0
Thursday 27 Feb 2014 22:35
ہماری بھرپور کوشش ہے کہ قوم کو سیاسی بنیاد پر تقسیم ہونے سے بچائیں

مرکزی انجمن امامیہ پر بلاجواز پابندی لگائی گئی، فیصلہ پر نظر ثانی نہ ہوئی تو عدلیہ کا رخ کرینگے، فقیر شاہ

مرکزی انجمن امامیہ پر بلاجواز پابندی لگائی گئی، فیصلہ پر نظر ثانی نہ ہوئی تو عدلیہ کا رخ کرینگے، فقیر شاہ
فقیر شاہ کا تعلق گلگت شہر کے علاقے خومر سے ہے اور آپ نے نہایت حساس حالات میں ملت جعفریہ گلگت کے نمائندہ و مشترکہ پلیٹ فارم مرکزی انجمن امامیہ کی صدارت سنبھالی تھی۔ آپ ہی کے دور میں سانحہ کوہستان اور سانحہ چلاس رونما ہوئے اور اسی دوران توازن کی روایتی ظالمانہ پالیسی کے تحت حکومت کی جانب سے مرکزی انجمن امامیہ گلگت پر پابندی عائد کر دی گئی اور فقیر شاہ سمیت انجمن کے دیگر کئی عہدیداران کو بےبنیاد مقدمات میں کئ ماہ تک پابند سلال بھی رکھا گیا۔ اسلام ٹائمز نے ان سے حالات حاضرہ اور گلگت کی موجودہ صورتحال پر ایک خصوصی انٹریو کیا ہے جو قارئین کیلئے پیش خدمت ہے۔

اسلام ٹائمز: مرکزی انجمن امامیہ گلگت ملت جعفریہ کا واحد مشترکہ و نمائندہ پلیٹ فارم تھا جس پر پابندی کے بعد کوئی موثر آواز تک نہ اٹھائے جانے پر عوامی سطح پر طرح طرح کے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں، کیا آپکی طرف سے اس حوالے سے ابتک کوئی پیشرفت اور اگر نہیں ہے تو اسکی وجوہات کیا ہیں؟
فقیر شاہ: دیکھئے جی، اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں اور یہ روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اب بھی ملت جعفریہ گلگت کے اکثریتی عوام مرکزی انجمن امامیہ کو ہی اپنا مشترکہ نمائندہ پلیٹ فارم سمجھتے ہیں اور اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ پابندی کے حکومتی اعلان کے بعد سے ابتک جب کبھی ہم نے ذیلی انجمنوں اور دیگر مرکزی و علاقائی تنظیموں کی کال دی ہے، ہمیں بھرپور پذیرائی ملی ہے اور ہماری طرف سے متعدد اجلاس منعقد ہو چکے ہیں۔ جہاں تک سوال ہے انجمن پر پابندی کے خلاف موثر قدم اٹھانے کا تو اس حوالے سے عرض کرتا چلوں کہ چونکہ شہید آغا سید ضیاءالدین رضوی (رہ) کی المناک شہادت کے بعد مرکزی انجمن امامیہ قبلہ آغا سید راحت حسین الحسینی کی سرپرستی میں کام کر رہی تھی لہٰذا ہمارا ہر فیصلہ ان سے مشاورت کیساتھ ہی ہوتا رہا ہے اور اس حوالے سے بھی آغا صاحب سے متعدد نشستیں ہو چکی ہیں اور اس موضوع پر تفصیلی گفت و شنید ہو چکی ہے کہ قیام پاکستان سے قبل کے اس نمائندہ پلیٹ فارم پر بلاجواز پابندی کو ہٹوانے کیلئے کیا طریقہ کار اختیار کیا جائے اور حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے آغا صاحب کی ہدایات کی روشنی میں ہی ابتک ہم خاموشی کیساتھ اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں اور ہم نے اس بلاجواز اور توازن کی ظالمانہ پالیسی کے تحت عائد کی جانے والی پابندی کو روز اول سے ہی تسلیم کرنے سے انکار دیا تھا اور انشاءاللہ ضرورت پڑی تو انصاف کے حصول کیلئے عدالیہ سے رجوع بھی کرینگے مگر ملت جعفریہ کے حقوق کیلئے اس نمائندہ پلیٹ فارم سے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے اور یہ پابندیاں اور اسیری ہمیں ہمارے مشن سے دور نہیں کر سکے گی، انشاءاللہ۔

اسلام ٹائمز: سانحہ کوہستان کے موقع پر مرکزی انجمن امامیہ کی طرف سے فقید المثال احتجاجی تحریک چلائی گئی اور ایک چارٹر آف ڈیمانڈ بھی پیش کیا گیا جس کو گلگت بلتستان کی دیگر کئی سیاسی و مذہبی جماعتوں کی حمایت بھی حاصل تھی اور اس وقت کے وزیر داخلہ رحمان ملک سے ہونے والے مذاکرات میں اس میں شامل تمام مطالبات کو تسلیم کرنے کا وعدہ بھی کیا گیا مگر ان میں سے بہت سے مطالبات پر آج تک عمل درآمد نہ ہوا اسکی کیا وجوہات ہیں؟
فقیر شاہ: آپکے سوال میں ہی اس سوال کا آدھا جواب ہے کہ چونکہ مرکزی انجمن امامیہ کے پلیٹ فارم سے سانحہ کوہستان کے بعد ہم نے موثر احتجاجی تحریک چلا کر اور تاریخی دھرنا دیکر اس وقت کی وفاقی حکومت کو ہمارے مبنی برحق مطالبات اور چارٹر آف ڈیمانڈ کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا تھا اور آپ نے دیکھا اور تاریخ شاہد ہے کہ ہمارے اس موثر احتجاج کی بدولت ہی وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک کو دو دفعہ ہنگامی بنیادوں پر گلگت آنا پڑ گیا مگر بعض ناقدین اور ہمارے خارجی دشمنوں کو ہمارا یہ منظم اور موثر احتجاج ہضم نہیں ہوا اور انہوں نے ہمارے خلاف سازشیں شروع کر دیں اور پہلے مرحلے میں بعض سیاسی مفاد پرست عناصر کی شکل میں موجود ہمارے داخلی افراد کے ذریعے ہی مرکزی انجمن امامیہ کیخلاف اقدامات کا سلسلے میں راہ ہموار کی گئی اور پھر سانحہ چلاس کے بعد توازن کی ظالمانہ پالیسی کے تحت مجھ سمیت مرکزی انجمن امامیہ کے تمام مرکزی عہدیداران پر بےبنیاد مقدمات قائم کرکے ہماری گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں اور اسکے بعد مرکزی انجمن امامیہ پر ایک بدنام زمانہ دہشت گرد تنظیم کیساتھ موازانہ کراتے ہوئے بلاجواز طور پر پابندی عائد کر دی گئی حالانکہ سب کو معلوم ہے کہ مرکزی انجمن امامیہ، ملت جعفریہ گلگت کا مشترکہ و نمائندہ پلیٹ فارم جو قیام پاکستان کے قبل سے قائم ہے اور پورے مکتب کی نمائندگی کرتی ہے اور متعدد اہم مواقع پر حکومت اور عوام کے مابین پل کا کردار بھی ادا کرتی رہی ہے مگر ناقدین اور ہمارے بعض مفاد پرست سیاستدانوں کی ایماء پر ہم پر بلاجواز طور پر پابندی عائد کی گئی اور چارٹر آف ڈیمانڈ کو بھی سردخانے میں ڈال دیا گیا تاہم ہم سمجھتے ہیں کہ شہداء کے لواحقین کیلئے 20 لاکھ امداد اور انکے ورثاء کو سرکاری ملازمتیں دلوانے سمیت گلگت کیلئے پی آئی اے کی اضافی پروازیں چلانے جیسے اہم مطالبات فوری طور پر منظور ہوئے۔

اسلام ٹائمز: ماضی میں جب بھی سیاسی و کسی بھی معاملے پر داخلی اختلافات جنم لیتے تو مرکزی انجمن امامیہ گلگت کا پلیٹ فارم ثالثی کا کردار اداء کرتا بالخصوص انتخابات کے موقع پر اس پلیٹ فارم کا اہم رول ہوتا، چونکہ گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے انتخابات رواں سال ہونے ہیں اور ملت جعفریہ کی دو بڑی سیاسی جماعتوں اسلامی تحریک اور ایم ڈبلیو ایم نے بھی ان انتخابات میں بھرپور حصہ لینے کا اعلان کر دیا ہے، اس ماحول میں مذہبی ووٹ بنک تقسیم ہونے کا اندیشہ ہے، مرکزی انجمن امامیہ کی پابندی میں کون ثالثی کا کردار ادا کریگا؟
فقیر شاہ: جی انشاءاللہ سب بہتر ہوگا، قبل از وقت قیاس آرائیوں سے اجتناب کرنا چاہیئے، ہم آغا سید راحت حسین الحسینی اور دیگر علماء کرام اور بزرگان سے اس حوالے مشاورت کر رہے ہیں اور ہماری بھرپور کوشش ہے کہ قوم کو سیاسی بنیاد پر تقسیم ہونے سے بچائیں جس کا براہ راست فائدہ ہمارے دشمن کو پہنچے گا چونکہ ہم ایک حساس خطے میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور عالمی و علاقائی صورتحال بھی اس کی متحمل نہیں ہو سکتی ہے۔ انشاءاللہ مرکزی انجمن امامیہ تمام علماء کرام، عمائدین اور بزرگان کو اعتماد میں لیکر قوم و ملت کے وسیع تر مفاد میں اہم فیصلہ جات کرکے ان پر عمل درآمد کو یقنی بنائیگی۔
خبر کا کوڈ : 356260
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش