ہیں؟
محمد شاہد غوری: دیکھیں یہ اسلام کے خلاف بھی سازش ہے، سامراجی قوتوں کے ساتھ ساتھ کچھ اسلامی ممالک بھی اس سازش میں براہ راست ملوث ہیں جیسے سعودی عرب، کویت، اردن وغیرہ۔ کیونکہ اس دہشت گردی کو عقیدے کی جنگ بھی بنا دیا گیا ہے، یہ اپنا عقیدہ مسلط کرنے کیلئے جنگ ہے۔ اسی عقیدے کی جنگ کی آڑ میں امریکا نے افغانستان، عراق کو تباہ کر دیا، لیبیا کو تباہ کر دیا، اور اب ان کے حساب سے پاکستان کی باری ہے۔ تو اس سازش میں یہود نصاریٰ ملوث ہیں، انہی کے ایجنڈے پر یہ سب کام ہو رہا ہے، اور ہمارے لوگ اس انکے ہاتھوں استعمال ہو کر دہشت گردی و قتل و غارتگری کرتے ہیں، اس کو ثواب سمجھتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا حکومت کو اسلامی تشخص اور قومی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے طالبان سے مذکرات کی بجائے حکومتی رٹ اور آئین کی بالادستی کو یقینی بنائے دہشت گردوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کیلئے اقدامات کرنا چاہیئے؟
محمد شاہد غوری: پاکستان سنی تحریک نے واضح طور پر وزیراعظم پاکستان نواز شریف صاحب کو ارسال کی گئی سفارشات میں لکھا ہے کہ جن دہشت گردوں کو 40 ہزار افراد کا قتل کیا اور قبول بھی کیا، اس بات کو حکومت اور تمام ریاستی ادارے بھی جانتے ہیں کہ کن دہشت گردوں نے ان 40 ہزار لوگوں کو شہید کیا ہے، دین اسلام اور جہاد کے نام پر تعلیمی اداروں، اسکولوں، کالجوں میں دھماکے ہوئے، مساجد، امام بارگاہوں، درگاہوں، مزارات میں دھماکے ہوئے، جلوسوں کو نشانہ بنایا گیا، بازاروں، قانون نافذ کرنے والے اداروں، حکومتی دفاتر، ٹریننگ سینٹرز، پاک فوج پر حملے ہوئے، معصوم بچوں، خواتین، غیر ملکیوں، سیاحوں، اقلیتی برادری ان دہشت گردوں کا نشانہ بنے، غرض کوئی بھی ان سے محفوظ نہیں رہا، تو سینکڑوں کی تعداد میں دہشت گردں نے حملے کئے ہیں۔ دوسری جانب طالبان سے مزاکرات کیا جائے یا ان کے خلاف فوجی آپریشن کیا جائے۔
 
اس حوالے سے دہشت گردی کا سب سے زیادہ نشانہ بننے والے حنفی بریلوی مکتب فکر کے کسی نمائندے کو حکومتی مذاکراتی عمل میں دعوت نہ دینا، مشاورت نہ کرنا، صورتحال سے آگاہ نہ کرنا کئی شکوک و شبہا ت کا باعث ہے۔ بہرحال اس حوالے سے اصل متاثرین سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی بلکہ جن لوگوں کو دھاندلی کے ذریعے، سلیکشن کے ذریعے نہ کہ منتخب ہو کر، عوامی نشستوں پر بٹھائے گئے ہیں، یہ لوگ جو سیکیولر ذہنیت کے حامل ہیں، جنہیں اسلام و پاکستان سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، یہ سیکیولر لوگ جو اپنی جان بچانے کیلئے عوام کے کروڑوں روپے تو خرچ کر دیتے ہیں مگر عوام کے تحفظ کیلئے کسی قسم کا اقدام نہیں کرتے۔ تو اب ان 40 ہزار لوگوں کو شہید کرنے والے دہشت گردوں سے بیٹھ کر ہم بات کریں کہ اب دہشت گردی اور قتل و غارتگری چھوڑ دو، تم بتاﺅ تمہیں کیا چاہیئے، تو یہ تو ناانصافی ہے، ان 40 ہزار جانوں کے ساتھ۔ لہٰذا ان کو کٹہرے میں لایا جائے، جنہوں نے قتل کئے ہیں، جنہوں نے جرم کئے ہیں، انہیں سزا ملنی چاہئیے۔ دیکھیں اب جو قاتل ہے تو کیا اب ہم پاکستان کا قانون یہ بنانا چاہ رہے ہیں، پاکستان میں ایک نئی ریت یہ ڈالنا چاہ رہے ہیں ہم کہ جو قتل کرے، جو دہشت گردی کرے، اس کے ساتھ مذاکرات کر لئے جائیں کہ بھائی اب تم دہشت گردی نہیں کرو، اب تم بتاﺅ کہ تم کیا چاہتے، یعنی انہیں سزا نہ دی جائے تو یہ تو 40 ہزار جانوں کے ساتھ زیادہ و ناانصافی ہے۔ لہٰذا مجرمین کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے، مذاکرات کا مطلب تو یہ ہونا چاہئیے کہ تم عام شہری بنو، تمہاری حکمرانی ہیں ہے کہ تمہارے حساب سے پاکستان چلے گا۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ پاکستان چلے گا آئین و قانون کے حساب سے ، اسی آئین و قانون کے دائرہ میں ان کو لایا جائے جو عین اسلام ہے۔ آخر میں، میں یہی کہوں گا کہ پاکستانی آئین اور دین اسلام کے باغیوں سے ہرگز مذاکرات نہ کیے جائیں بلکہ آئین کے مطابق قانون کا نفاذ عمل میں لایا جائے۔
خبر کا کوڈ : 315424
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش