0
Tuesday 28 Jan 2014 17:10
نواز لیگ 9 ماہ میں دہشتگردی کیخلاف پالییسی نہیں بنا سکی

تحریک انصاف دہشتگردی ہی نہیں دہشتگردوں کی بھی مخالف ہے، اعجاز چوہدری

تحریک انصاف دہشتگردی ہی نہیں دہشتگردوں کی بھی مخالف ہے، اعجاز چوہدری
اعجاز چوہدری کا اصل نام اعجاز احمد چوہدری ہے، آپ پاکستان تحریک انصاف پنجاب کے صدر ہیں۔ 15 ستمبر 1956ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ آپ کی شادی جماعت اسلامی کے سینئر اور بانی رہنما میاں طفیل محمد کی صاحبزادی کے ساتھ ہوئی۔ پیشہ کے اعتبار سے سول انجینر ہیں، سوشل ورکر اور سیاست دان بھی ہیں۔ اعجاز چوہدری نے اپنی سیاست کا آغاز جماعت اسلامی سے کیا۔ 35 برس جماعت کے ساتھ گزار کر علیحدگی اختیار کر لی اور 2007ء میں پی ٹی آئی جوائن کی۔ انہیں عمران خان نے ذاتی طور پر پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی۔ اعجاز چوہدری کسان کئیر پرائیویٹ لمٹیڈ کے بانی اور چیف ایگزیکٹو آفیسر ہیں۔ ان کی کمپنیاں زرعی ادویات کے حوالے سے مارکیٹ میں مصروف عمل ہے۔ 1990ء میں جب میاں عامر (دنیا نیوز چینل کے مالک) لاہور کے میئر بنے تو یہ ان کے ڈپٹی میئر تھے۔ گذشتہ روز اسلام ٹائمز نے ان کے ساتھ ایک نشست کی، جس کا احوال اپنے قارئین کے لئے پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)


اسلام ٹائمز: مجلس وحدت مسلمین کے دھرنے میں آپ نے شرکت کی، وہاں نوجوانوں کے شدید ردعمل کے باعث آپ کو واپس آنا پڑ گیا، نوجوانوں کے رویئے نے کچھ سوچنے پر مجبور کیا۔؟

اعجاز چوہدری: ہم وہاں دہشت گردی کا شکار ہونے والوں اور شہدائے کوئٹہ کے لواحقین کیساتھ اظہار یکجہتی کیلئے گئے تھے، نوجوان تو جذباتی ہوتے ہیں، ان کا کیا ہے، ہمیں مجلس وحدت مسلمین کی قیادت نے پہلے ہی کہا تھا کہ آپ نہ آئیں، ہم آپ کے شکر گزار ہیں، لیکن چونکہ ہمیں بھی دہشت گردی کے متاثرین سے ہمدردی ہے، ہم بھی ان کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں، اس لئے ہم نے وہاں جانا مناسب سمجھا، لیکن وہاں جو بدمزدگی پیدا ہوئی، وہ مجلس وحدت مسلمین کے کارکنوں نے پیدا نہیں کی بلکہ وہ ایجنسیوں کے لوگ تھے، جو پنجاب حکومت کے ایما پر وہاں موجود تھے اور انہوں نے وہاں جو کچھ کیا وہ منصوبہ بندی کے تحت کیا تھا، آپ نے دیکھا کہ وہاں عمران خان کے خلاف نعرے لگانے والوں دو چار تھے جبکہ ان کو روکنے والے سو دو کے قریب تھے، تو اس سے پتہ چلتا ہے وہ مجلس وحدت مسلمین کے کارکن نہیں تھے اور وہاں ان شرپسندوں نے مجلس وحدت مسلمین کے ایک کارکن کو بھی اس لئے تشدد کا نشانہ بنا ڈالا کہ وہ انہیں منع کر رہا تھا کہ پی ٹی آئی والے ہمارے مہمان ہیں، آپ ان کے خلاف نعرے بازی نہ کریں۔ وہاں مجلس وحدت مسلمین کے رہنمائوں جن میں افسر رضا خان صاحب اور ان کے امیدوار برائے صوبائی اسمبلی رائے ناصر علی موجود تھے، انہوں نے ہم سے ملاقات بھی کی اور ہمارے ساتھ میڈیا سے گفتگو بھی کی تو انہوں نے ہمارے آنے کی قدر کی اور ہمارا شکریہ ادا کیا، لیکن وہ جو دو چار لوگ تھے وہ مجلس وحدت مسلمین کے کارکن نہیں تھے۔ اس حوالے سے مجلس وحدت کے رہنمائوں نے بھی ہمیں بعد میں بتایا کہ وہ نعرے بازی کرنے والے ہمارے کارکن نہیں تھے۔ ہمیں پہلے ہی پتہ تھا پنجاب حکومت ایسے ہی ہتھکنڈے استعمال کرتی ہے اور وہ اس موقع پر بھی ایسا ہی کرے گی اور پھر ایسا ہی ہوا۔ اس حوالے سے میڈیا کا کردار لائق تحسین ہے جس نے اس کو بہتر انداز میں کور کیا اور شرپسندوں کو بے نقاب کیا۔

اسلام ٹائمز: لیکن وہاں جو ردعمل دیکھنے میں آیا، وہ کسی حد تک بجا نہیں تھا، کہ تحریک انصاف ایک طرف دہشتگردوں کیساتھ مذاکرات کی حامی ہے تو دوسری طرف متاثرین دہشتگردی کی بھی حمایت کرتی ہے، یہ دوہرا معیار نہیں۔؟
اعجاز چوہدری: ہم نے دہشت گردوں کی کبھی بھی حمایت نہیں کی، یہ اعزاز بھی تحریک انصاف کو ہی حاصل ہے کہ ہم نے لشکر جھنگوی کی مذمت سب سے پہلے کی، جب یہ لوگ ان سے ڈرتے تھے۔ تحریک انصاف واحد سیاسی جماعت ہے جو تمام مذہبی فرقوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کی کوشش کر رہی ہے، عمران خان یہ صلاحیت رکھتے ہے جو پوری قوم کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرسکتے ہیں، ملک شدید ترین بحرانوں کا شکار ہے، گذشتہ آٹھ ماہ سے حکمران جماعت (ن) لیگ اقتدار میں آئی ہے، الیکشن سے پہلے انہوں نے عوام سے جو وعدے اور دعوے کیے تھے کہ ہم ملک میں امن قائم کریں گے، نہ تو وہ وار آن ٹیرر کیخلاف کوئی پالیسی لاسکے اور نہ ہی ملک میں امن قائم کرسکے۔ آل پارٹیز کانفرنس میں جو قوم نے انہیں مینڈیٹ دیا تھا، آج تک ملک میں امن کے قیام کیلئے کوئی عملی اقدامات نہیں کئے گئے بلکہ حکمران جماعت مکمل طور پر فیل ہوچکی ہے، تحریک انصاف نے دہشت گردی کی ہی نہیں بلکہ دہشت گردوں کی بھی کھل کر ہمیشہ مذمت کی ہے، اگر حکومت آخری سطح پر آپریشن کو مسئلے کا حل سمجھتی ہے تو اس سے پہلے قوم کو اعتماد میں لیا جائے۔ کیونکہ آپریشن کے نتائج خطرناک ہوسکتے ہیں، ہم یہ کہتے ہیں کہ آپریشن کے ردعمل سے کہیں ملک کے حالات زیادہ خراب نہ ہو جائیں، اس لئے ہم کہتے ہیں کہ جب گھی سیدھی انگلی سے نکل سکتا ہے تو ٹیڑھی انگلی کی کیا ضرورت ہے۔

اسلام ٹائمز: تو آپ مسلم لیگ نون کی حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں اور اب تو حکومت بہت سے اداروں کی نجکاری کرنے بھی جا رہی ہے، کیا اس سے ملک کو فائدہ نہیں ہوگا۔؟
اعجاز چوہدری: حکومت زیادہ دیر چلتی نظر نہیں آرہی، اس لئے کہ ان کی کارکردگی نہایت مایوس کن ہے، جس سے لوگ شدید مایوسی کا اظہار کر رہے ہیں۔ موجودہ حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کے سبب ملک آج تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ ان کی پیدا کردہ مہنگائی کی چکی میں ہر کوئی پس رہا ہے مگر یہ اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کے بجائے مزید سنگین غلطیوں کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ انہوں نے نجکاری کی جو سکیم شروع کی ہے اس سے بیروز گاری مزید بڑھے گی، ملک میں پہلے ہی پڑھے لکھے لوگ ڈگریاں تھامے نوکریوں کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں، اس پر نجکاری سے مزید افراد سڑکوں پر آجائیں گے، جس سے ملک میں بے چینی، افراتفری اور لاقانونیت میں اضافہ ہو جائے گا، جتنی مرضی نجکاری کر لیں ترقی کا پہیہ اسوقت چلے گا جب توانائی بحران حل کر لیں گے۔ اگر بجلی اور گیس ہی نہیں ہوگی تو صنعت کیسے آباد ہوگی۔ فیکٹریوں میں کام کی رفتار اسی صورت بڑھ سکتی ہے جب ان کا توانائی کا مسئلہ حل کریں گے، بصورت دیگر آپ جتنا مرضی زور لگا لیں، بحران حل نہیں ہوسکتا۔ اس کیلئے پلاننگ کی ضرورت ہے مگر ہمارے حکمرانوں کو اپنے اللوں تللوں سے فرصت نہیں، وہ بھلا مزدور کے متعلق کیا سوچیں گے۔ اربوں روپے کا منافع دینے والے اداروں کی نجکاری کا فیصلہ عوام کے اقتصادی اور معاشی قتل کے مترادف ہے ایسے وقت میں جب مہنگائی اور بے روز گاری کے سبب لوگ مارے مارے پھر رہے ہیں، ایسے اداروں کی نجکاری مزید بے روز گاری بڑھائے گی۔ صرف نجکاری کے سبب پی آئی اے کے 19 ہزار ملازمین کے بے روزگار ہونے کا خدشہ ہے۔ حکمرانوں نے ملک کو امریکہ کے پاس گروی رکھ چھوڑا ہے، اپنے اللوں تللوں کے لئے یہ مزید قرضے مانگ رہے ہیں۔ آئی ایم ایف کے سامنے یہ گردن جھکائے کھڑے ہیں۔ اگر حکومت نے نجکاری کا فیصلہ واپس نہ لیا تو تحریک انصاف مزدورں کیساتھ سڑکوں پر کھڑی ہوگی۔ ہم ملک کو تباہ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

اسلام ٹائمز: بلدیاتی الیکشن التوا کا شکار ہو رہے ہیں، کیا ایسا نہیں لگ رہا کہ حکومت بلدیاتی الیکشن کرانے میں مخلص ہی نہیں۔؟
اعجاز چوہدری: سپریم کورٹ کی طرف سے سندھ اور پنجاب میں بلدیاتی انتخابات سے متعلق فیصلہ شفاف الیکشن کی جانب پہلا قدم ہے، اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ نئی قانونی سازی اور نئی حلقہ بندیوں کا فیصلہ حکمرانوں کی دھاندلی کی راہ میں رکائوٹ بنے گا۔ ہم یہی مطالبہ کرتے آ رہے تھے کہ حکومت نے بلدیاتی الیکشن میں کامیابی کے لئے جو حلقہ بندیاں کی ہیں وہ بدنیتی پر مبنی ہیں، مگر حکومت نے ہماری بات پر دھیان نہیں دیا جبکہ سپریم کورٹ میں ہماری سنی گئی، جنہوں نے نئی حلقہ بندیوں کا حکم صادر کیا ہے۔ ہمارا پھر یہی مطالبہ ہے کہ نئی حلقہ بندیاں الیکشن کمیشن کے ذریعے کرائی جائیں اور صوبائی حکومت کے اختیارات بھی محدود کئے جائیں، کیونکہ صوبائی حکومتیں انتظامیہ پر اثرانداز ہوتی ہیں، حکومتیں افسروں کو دبائو میں لے آتی ہیں، جو ان کے اشاروں پر انتخابات میں دھاندلی نہیں کراتے۔ جنرل الیکشن میں یہ سارا منظر نامہ دیکھا گیا۔ یہاں بھی مسلم لیگ نون نے اپنی مرضی کے افسر تعینات کر رکھے تھے، ہم نے ان کیخلاف انتخابی عذر داریاں دائر کر رکھی ہیں۔ مگر کورٹ سے بروقت فیصلہ نہ آنے سے دھاندلی سے جیتے ہوئے لوگ بڑے عہدوں پر فائز ہیں۔ یہ خدشہ بھی ہے کہ عدالتی فیصلے کے سبب حکومت کہیں بلدیاتی الیکشن سے راہ فرار نہ اختیار کر لے۔ الیکشن میں دھاندلی کے حوالے سے طارق ملک کا استعفٰی سب کے سامنے ہے۔

اسلام ٹائمز: نیٹو سپلائی کیخلاف دھرنے سے کیا ڈرون حملے رکے ہیں اور کیا آپ کی پارٹی نے اپنے اہداف حاصل کر لئے ہیں، اور یہ بھی بتایئے کہ اے پی سی کا مینڈیٹ ملنے کے باوجود حکومت طالبان کے خلاف ایکشن کیوں نہیں لے رہی۔ نہ مذاکرات کر رہی ہے اور نہ آپریشن، شدید دبائو کے باوجود آپریشن کے حوالے سے حکومتی حیثیت واضح نہیں۔؟
اعجاز چوہدری: یہ کہنا کہ نیٹو سپلائی کی بندش سے کچھ حاصل نہیں بالکل بے بنیاد ہے، اس اقدام سے ڈرون حملوں کے خلاف اقوام متحدہ میں قرارداد متفقہ طور پر منظور ہوچکی ہے، اس سے دنیا بھر میں ہماری آواز پہنچی ہے اور دنیا نے محسوس کیا ہے کہ واقعی ڈرون حملے ہمارے ملک کی وحدت اور سلامتی کے خلاف جا رہے ہیں۔ اس سے خودکش حملے بڑھے ہیں اور دہشت گردی کا خاتمہ بھی نہیں ہوسکا۔ اس لئے دنیا نے قرارداد پر متفقہ ردعمل اختیار کیا۔ نواز لیگ کے دوہرے معیار کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اقتدار میں آنے سے پہلے یہ کس طرح ڈرون حملوں کے خلاف نیٹو سپلائی روکنے کی باتیں کرتے تھے، مگر اقتدار ملتے ہی جیسے انہیں سانپ سونگھ گیا ہو، انہوں نے نیٹو سپلائی کیا روکنا تھی، یہ تو اس پر بات کرنے کو بھی تیار نہیں، بلکہ جب ہم نے نیٹو سپلائی روک دی تو مسلم لیگ نون نے اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور کہا کہ اس طرح ہم دنیا سے الگ رہ جائیں گے جبکہ ہمارے موقف میں سچائی تھی۔ ایک طرف تو دنیا ہمارے موقف کو سمجھ گئی، دوسرا ڈرون حملوں میں کمی آگئی۔ ہم تو اب بھی کہتے ہیں کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کئے جائیں، مذاکرات سے ملک میں دہشت گردی میں کمی آجائے گی۔ حکومت اس طرف آ ہی نہیں رہی، حکومت نے وزیرستان میں آپریشن کرکے کئی دفعہ کوشش کر لی اس کا خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوسکا، اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ وزیرستان میں آپریشن ختم کرکے گفتگو اور مذاکرات کا آغاز کیا جائے۔ طالبان سے مذاکرات کا جو ٹاسک مولانا سمیع الحق کو دیا گیا، انہیں پورا کرنے دیا جائے۔ مولانا سمیع الحق پر حکومت اور طالبان دونوں کو اعتماد ہے۔ اس لئے حکومت کو چاہئے کہ وہ مولانا فضل الرحمن کی باتوں میں نہ آئے اور مولانا سمیع الحق کو مذاکرات کے لئے آگے کرے۔

اسلام ٹائمز: مولانا فضل الرحمن کو کیا مسئلہ ہے، وہ بھی تو کردار ادا کرسکتے ہیں۔؟
اعجاز چوہدری: جب حکومت نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کیلئے مولانا سمیع الحق کو ٹاسک دیا تو مولانا فضل الرحمن ناراض ہوگئے کہ مجھے مائنس کیوں کر دیا گیا ہے اور انہوں نے باقاعدہ حکومت سے احتجاج کیا کہ جناب ہم بھی ہیں، تو اس کے بعد مولانا سمیع الحق کے ساتھ حکومت اپنے ''معاہدے'' سے مکر گئی اور پھر مولانا سمیع الحق کو سائیڈ پر کر دیا گیا ہے۔ اب حکومت کی بھی اپنی مجبوری ہے، جس کے تحت وہ ہمیشہ اپنے مفاد کو ہی دیکھتی ہے، اسے ملکی اور قومی مفاد سے بھی کوئی غرض نہیں۔ جہاں تک مولانا فضل الرحمن کے کردار کی بات ہے تو جو کردار مولانا سمیع الحق ادا کرسکتے ہیں وہ مولانا فضل الرحمن کے بس کی بات نہیں۔ مولانا سمیع الحق کے حوالے سے طالبان میں ایک نرم رویہ موجود ہے اور وہ انہیں احترام بھی دیتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: پرویز مشرف غداری کیس کو کس نظر سے دیکھتے ہیں، بہرحال مشرف نے پاکستان کو نقصان تو پہنچایا ہے، اب کیا انہیں بیرون ملک بھیج دیا جائے گا۔؟
اعجاز چوہدری: پرویز مشرف کو غداری کیس میں مقدمے سے بچانے کیلئے ہسپتال منتقل کیا گیا تھا، اس معاملے میں پہلے تو ایک ہفتہ وزیر داخلہ خاموش رہے کہ انہیں کس کی مرضی سے عدالت آتے ہوئے ہسپتال منتقل کیا گیا۔ ہم تو پہلے دن سے ہی کہہ رہے تھے کہ پرویز مشرف کو این آر او تھری کے ذریعے بچانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، جس طرح پہلے سابق صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم نواز شریف ایک این آر او کے نتیجہ میں بیرون ملک گئے تھے، پھر دوسرے این آر او کے ذریعے واپس آگئے۔ اب ایک اور این آر او جسے ہم این آر او تھری کہہ سکتے ہیں کے ذریعے پرویز مشرف کو راستہ فراہم کیا جا رہا ہے۔ ماضی کی طرح یہاں بھی بعض ملکی و غیر ملکی طاقتیں اپنی اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اندرون خانہ اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کوئی بھی قانون سے بالا تر نہیں ہوسکتا، اس لئے پرویز مشرف کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے، تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوسکے۔ اگر اس بار فیصلہ ہوگیا اور کسی آمر کو سزا مل گئی تو پھر کسی کو آئین پامال کرنے کی جرات نہیں ہوگی۔ مگر حکمران ایسا نہیں کریں گے۔ اس لئے کہ ان کی باگ ڈور کسی اور کے ہاتھ میں ہے اور ان کی حکومت کے فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں، اس لئے پرویز مشرف کے بچ نکلنے کے امکانات زیادہ ہیں۔
خبر کا کوڈ : 345847
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش